بحران کی بڑی وجہ انتظامی اور مالی امور اور طلبہ کی کم ہوتی تعداد ہے
پشاور یونیورسٹی جو نہ صرف خیبر پختون خوا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے بلکہ پچھلی چھے دہائیوں کے دوران صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہمیں جوترقی نظر آتی ہے وہ بھی اسی کی مرہونِ منت ہے۔ آج یہ جس بحران سے گزر رہی ہے اس کے متعلق کچھ عرصہ پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ اس تاریخی درسگاہ کو یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے۔ اس کی تاریخ میں یہ شاید پہلا موقع ہے جب گزشتہ دنوں اس کے رجسٹرار کی جانب سے ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے جملہ ملازمین اور پنشنرز کو جنوری کی مکمل ادائیگی کے بجائے صرف بنیادی تنخواہ ادا کی جائے گی جس میں بنیادی ایڈہاک ریلیف، کنونس الاؤنس، ہائوس رینٹ اور میڈیکل الاؤنس کے علاوہ دیگر الائونسز شامل نہیں ہوں گے۔ واضح رہے کہ ملک بھر کی جامعات کی طرح پشاور یونیورسٹی سے بھی تین چار طرح کی کیٹگری کے ملازمین وابستہ ہیں جن میں ریگولر،کنٹریکٹ، ایڈہاک اور فکس پے کے ملازمین شامل ہیں، البتہ جب سے جامعہ پشاور مالی بحران سے دوچار ہوئی ہے تب سے ایک حکم نامے کے ذریعے تمام عارضی ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے جن کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ رجسٹرار آفس سے ماہ جنوری کی تنخواہوں کی بابت جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے متعلق پشاور یونیورسٹی کے ملازمین کاکہنا ہے کہ ہر تنخواہ دار فرد نے اپنا مہینے کا حساب کتاب اپنی تنخواہ کے مطابق کیا ہوتا ہے اور تمام تنخواہ دار ملازمین کی زندگی ان کی ماہوار تنخواہ کے گرد گھومتی ہے اور انہیں اپنا مہینہ اسی تنخواہ میں گزارنا ہوتا ہے، لیکن اگر ان کی تنخواہ آدھی کردی جائے تو آپ اندازہ لگائیں کہ ان کا گزارہ کیسے ہوگا! اکثر ملازمین مہینے کے آخری دن لوگوں سے قرض لے کر اس تنخواہ میں گزارا کرتے ہیں، اور تنخواہ ملنے پر تمام قرضے ادا کرکے اگلے مہینے کی بنیادی ضروریات کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں زیادہ مشکلات کا سامنا نچلے طبقے کے ملازمین کوکرنا پڑتا ہے جن کی اگر ایک طرف آمدن ان کی ضروریات سے کم ہوتی ہے تو دوسری جانب ان ملازمین کا کنبہ بالعموم بڑے گریڈکے افسران کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ان ملازمین کو جہاں اپنی تنخواہ میں گزارہ کرنا مشکل ہوتا ہے وہاں اگر ایسے میں ان کی پہلے سے کم تنخواہ بھی آدھی کردی جائے تو ان ملازمین کے مسائل اور پریشانی کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے۔ ان ملازمین کاکہنا ہے کہ یونیورسٹی کے حالیہ فیصلے کے بعد انہیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس مہینے سودا سلف دینے والے دکان داروں سے کیا کہیں گے، بوڑھے والدین کے علاج اور بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا بہانے کریں گے، گھر میں بیماری اور ادویہ لانے کے لیے کیا قربانی دینی پڑے گی؟ شاید انہیں گھرکا خرچہ چلانے کے لیے گھر کا کچھ سامان بیچنا پڑے گا۔ یہ وہ پریشان کن سوالات ہیںجو ان دنوں جامعہ پشاور کے اکثر ملازمین کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں۔ دراصل اس تلخ حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ ان دنوں پاکستان میں بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے بعد تنخواہ دار افراد کا گزارا انتہائی مشکل ہوچکا ہے، لہٰذا ایسے میں اگر جامعہ پشاور کے ملازمین کو آدھی تنخواہ پر گزارے کا مژدہ سنایا جائے گا تو ان کی پریشانی کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل امر نہیں ہوگا۔
