شہر بھر میں 50 سے زائد مقامات پر دھرنے
پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی اپنی تمام تر خوبیوں، رعنائیوں کے باوجود تاریخی طور پر مسائل کا شکار ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کی اور اس شہر میں رہنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ وجوہ تو کئی ہیں لیکن اس کی اصل وجہ اس کو کسی کا ’’اون نہ کرنا“، صرف ”اپنا اپنا“ کی تکرار کرنا لیکن درحقیقت اس سے غیروں سے بھی بدتر سلوک کرنا ہے۔ اگر اس شہر کو کسی نے اپنا سمجھا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، اور جماعت اسلامی کی یہ انفرادیت ہے کہ جب اسے اس شہر کی خدمت کا موقع ملا تو اس نے میئر عبدالستار افغانی اور سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں یہ ثابت کیا کہ اس کے لوگ دیانت دار بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔۔۔ اور جماعت اسلامی اقتدار میں نہیں رہی تو بھی جس قدر ممکن ہوا اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس کے قائدین اور کارکنان نے اپنا سب کچھ اس شہر کے لیے لگایا اور لگا رہے ہیں۔ وہ اس شہر کے لیے جہاں ایوانوں میں اواز اٹھاتے ہیں وہیں گلی محلوں اور سڑکوں پر بھی اس شہر کا حق دلانے کے لیے نکلتے ہیں۔ اور اِس بار تو جماعت اسلامی کراچی کی ”حقوق کراچی تحریک“ کے عنوان سے مہم امیرجماعت اسلامی کراچی کی قیادت میں بہت برق رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی ہر اہم ایشو پر بات کررہی ہے، لوگوں کے چھوٹے بڑے مسائل حل کرنے کے لیے ٓاواز اٹھا رہی ہے اور ان کو حل کروانے کی کوشش کررہی ہے۔ سرِدست ”حقوق کراچی تحریک“ کے سلسلے میں کراچی میں درست مردم شماری، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ، نوجوانوں کو روزگار دینا، بااختیار شہری حکومت کا قیام، بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اہم اور کلیدی موضوعات ہیں، اور شہر کے گمبھیر مسائل ہیں، اور اس کے لیے گزشتہ دنوں شہر بھر میں 50 سے زائد مقامات پر دھرنے دیے گئے۔ ان دھرنوں کی خصوصیت یہ تھی کہ پورے شہر میں کہیں ٹریفک کے مسائل پیدا نہیں ہوئے، بلکہ دھرنے کے شرکاٗ ٹریفک کو رواں رکھنے میں بھی لگے رہے، جس کی گواہی مخالفینِ جماعت اسلامی نے سوشل میڈیا پر بھی دی، جس کا مطلب ہے عوام کی سطح پر اس تحریک کا خیرمقدم کیا جارہا ہے اور یہ چیز دھرنے میں بھی نظر آئی۔ دھرنے کے شرکاء میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا، وفاقی و صوبائی حکومت کے خلاف پُرجوش نعرے، بینرز و پلے کارڈز، کراچی کے عوام کو حقوق دینے اور مسائل حل کرنے کا مطالبہ موجود رہا۔ لوگوں کی دلچسپی اپنے مسائل کے حل کے لیے بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ان دھرنوں سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے تین کروڑ عوام کو ان کا جائز اور قانونی حق دینے اور شہر کے گمبھیر مسائل کے حل کے لیے کراچی میں دوبارہ مردم شماری کرائی جائے، کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے، کراچی کے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں میں ان کا حق دیا جائے، ان کو سندھ حکومت اور مقامی اداروں میں ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں دی جائیں، کراچی میں بااختیار شہری حکومت کے لیے موجودہ لوکل باڈی ایکٹ ختم کرکے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا جائے، کے الیکٹرک کا 15سال کا فارنزک آڈٹ کیا جائے اور قومی اداروں اور عوام کے اربوں روپے واپس کروائے جائیں، پاکستان کی معیشت کو چلانے والی صنعتوں، سی این جی اسٹیشنز اور گھریلو صارفین کو گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے، گرین لائن سسٹم کو فی الفور فعال بناتے ہوئے شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے کم از کم ایک ہزار بسیں فوری طور پر چلائی جائیں۔ تعلیم، صحت، پانی، سیوریج، اسپورٹس اور سولڈ ویسٹ کا مربوط اور مؤثر نظام بنایا جائے۔ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک تین کروڑ عوام کے دل کی آواز اور ترجمان ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے کراچی کے مفادات کے خلاف اتحاد کیا ہوا ہے، حکمران جماعتیں عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے صرف پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ ٹیکس جائزے میں بھی کراچی سے 41فیصد ٹیکس وصول کیا گیا، جبکہ باقی ٹیکس پورے ملک سے وصول کیا گیا، لیکن اس کے باوجود کراچی کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں سے صرف چند فیصد حصہ دیا جاتا ہے، چار ماہ کا عرصہ گزر گیا لیکن وفاقی حکومت کے اعلان کردہ 11سو ارب روپے کے پیکیج میں سے بھی صرف 5 فیصد پر ہی عمل درآمد ہوسکا ہے۔ پیکیجز کے نام پر کراچی کے عوام کے ساتھ مسلسل دھوکہ کیا جارہا ہے، حکمران پارٹیوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر کررکھا ہے، پیپلز پارٹی برسوں سے مسلسل کراچی دشمنی کا مظاہرہ کررہی ہے، ایم کیو ایم اقتدار کے مزے تو لیتی ہے لیکن کراچی کے بنیادی اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کرتی، پی ٹی آئی نے بھی ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کراچی کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا، بلکہ اس نے اور ایم کیو ایم نے مل کر پہلے کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کرکے اور پھر جعلی اور متنازع مردم شماری کی منظوری دے کر کراچی دشمنی کی انتہا کردی۔ نواز لیگ کے دور میں ہونے والی مردم شماری میں کراچی کے ساتھ بڑا فراڈ ہوا اور ہماری آدھی آبادی کو غائب کردیا گیا، پی ٹی آئی نے بھی اس مردم شماری کو درست نہیں کیا، اور کراچی کے ساتھ مزید ظلم و زیادتی اور حق تلفی کی راہ ہموار کی۔ اس ظلم و زیادتی اور حق تلفی پر ایم کیو ایم نے خاموشی اختیار کی اور وہ ہنوز وفاقی حکومت میں شامل ہے۔ پیپلز پارٹی بھی کراچی سے صرف وسائل لینے اور لوٹ مار و کرپشن کرنے کے لیے تو آگے آجاتی ہے لیکن جب تین کروڑ شہریوں کے جائز اور قانونی حق کی بات کی جائے تو عصبیت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے اور حکمران جماعتیں بھی کہتی ہیں کہ اس مردم شماری میں فوج شامل تھی، تو پھر کراچی کے عوام فوجی اداروں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کریں اور درست اعداد و شمار اور اصل حقائق کی روشنی میں اہلِ کراچی کو ان کا جائز اور قانونی حق دلوائیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا مردم شماری سے متعلق کہنا تھا کہ مردم شماری میں موجود سقم اور تضادات کو ہم نے بروقت اُجاگر کیا تھا اور احتجاج بھی کیا تھا۔ عدالتی فیصلہ بھی تھا کہ کراچی میں 5فیصد بلاکس دوبارہ کھولے جائیں۔ مگر اس پر عمل نہیں ہوا، اور وفاقی کابینہ نے بھی حتمی منظوری دے دی۔ سی سی آئی کے اجلاس میں اسے زیر التواء رکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ سی سی آئی کے بغیر اس کی حتمی منظوری کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہاں صورت حال یہ ہے کہ کئی بلاکس میں آبادی، ووٹرز کی تعداد سے کم ظاہر کی گئی ہے، اور بعض بلاکس میں صفر گھرانے اور صفر آبادی ہے، ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے! نادرا کے پاس سارا ریکارڈ اور ڈیٹا موجود ہے لیکن اصل مسئلہ حکمران طبقے کی ذہنیت اور حکمران جماعتوں کی سوچ کا ہے۔ یہ کراچی کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں، اسی لیے اس کی نمائندگی کو کم سے کم ظاہر کرتے ہیں۔ کراچی کی آواز بلند ہوتی ہے تو پورا ملک گونج اُٹھتا ہے، لیکن ایک سازش اور منصوبے کے تحت کراچی کی آواز کو دبایا جارہا ہے اور اسے حقیقی نمائندگی کے حق سے محروم کیا جارہا ہے، جب شہر کی آبادی کو ہی درست شمار نہ کیا جائے گا تو پھر قومی اور صوبائی سطح پر وسائل کی درست اور جائز تقسیم کیسے ممکن ہوسکے گی! حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ تین کروڑ آبادی والے شہر میں ٹرانسپورٹ کا عملاً کوئی نظام نہیں، ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگ چنگ چی رکشوں اور کوچوں کی چھتوں پر چڑھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں، صرف ایک گرین لائن منصوبہ تک مکمل ہونے کو نہیں آرہا، ماضی میں شہر کے اندر کے ٹی سی کی ہزاروں بسیں چلتی تھیں، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر پورا ادارہ تباہ کردیا، کے ٹی سی جب بند ہوئی اُس وقت سندھ میں ایم کیو ایم کا وزیر ٹرانسپورٹ ہوتا تھا، 1999ء میں سرکلر ریلوے بند ہوئی اُس وقت بھی ایم کیو ایم عروج پر تھی۔ ایم کیو ایم، اس کے دھڑے اور اس سے نکلنے والے آج کراچی کے لیے باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن پہلے یہ بتائیں کہ انہوں نے خود اپنے دور میں کراچی کے لیے کیا کیا؟ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں شروع کیے گئے منصوبوں کے علاوہ شہر کے اندر کس نے تعمیر و ترقی کے اقدامات کیے؟ انہوں نے پانی کا منصوبہ K-3مکمل کیا اور پھر K-4 شروع کیا جسے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اُس وقت کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے مل کر تباہ و برباد کیا جو تاحال مکمل نہیں ہوسکا ہے، کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت کا اضافہ کیا گیا، ان میں سے کسی نے آج تک اس کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ ان سب نے مل کر چائنا کٹنگ کی اور مال بنایا، نوجوانوں کو کھیل کے میدانوں اور عوام کو پارکوں سے محروم کیا، آج یہ کراچی کے عوام کے ہمدرد بنتے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے مزید ایشوز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غریب اور مڈل کلاس کے طلبہ و طالبات کے لیے تعلیم کے دروازے بند کیے جارہے ہیں، سرکاری تعلیمی ادارے اور اسکول بدانتظامی اور حکومتی نااہلی کے باعث تباہی کے دہانے پر ہیں، میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے کراچی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی گئی، طلبہ و طالبات اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں، جماعت اسلامی ان کے ساتھ ہے اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہے گی۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جماعت اسلامی نے عوام کی ترجمانی کی ہے۔ مسائل کے حل میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں جب بھی موقع ملا عوام کو ہرگز مایوس نہیں کریں گے، اقتدار اور حکومت میں نہ ہونے کے باوجود ہم نے عوام کی خدمت کی ہے۔ کورونا کی وباء اور بارش کی تباہ کاریوں میں متاثرین کی بحالی اور امداد کے لیے الخدمت کے رضاکاروں اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے جان کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ کر کام کیا ہے۔ الخدمت نے طبی سہولیات فراہم کرنے، کووڈ 19کے سستے ٹیسٹ کرنے اور ضرورت مندوں کو ان کی ضروریات کی فراہمی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
