۔’’یہ 1939ء کا ذکر ہے، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔ شریف رانا ایک نامور مصور ہوئے ہیں۔ وہ فیڈریشن کے رکن اور طالب علم رہنما تھے۔ تحریک پاکستان میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا۔ اس دور میں انہوں نے قرآن پاک کی آیات مبارکہ اور مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی نظموں کے حوالے سے پینٹنگز بنانے کا آغاز کیا۔ بعد ازاں یہی پینٹنگز ان کی قائداعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات کا باعث بنیں۔
یہ رانا صاحب کی نوجوانی کا زمانہ تھا۔ وہ اسلامیہ کالج میں زیر تعلیم تھے۔ یہ وہ دور تھا جب آزادی کی تحریک لا الہٰ الا اللہ کے نعرے کے ساتھ ایک تازہ ولولے اور جذبے کے ساتھ ابھر رہی تھی۔ رانا صاحب نے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کرنے اور ان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں حصہ لینے کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے جیومیٹریکل ڈرائنگ کی مدد سے ایسی پینٹنگز تیار کیں جو قرآنی آیات اور قومی اشعار پر مبنی تھیں۔
قرآنی آیات اور قومی شعرا کے کلام کے اشتراک سے تیار کی جانے والی ان پینٹنگز کی نمائش فیڈریشن کے سالانہ اجلاس کے موقع پر کی گئی تھی۔ اجلاس کے اختتام پر طالب علم رہنمائوں نے قائداعظمؒ کو یہ پینٹنگز دکھائیں۔ نواب ممدوٹ، ممتاز دولتانہ اور حسن امام بھی قائداعظم کے ہمراہ تھے۔
ان پینٹنگز کو دیکھتے دیکھتے قائداعظم ایک جگہ رکے تو انہوں نے اس طالب علم سے جو ان تصاویر کا پس منظر بیان کررہا تھا، یا ترجمہ و تشریح کررہا تھا، کہا: ’’اسٹاپ‘‘۔
یہ پینٹنگ ’’امتِ واحدہ‘‘ کی ترجمانی کرتی تھی۔ اس کے ذریعے امت کو فرقہ بندی سے بچنے اور گروہوں میں تقسیم ہونے سے باز رہنے کا پیغام دیا گیا تھا۔ یہ علامہ محمد اقبالؒ کے ایک شعر:۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اور قرآن پاک کی آیت: وَ لَا تَنَازَ عُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ کے اشتراک سے تیار کی گئی تھی۔
قائداعظم نے طالب علم سے آیت کا ترجمہ دوبارہ پڑھنے کے لیے کہا۔ اس نے آیت کا ترجمہ یوں پڑھا: ’’اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور پڑ جائو گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔‘‘
ترجمہ سن کر قائداعظم نے بڑے تجسس اور حیرت سے دریافت کیا: ’’کیا قرآن یہ پیغام دیتا ہے؟‘‘ ہاں میں جواب ملنے پر انہوں نے فرمایا: ’’اگر یہ پیغام قرآن پاک میں ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری منزل قریب ہے۔ یہی تو وہ پیغام ہے جو میں قوم کو دینا چاہتا ہوں کہ باہم منظم اور متحد رہو۔‘‘ انہوں نے پینٹنگ کو دوبارہ غور سے دیکھا۔ ان کا چہرہ خوشی سے سرخ ہوگیا۔
انہوں نے نواب ممدوٹ کو کندھے سے پکڑا اور کہا، “I want to see this Mullah” اس نے میرے دل کی بات تخلیق کی ہے۔ شریف رانا اس وقت نمائش میں موجود نہ تھے۔ رانا صاحب دوسرے دن نواب ممدوٹ کی کوٹھی پر گئے، قائداعظم سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ میں شریف رانا ہوں۔ قائداعظم نے انہیں غور سے دیکھا اور حیرانی سے دریافت کیا: “Is that your venture?” ۔
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تو قائد نے پوچھا: ’’وہ شعر کس کا ہے؟‘‘ رانا صاحب نے جواب دیا کہ یہ شعر علامہ محمد اقبال کا ہے۔ یہ سنتے ہی قائد نے خوشی سے “Hurrah” کہا اور انہیں سینے سے چمٹا لیا۔ پھر نواب ممدوٹ سے مخاطب ہوکر بولے:۔
“I have reached the goal. Pakistan definitely with us.”
(میں منزل کے قریب پہنچ گیا ہوں، یقینا پاکستان بن کر رہے گا)۔‘‘ (ماہنامہ ’’ذہن‘‘ لاہور، قرارداد لاہور نمبر۔ ص:17)
بیادِ مجلس اقبال
جگر سے تیر پھر وہی پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
علامہ امتِ مسلمہ کو کل کی طرح آج بھی یہ درس دے رہے ہیں کہ اپنے دلوں میں وہی ایمانی جذبے اور ایمانی حرارت و تڑپ پیدا کریں اور اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اپنے آپ کو ذلتوں سے نکال کر امامت و قیادت کے لیے تیار کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان و عمل کے جذبوں سے اپنے جگر چھلنی کریں ور سینوں میں ازسرِنو زندہ تمنائیں پیدا کریں۔