زیر بحث معاملے کے بارے میں پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر یورید احسن ضیاء کا کہنا ہے کہ ’’اس مہینے یونیورسٹی کو اپنی بنیادی ادائیگیوں کے لیے 285 ملین روپے درکار ہیں، جس میں سے 172 ملین روپے تنخواہوں کی مد میں، 73 ملین پنشن کی مد میں، اور 40 ملین دیگر ادائیگیوں جیسے یوٹیلٹی بلز وغیرہ کے لیے درکار ہیں، جب کہ اس وقت یونیورسٹی کے پاس 112 سے 115 ملین روپے موجود ہیں، اور ان فنڈز سے یہ تمام ادائیگیاں ممکن نہیں ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس مرتبہ صرف بنیادی تنخواہ دی جائے گی اور اسی طرح پنشن بھی کم ہی ادا کی جا سکے گی‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’جب یونیوسٹی کے پاس مکمل فنڈز موجود ہوں گے تو یہ تمام ادائیگیاں کردی جائیں گی۔ چونکہ اس وقت یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے اس لیے یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ سخت فیصلہ کرنا پڑا ہے‘‘۔ یونیورسٹی ذرائع کے مطابق ایک عرصے سے پشاور یونیورسٹی کی آمدن کم اور اخراجات بڑھ گئے ہیں جس کی بعض دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بنیادی سبب یونیورسٹی آف پشاور میں ماضی میں سیاسی بنیادوں پر تھوک کے حساب سے بھرتی کیے جانے والے ملازمین ہیں۔ جب کہ اس خسارے کی دوسری بڑی وجہ پچھلے پندرہ بیس سال کے دوران صوبے میں جامعات کی مشروم گروتھ ہے جس کے باعث جامعہ پشاور کا دائرۂ عمل اتنا سکڑ چکا ہے کہ وہ جامعہ جوکبھی سارے صوبے کی اکلوتی یونیورسٹی تھی جو اپنے دامن میں سارے صوبے کے طلبہ وطالبات کو سمیٹنے کے لیے مشہور تھی آج وہ سکڑ کرصرف پشاور ڈویژن بلکہ عملاً ضلع پشاور تک محدود ہوچکی ہے۔ واضح رہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں آنے کے بعد جہاں ایک جانب صوبے میں نجی شعبے میں جامعات کھلنے کا سلسلہ شروع ہوا، وہاں اے این پی اور پی ٹی آئی کے سابقہ ادوارِ حکومت میں کئی نئی جامعات کے قیام نے بھی پشاور یونیورسٹی جیسی تاریخی اور بڑی یونیورسٹی کی مالی پوزیشن پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ یاد رہے کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک صوبے میں دو یونیورسٹیاں پشاور یونیورسٹی اور گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان ہوا کرتی تھیں، لیکن اب تقریباً ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم ہونے کے بعد یہ تعداد مجموعی طور پر چالیس تک پہنچ چکی ہے، جن میں تیس سرکاری، جب کہ دس نجی شعبے میں قائم ہیں۔ جب صوبے میں صرف دو جامعات تھیں اُس وقت پشاور یونیورسٹی کے ریگولر اور پرائیویٹ طالب علم ملا کر کم وبیش ایک لاکھ تعداد ہوتی تھی جو امتحانی فیس اور دیگر ادائیگیاں کرتے تھے جس سے یونیورسٹی کو خاطر خواہ آمدن ہوتی تھی، لیکن جب سے دیگر یونیورسٹیاں بنی ہیں جامعہ پشاور کے ریگولر اور پرائیویٹ طالب علم ملاکرکُل تعداد 25 سے30 ہزار رہ گئی ہے، جس کا براہِ راست اثر یونیورسٹی کی آمدن پر بھی پڑا ہے، جب کہ ایچ ای سی کے ایک حالیہ فیصلے کی روشنی میں بی اے، بی ایس سی اور ایم اے، ایم ایس سی کے دو سالہ پروگرامات کے خاتمے اور ان کی جگہ چار سالہ بی ایس کے پروگرام شروع کیے جانے کے بعد جامعہ پشاور سمیت صوبے کی دیگر جامعات کی آمدن میں بھی مزید کمی کا امکان ہے۔ یہاں اس امر کی جانب اشارہ کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری جامعات جو پہلے سے مالی خسارے کا شکار ہیں ان کی حکومتی گرانٹ میں بھی پہلے کی نسبت خاصی کمی واقع ہوئی ہے، کیونکہ آج سے دس سال پہلے یونیورسٹی کی گرانٹ بجٹ کا 55 فیصد ہوتی تھی، اب یہ کم ہوکر 47 سے 48 فیصد تک رہ گئی ہے۔