یہ دھرنے پورے شہر میں پہلے ہوئے تھے۔ ضلع وسطی میں ڈالمین مال حیدری، امتیاز اسٹور ناظم آباد، ناگن چورنگی، نارتھ ناظم آباد، ضلع گلبرگ وسطی میں لیاقت آباد نمبر 10، عائشہ منزل چورنگی، واٹر پمپ چورنگی، گلبرگ چورنگی، پاور ہاؤس، شفیق موڑ، نالہ اسٹاپ، نیو کراچی، ضلع شمالی 4.Kچورنگی،سرجانی ٹاون، نارتھ کراچی، الآصف اسکوائر سہراب گوٹھ، ضلع شرقی میں ملینیم شاپنگ مال جوہر موڑ، جوہر چورنگی، صفورہ چوک، ڈسکو بیکری گلشن اقبال، یونیورسٹی روڈ حسن اسکوائر، ضلع جنوبی میں ماڑی پور روڈ لیاری نزد غلامان عباس اسکول، گارڈن، آگرہ تاج، کالاپل، ریگل چوک صدر، ضلع غربی میں اورنگی ٹاؤن5نمبر، شیل پیٹرول پمپ فقیر کالونی، قلندریہ ہوٹل کٹی پہاڑی قصبہ کالونی، گرم چشمہ منگھوپیر، ضلع کیماڑی میں بنارس چوک، گل بائی چوک، 24 مارکیٹ بلدیہ، سائٹ، پاک کالونی، ضلع ایئرپورٹ میں مین نیشنل ہائی وے کالابورڈ، سعودآباد چورنگی، شمع شاپنگ سینٹر،PIA سوسائٹی گیٹ نمبر 3، کھوکھرا پار، شاہ فیصل کالونی، مدینہ چوک، میمن گوٹھ، ضلع ملیر میں ہسپتال چورنگی، بھینس کالونی، ڈی سی آفس، لعل آباد موڑ، اللہ والی چورنگی گلشن حدید، ضلع کورنگی میں امتیاز سپر مارکیٹ قیوم آباد،ڈی سی آفس کورنگی ڈھائی نمبر، لانڈھی نمبر 6 مارکیٹ، ضلع قائدین میں شاہراہ قائدین نزد نورانی کباب، لسبیلہ چوک، پرانی سبزی منڈی شاہ ژوب ہوٹل سمیت دیگر مقامات پر دیئے گئے۔ دھرنے کے شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر تحریر تھا کہ پانی و سیوریج کے مسائل حل کرو،گیس کی بندش ختم کرو، کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے حقیقی الاٹیز کو جائز حق دیا جائے،کراچی کے نوجوانوں کو ملازمتیں دی جائیں،کراچی کو ترقیاتی بجٹ دو،کھیل کے میدانوں سے قبضہ ختم کرو،تباہ حال سڑکیں ٹھیک کرو، لولی پاپ نہیں بااختیار شہری حکومت،11سو ارب روپے کا پیکیج سیاسی شعبدہ بازی،ٹیکس پورا گنتی آدھی نامنظور نامنظور،کچی آبادی کے مسائل حل کرو،کچرے کے ڈھیر صاف کرو، سندھ کے کرپٹ حکمرانو! کراچی کو صوبے کا حصہ کیوں نہیں سمجھتے؟، کوٹہ سسٹم میرٹ کا قتلِ عام، عظیم آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ اسکیم 33ایڈمنسٹریٹر اور لینڈ مافیا کا گٹھ جوڑ نہیں چلے گا۔ شرکاء نے کراچی کے جائزو قانونی حقوق، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور مسائل کے حل کے لیے پُرجوش نعرے بھی لگائے جن میں یہ نعرے شامل تھے:”حق دو کراچی کو، پورا ٹیکس اور آدھی گنتی نامنظور نامنظور، تین کروڑ عوام کا نعرہ مردم شماری دوبارہ، وفاق کے ارادے چکناچور آدھی گنتی نامنظور، وفاق کا خواب چکناچور آدھی گنتی نامنظور، لولی پاپ نہیں بااختیار شہری حکومت، کوٹہ سسٹم ختم کرو، پورا ٹیکس اور آدھی گنتی نامنظور، کراچی کے نوجوان بے روزگار کیوں؟، اتحادی جماعتوں کی سیاست بازی نہیں چلے گی۔
دھرنوں سے جماعت اسلامی کراچی کے نائب امراء ڈاکٹر اسامہ رضی،عبد الوہاب،ڈاکٹر واسع شاکر،مسلم پرویز،راجا عارف سلطان، انجینئر سلیم اظہر، محمد اسحاق خان،سکریٹری کراچی منعم ظفر خان،امراء اضلاع وجیہ حسن،فاروق نعمت اللہ،محمد یوسف،سید عبدالرشید،مولانا مدثر حسین انصاری،مولانا فضل احد حنیف،توفیق الدین صدیقی،محمد اسلام،عبدالجمیل خان،سیف الدین ایڈووکیٹ اورسیکرٹری ضلع شرقی ڈاکٹر فواد نے بھی خطاب کیا۔
جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک جاری ہے اور اس کی قیادت اور کارکنان عوام کے مسائل کے حل اور شہر قائد کے جائز اور قانونی حقوق حاصل کرنے تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں، اور یہ سب کچھ اس شہر کی حالتِ زار کو درست کرنے، اس کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانے اور اس کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے کررہے ہیں، کراچی کے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ بڑی تعداد میں گلی محلوں کی سطح پر روزانہ کی بنیاد پر جماعت اسلامی کے کارکنان کے ساتھ کھڑے ہوں، وہ آپ کے درمیان موجود ہیں، آپ اپنے بچوں کو ایک اچھا مستقبل دینے کے لیے اس تحریک کو ہر گھر کی تحریک بنادیں، پھر دیکھیں کون اس شہر کے مسائل حل نہیں کرتا؟