بھارت میں بدترین متعصب ٹی وی اینکر ارناب گوسوامی پر ممبئی پولیس کی چارج شیٹ نے کئی راز طشت ازبام کردئیے ہیں، جن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ٹی وی اینکر نے پہلے ہی بالاکوٹ آپریشن اورکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے انکشافات کیے تھے۔ یہ حقیقت ارناب گوسوامی کی بھارت کی براڈ کاسٹ آڈینس ریسرچ کونسل کے چیف ایگزیکٹو پارتھوداس گپتا کے ساتھ ہونے والی واٹس ایپ گفتگو کے ریکارڈ سے پوری طرح عیاں ہوکر رہ گئی ہے۔ ارناب گوسوامی بھارتی فوجی افسر کا بیٹا ہے۔ یہ فوجی ریٹائرمنٹ کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوا ہے، اور ارناب گوسوامی بھی پوری طرح متعصب، اور مسلمان دشمنی کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ یہ بھارت کے ایک سخت گیر پالیسی کے حامل ری پبلک ٹی وی کا مالک ہے اور نریندر مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دووال کے اشاروں پر ٹی وی کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے انکشافات کرتا ہے۔ ارناب گوسوامی اکثر اپنے ٹی وی مذاکروں میں مسلمان شرکاء کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتا رہا ہے۔ ارناب گوسوامی کا چینل حقیقت میں بھارت کی ’’فیک نیوز‘‘ پالیسی کا حصہ رہا ہے، جس کا مقصد بھارتی ریاست کی ہندوتوا پالیسی کو آگے بڑھانا، اور پاکستان، بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کو بدنام کرنا رہا ہے۔
ارناب گوسوامی اب پولیس کے ہتھے چڑھ کر گرفتار ہوگیا ہے، اور گرفتاری کے وقت اس شخص نے اپنے فلیٹ میں ایک خاتون پولیس افسر کے ساتھ ہاتھا پائی کرنے کی کوشش بھی کی، مگر پولیس اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی، اور اب یہ شخص سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اس شخص کی چارج شیٹ کا حصہ متذکرہ بالا واٹس ایپ چیٹ بھی ہے جس میں ارناب گوسوامی نے پلوامہ حملے کے فوراً بعد پارتھو داس گپتا کو میسج کیا کہ پاکستان پر نارمل سے بڑا حملہ ہوگا اور کشمیر کے بارے میں بھی بڑا فیصلہ ہوگا۔ ارناب گوسوامی کی یہ گفتگو وائرل ہورہی ہے۔14فروری2019ء کو پلوامہ کے فوجی قافلے پر خودکش حملہ ہوا، جس میں چالیس فوجی مارے گئے۔ اس حملے کو مودی نے نہ صرف انتخابی کامیابی، بلکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ پلوامہ حملے کے بعد 26 فروری 2019ء کوبھارت نے بالاکوٹ حملے کا ناکام ڈرامہ کھیلا، جس میں ایک کوّا مارا گیا اور کچھ درخت تباہ ہوئے، مگر مودی سخت گیر ہندو ووٹر کا دل جیتنے میں کامیاب ہوا۔ پلوامہ حملے کے دوسرے دن ہی بھارت کے سرکاری حلقوں نے جو ترانہ ریلیز کیا اُس کا ایک بول ہی یہ تھا: ’’توڑ دو دھارا ستر کو‘‘۔ دھارا ستر سے مراد کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی بھارتی آئین کی دفعہ370 تھی۔ گویا کہ اس واقعے کو کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملے کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بھی پہلے سے ہی تیار تھا۔