رجسٹرار جامعہ پشاور کے مطابق یونیورسٹی میں پنشن کی مد میں رقم ایک ارب روپے سے تجاوز کرگئی ہے جو یونیورسٹی کے وسائل پر بڑا بوجھ ہے۔ پشاور یونیورسٹی کا ایک اور المیہ اس کے بعض ذیلی اداروں کو یونیورسٹی کا الگ سے ملنے والا اسٹیٹس ہے جس کی نمایاں مثال زرعی یونیورسٹی پشاور، انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور اور خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پشاورکا بطور الگ جامعات قیام ہے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت پشاور یونیورسٹی میں اساتذہ کی تعداد 700، ایڈمن اسٹاف 51،کلاس تھری ملازمین 600، اور کلاس فور ملازمین 1000 ہیں۔ جبکہ طلبہ وطالبات کی تعداد 17000 تک ہے۔ اسی طرح جامعات کے مالی بحران میں جہاں ان جامعات کے انتظامی اور اندرونی مالی امور کو موردِالزام ٹھیرایا جاتا ہے، وہاں اس کا ایک بڑا سبب موجودہ حکومت ہے، جس نے اقتدار سنبھالنے سے قبل تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور تعلیم کی بہتری کے لیے اقدامات کا عزم ظاہر کیا تھا، لیکن وہ اپنے ان دعووں میں یکسر ناکام رہی ہے، بلکہ حکومت کی جانب سے منظم لائحہ عمل نہ ہونے کے باعث تعلیمی صورتِ حال پچھلے چند سال کے دوران بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہوئی ہے، جس کی نمایاں مثال اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص بجٹ میں واضح کٹوتی ہے۔
جامعہ پشاور کے حکام کے مطابق اس وقت یونیورسٹیاں اپنی آمدن کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے ملنے والی گرانٹ پر انحصار کرتی ہیں، اس لیے گرانٹ میں کمی سے ان جامعات کو پشاور یونیورسٹی جیسی سنگین صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جب کہ کچھ عرصہ پہلے اسی طرح کی صورت حال سے ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور بھی گزرچکی ہے، اور دیگر سرکاری جامعات کی حالت بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے مالی بحران کے متعلق کہا جاتا ہے کہ صوبے میں قائم ہونے والی نئی یونیورسٹیوں پر چونکہ ملازمین کی پنشن کا بوجھ نہیں ہے اس لیے یہ جامعات بظاہر تو مالی لحاظ سے محفوظ نظر آتی ہیں، لیکن جب ان جامعات کے ملازمین ریٹائر ہونا شروع ہوں گے تب تقریباً 2030ء کے بعد ان جامعات کو بھی پشاور یونیورسٹی جیسے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے لیے ابھی سے تیاری ضروری ہے۔ دراصل فی الحال اُن یونیورسٹیوں کومالی مسائل لاحق ہیں جن کو قائم ہوئے 30 یا 40 سال سے زیادہ وقت ہوچکا ہے جن میں نمایاں مثال جامعہ پشاور کی ہے۔ جامعہ پشاور کے مالی بحران کے حوالے سے ہمیں اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس کو یہ نقصان جہاں اس کے ذیلی اداروں اور طلبہ وطالبات میں کمی کی وجہ سے برداشت کرنا پڑ رہا ہے، وہاں اس کی ایک وجہ اس سے الگ ہونے والے اداروں بالخصوص اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ان ملازمین کو بھی قرار دیا جاتا ہے جن کی پنشن بطور مدر انسٹی ٹیوشن جامعہ پشاور ادا کررہی ہے۔ اسی طرح اسلامیہ کالج کے الگ یونیورسٹی بننے کے بعد اس کے اثاثہ جات سے ہونے والی کثیر آمدن سے بھی جامعہ پشاور کے محروم ہونے کو قرار دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اسلامیہ کالج کی پشاور کے علاوہ چارسدہ اور صوابی میں بھی وسیع پراپرٹی ہے، جس سے ہونے والی آمدن الگ یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہونے سے پہلے جامعہ پشاور کے خزانے میں جمع ہوتی تھی جس سے اب جامعہ پشاور محروم ہوگئی ہے۔ یاد رہے کہ اسلامیہ کالج کا شمار برصغر پاک وہند کے اُن تین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جنہیں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے1939ء میں اپنی پراپرٹی عطیہ کی تھی، جن میں سندھ مدرستہ الاسلام کراچی اور علی گڑھ یونیورسٹی بھی شامل تھے۔