پلوامہ حملے کے وقت ہی یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ خودکش حملے میں استعمال ہونے والا بارود کہاں سے آیا؟ بھارت کے گائودی میڈیا نے اس سوال کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ نظرانداز کیا۔ اس سوال پر زور دینے سے پلوامہ حملے کے سربستہ راز کھل سکتے تھے۔ اب ارناب گوسوامی کی واٹس ایپ چیٹ نے اس راز کو کھول کر رکھ دیا ہے کہ پلوامہ حملے سے کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے تک سب کچھ بھارت کی سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ تھا۔ بھارت نے اپنے مقاصد کے لیے چالیس فوجیوں کے چیتھڑے اُڑانے سے گریز نہیں کیا۔ خفیہ طاقتوں کے کھیل اس سے بھی زیادہ بے رحم اور بھیانک ہوتے ہیں۔ اُس وقت بھارت پاکستان کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے جنون اور خبط میں مبتلا تھا، سو وہ اس کام میں کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔
اس حوالے سے ایک اور اہم گواہی مقبوضہ کشمیر سے آئی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارت کے مشہور ویب چینل ’’دی وائر‘‘ کی صحافی عارفہ خانم شیروانی کو کشمیر کے حالات، بھارت کے عزائم اور مستقبل کے امکانات کے حوالے سے ایک اہم انٹرویو دیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے اس انٹرویو کی خاص بات اُن کا وہ اعتماد ہے جو انہوں نے دفعہ 370 کی بحالی، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاک بھارت بات چیت کے حوالے سے ظاہر کیا ہے۔ ان سے سوال پوچھا گیا کہ اب جبکہ مودی نے اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے آرٹیکل 370 ختم کر ڈالاہے ، سپریم کورٹ نے اس اقدام کے خلاف سماعت میں دلچسپی نہیں لی، بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں اور عوام نے مجموعی طور پر قوم پرستانہ جذبات کے زیراثر اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا، اس کے باوجود آپ پُرامید ہیں کہ بھارت اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوگا۔ یہ امید کہاں سے آتی ہے؟
محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اگر کشمیر میں امن درکار ہے تو اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ اگر مسئلہ بھارت کے آئین کے دائرے میں حل کرنا ہے تو جو چرایا گیا ہے اسے واپس کرنا ہوگا۔ خطے میں امن کا راستہ جموں وکشمیر سے ہوکر جاتا ہے، کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا میدان نہیں امن کا پُل بنانا ہوگا۔ یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آتش فشاں پہاڑ ہے۔ فوج، ایجنسیاں ظالمانہ قوانین سے کب تک خون بہائیں گے! اس زخم کو مندمل کرنا پڑے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو جتوانے کے لیے پلوامہ حملہ کیا گیا۔ ارناب گوسوامی اکیلا تو نہیں، نہ اس کے پاس جادوئی مشین تھی کہ جس نے بالاکوٹ ڈرامے سے تین دن پہلے بتایا کہ ’’کچھ بڑا‘‘ ہونے والا ہے جس سے ایک’’ بڑے آدمی‘‘ کو فائدہ ہوگا۔ محبوبہ مفتی کے مطابق اس مہم کا مقصد بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانا تھا۔ ایک منصوبے کے تحت چیزیں بریک کی جاتی تھیں اور پھر حالات کو اس رخ پر ڈالا جاتا تھا۔
ان سے پوچھا گیا کہ یہ بات تو عمران خان بھی کرتے ہیں کہ یہ حملہ سیاسی فائدے کے لیے کیا گیا۔ اس پر محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ چین نے گلوان وادی میں پچیس بھارتی جوانوں کو ماردیا، لداخ میں وہ اندر تک گھس آئے ہیں تو وہاں کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ چین کے گھر میں گھس کر کیوں نہیں مارتے؟ اس سے واضح ہے کہ بالاکوٹ میں الیکشن جیتنے کے لیے ایک ڈرامہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک کی سالمیت کا معاملہ ہوتا تو چین سے بھی دو دو ہاتھ کرتے۔
محبوبہ مفتی نے اس تاثر کی حمایت کی کہ بھارتی حکومت اب کشمیر میں دھیرے دھیرے فلسطین ماڈل اپنا رہی ہے، اور یہی بی جے پی کا مکروہ منصوبہ ہے۔ ڈومیسائل قانون کا خاتمہ، ملازمین کے لیے عمر کی حد میں کمی، مقامی لوگوں کے ریت پتھر نکالنے پر پابندی، پاور پروجیکٹس میں غیر کشمیریوں کی بھرتیاں کشمیریوں کے ہاتھ سے سب کچھ چھیننے کی کوشش ہے۔ ایک اور اہم بات انہوں نے یہ کہی کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر، فوج اور ایجنسیوں کے ذریعے لوگوں کو خاموش کرکے، انہیں جیلوں میں ڈال کر حاصل ہونے والا امن دیرپا نہیں ہوتا۔
محبوبہ مفتی کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ ہیں۔ اس وقت سری نگر کے بھارت نواز سیاست دانوں میں دہلی کی ناپسندیدگی کا سب سے پہلا شکار وہی ہیں، اسی لیے ان کی پارٹی کے اندر نقب لگانے کی کوششیں اس وقت بھی جاری ہیں۔ پانچ اگست کے بعد جس سیاست دان کو سب سے طویل نظربندی کا سامنا کرنا پڑا وہ محبوبہ مفتی ہیں، جو 4 اگست 2019ء کو نظربند ہوئیں اور اکتوبر 2020ء میں رہا ہوئیں۔ اس وقت مودی حکومت کے پانچ اگست کے اقدامات کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا محبوبہ مفتی کی جانب سے ہے۔ وہ دہلی کی بھاجپا سرکار پر تابڑ توڑ حملے کررہی ہیں، اور پانچ اگست کے تناظر میں ان کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے قائداعظم کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی تھی‘‘۔ محبوبہ مفتی پانچ اگست کے اقدامات کو واپس لینے کی خاطر بنائے گئے اتحاد ’’پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن ‘‘ کی جنرل سیکرٹری ہیں۔
محبوبہ مفتی کا یہ انٹرویو کشمیر کی صورت حال کو سمجھنے میں مدد دے رہا ہے۔ اس وقت بھارت نے کشمیر میں خوف ودہشت کا جو ماحول قائم کر رکھا ہے اس میں اہلِ صحافت کا حالات کی سچی اور اصلی تصویر دکھانا ممکن نہیں۔ حریت پسند قیادت اور دانشور جیلوں میں ہیں، اور جو باہر ہیں محدود سی آزادی کے حامل ہیں، اور ان پر دستورِ زباں بندی نافذ ہے۔ اس صورتِ حال میں محبوبہ مفتی نے کشمیر کے حالات کی درست عکاسی کی ہے۔ اس گفتگو سے اندازہ ہورہا ہے کہ کشمیر کا مستقبل اور تشخص شدید خطرات کی زد میں ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ سب کچھ لٹ گیا ہو اور اب کوئی امید باقی نہیں۔ بھارت کے خونیں مگرمچھ نے کشمیر کو اپنے جبڑوں میں دبا تو رکھا ہے مگر وہ اس چبا نہیں سکا، اور اس ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ خود کشمیری عوام اور کچھ بیرونی عوامل نے مگرمچھ کے جبڑے دبا رکھے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ پانچ اگست کا ظالمانہ فیصلہ ریورس ہو یا نہ ہو، بات جنوبی ایشیا کے مستقبل کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کے ایک ڈھیلے ڈھالے سمجھوتے پر آکر رک جائے۔ محبوبہ مفتی ایک واقفِ حال کے طور پر بتارہی ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی سڑکوں اور جلسہ گاہوں میں ’’کشمیر بیچ دیا، فروخت کردیا گیا‘‘ کا سودا بیچنا محض سیاسی نمبر اسکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔ حالات آج بھی وہی ہیں جہاں کرگل جنگ کے بعد تھے، جب کشیدگی کے ایک بھرپور دور کے بعد غیر معمولی طور پر مسئلے کے نرم سے حل کے کچھ موہوم امکانات پیدا ہونا شروع ہوئے تھے، اور محبوبہ مفتی، ان کے والد مفتی سعید اور ان کی جماعت کشیدگی کے بعد ان بدلتے ہوئے حالات کا حصہ تھے۔