جامعات کے مالی بحران کے متعلق ایک نقطہ نظر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حکومت آخر کب تک ان جامعات کو مالی سپورٹ فراہم کرتی رہے گی؟ اور خاص کر اس ضمن میں یہ تاویل بھی دی جاتی ہے کہ جامعات اپنی خودمختاری کا غلط استعمال کرتی ہیں، اور اس سلسلے میں یہاں بڑے پیمانے پر ہونے والی مختلف کیٹگریزکی بھرتیوں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ بعض ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جامعات میں کام کم ہوتا ہے اور یہاں تعینات اسٹاف بالخصوص تدریسی عملہ بڑی بڑی تنخواہیں تو لیتا ہے لیکن ان کا آئوٹ پٹ نہ ہونے کے برابر ہے، بلکہ ان لوگوں ہی کو جامعات کے مالی بحران کا اصل ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، جس پر جامعات کی فیکلٹی اور ان کی تنظیموں کی جانب سے وقتاً فوقتاً سخت ردعمل بھی سامنے آتا رہتا ہے۔ شاید یہ جامعات پر اس تنقید ہی کا اثر ہے کہ پی ٹی آئی کی سابقہ صوبائی حکومت نے صوبے کی تمام جامعات کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی پالیسی اپناتے ہوئے پہلے تمام جامعات کو ایک ماڈل ایکٹ اور بعد ازاں ایک ماڈل اسٹیچیوٹس کے تحت لانے کا فیصلہ کیا تھا، جسے پی ٹی آئی کے مخالف سیاسی حلقوں اور جامعات کی اساتذہ تنظیموں نے جامعات کے معاملات میں مداخلت اور ان کی خودمختاری سلب کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ یہ پبلک سیکٹر جامعات کے متعلق شاید اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ جامعات کو کنٹرول کرنے والے صوبائی محکمہ ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو چند دن قبل تمام جامعات کے سربراہان کے نام ایک مراسلہ جاری کرنا پڑا، جس میں تمام سرکاری جامعات کو مالی ڈسپلن میں لانے کے لیے نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کی پنشن کے خاتمے کے علاوہ جامعات کے ملازمین کا ہائوس رینٹ اور میڈیکل الائونس سرکاری ملازمین کے برابر لانے، نیز غیر ضروری بھرتیوں پر پابندی کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔ درج بالا حکومتی اقدامات اور فیصلوں سے اتفاق اور عدم اتفاق کی بحث سے قطع نظر جامعات کے مالی بحران پر بات کرتے ہوئے ہمیں جہاں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ آئینِ پاکستان کے تحت تعلیم کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، نیز اس حوالے سے ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ خیبر پختون خوا ملک کا ایک پسماندہ ترین صوبہ ہے اور یہاں کی نوجوان نسل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے، لہٰذا توقع ہے کہ حکومت اس حقیقت سے آنکھیں چرانے کے بجائے تعلیمی شعبے، خاص کر جامعات کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے تمام ممکنہ حکومتی وسائل بروئے کار لائے گی۔ اسی طرح جامعات سے بھی بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بھی جہاں اپنے ہاں مالی نظم وضبط کے کم از کم معیار کو اپنائیں گی وہاں جدید رجحانات کے تحت جامعات کے دیگر فرائض میں سے ایک اہم فرض یہ بھی ہے کہ انہیں اپنے مالی خسارہ جات پر قابو پانے، نیز اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے حکومتی گرانٹ پر انحصارکے بجائے خود بھی آمدن کے متبادل ذرائع تلاش کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ اس ضمن میں جامعات میں ایچ ای سی گائڈ لائنز کے تحت قائم آفس آف ریسرچ اینویشن اینڈ کمرشلائزیشن (اورک) اور کوالٹی انہانسمنٹ سیل (کیو ای سی) جیسے فورم بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ ادارے ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہیں اس لیے توقع کی جانی چاہیے کہ ان شاء اللہ آنے والے برسوں میں یہ ادارے جامعات کو مالی بحران سے نکالنے میں فعال اور کلیدی کردار ادا کریں گے۔