وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سنبھالتے ہی معیشت کے حوالے سے کٹھن اور مشکل فیصلے کرنے پڑے جس سے عام آدمی کی زندگی پر اثر پڑا ہے۔ وفاقی کابینہ کے جس اجلاس میں وزیراعظم نے معیشت کے حوالے سے مشکل فیصلے کا ذکر کیا تھا اسی اجلاس میں کورونا کی وبا کے پھیلائو کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کا بھی جائزہ لیا گیا، جس کے مطابق کورونا وبا کی مصیبت کے دوران کیے جانے والے اقدامات کے باعث 2 کروڑ افراد اپنے ذرائع آمدن سے محروم ہوگئے تھے۔ دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ان افراد کے روزگار بحال ہوگئے ہیں۔ اس دعوے کے باوجود سوال یہ ہے کہ معاشی حالات کی بہتری کے لیے حکومتی پالیسیوں کے کیا نتائج نکلے ہیں؟ وزیراعظم نے تسلیم کیا ہے کہ معیشت کے حوالے سے ان کی حکومت نے ’’مشکل فیصلے‘‘ کیے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ’’مشکل فیصلے‘‘ کی سیاسی اصطلاح بھی رائج ہوگئی ہے جسے وزیراعظم نے دہرایا ہے۔ مشکل فیصلے سے مراد غریب اور متوسط طبقے کی زندگی کو متاثر کرنے والے وہ اقدامات اور پالیسیاں لی جاتی ہیں جن کی ہدایت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے آتی ہے۔ یہ اصطلاح عمران خان کی تخلیق نہیں ہے، بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندوں کی جانب سے پیش کی گئی ہے۔ تسلی یہ دی جاتی ہے کہ ابھی مشکل فیصلے کو برداشت کرلو، اس کے نتیجے میں معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے، آمدنی اور ذرائع روزگار میں اضافہ ہوگا، معاشی ترقی ہوگی، اس تکلیف سے گزر جانے کے بعد حالات بہتر ہوجائیں گے۔ وزیراعظم نے اسی جملے کو دہرایا ہے جو اس سے قبل عالمی معاشی اداروں کے عہدے دار اور ان کے نمائندے پیش کرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم ’’مشکل فیصلے‘‘ کی طرح ایک اور نئی تخلیق کردہ سیاسی اصطلاح بار بار استعمال کرتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ وہ ’’این آر او‘‘ نہیں دیں گے، وہ این آر او کو پاکستان کے عوام کی معاشی تباہی کا اصل سبب قرار دیتے ہیں۔ ان کے اس دعوے میں وزن ہے، لیکن وہ پوری حقیقت بیان نہیں کرتے اور نہیں بتاتے کہ امریکی ثالثی میں فوجی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ کرایا گیا تھا جس کا مقصد امریکہ کی انسانیت دشمن ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی سیاسی حمایت کا حصول تھا۔ اس مقصد کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے بدعنوانی کے مقدمات ختم کرائے گئے، ساتھ ہی ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کے مقدمات بھی ختم کیے گئے۔ اس حقیقت کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بش دورِ حکومت کی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے جنرل (ر) پرویزمشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان سودے بازی کرائی تھی، اس کے باوجود انہیں سفاکی اور بے دردی سے راولپنڈی کی سڑک پر دہشت گردی کا نشانہ بنادیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے باوجود یہ معاہدہ برقرار رہا اور آصف زرداری کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی اور 2008ء میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کا تباہ کن فیصلہ کیا گیا۔ امریکہ نے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد سے ہر حکومت کے دور میں آئی ایم ایف کے قرضوں کی مقدار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جنرل پرویزمشرف اور اُن کے معاشی منتظمین کی پالیسیوں نے ایسے حالات پیدا کیے کہ پاکستان کے حکمران آئی ایم ایف کے شکنجے کو رضا کارانہ طور پر قبول کرلیں۔ آئی ایم ایف کے شکنجے کی موجودگی میں کوئی بھی سیاسی یا غیر سیاسی حکومت آزادانہ فیصلے نہیں کرسکتی۔ آئی ایم ایف معاشی بحران کے علاج کے لیے جتنے نسخے پیش کرتا ہے اُن کا مقصد امریکہ اور عالمی سرمایہ دارانہ قوتوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑے جانے کے بعد آئی ایم ایف ہی کے پاکستانی نژاد آلہ ٔ کار معاشی وائسرائے بن کر مسلط ہوجاتے ہیں۔ یہی کام عمران خان نے بھی کیا ہے۔ وزیراعظم کے پہلے وزیرخزانہ کوئی انقلابی شخصیت نہیں تھے، بلکہ ان کا پس منظر بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بیوروکریسی سے ہے، لیکن مزاحمت کے باوجود عمران خان بھی آئی ایم ایف کے در پر جانے پر مجبور ہوئے اور وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک درآمد کیے گئے، جس کے بعد سابقہ حکومتوں کی پیدا کردہ معاشی تباہی کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ اب جتنی مہنگائی ہوچکی ہے، ذرائع روزگار جس طرح محدود ہوتے جارہے ہیں اس نے ’’تبدیلی‘‘ کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے۔ ان حالات کا تجزیہ اس جملے میں درست نہیں ہے کہ مشکل فیصلوں کی وجہ سے عوام کے حالات پر بُرا اثر پڑا ہے۔ اس سلسلے میں مکمل اور درست تجزیہ ضروری ہے۔ اس کے ساتھ حقیقی کرداروں کو بے نقاب کیے بغیر معاشی تباہی کے اسباب کا تعین نہیں ہوسکتا۔
آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کا صرف اقتصادی ایجنڈا ہی نہیں ہے بلکہ وہ سیاسی و ثقافتی ایجنڈا بھی رکھتے ہیں۔ امریکہ نے این آر او کے ذریعے سیاسی سودے بازی کرائی اور بدعنوان سیاست دانوں، جرنیلوں، سرکاری افسروں اور کاروباری شخصیات کو تحفظ فراہم کیا تو اس کا مقصد امریکی وار آن ٹیرر کے پاکستان دشمن، عالمِ اسلام دشمن، بلکہ اسلام دشمن مقاصد کا حصول تھا۔ افغانستان کی طویل ترین جنگ میں امریکہ کو شکست ہوگئی ہے۔ اسی شکست نے امریکہ میں داخلی بحران کو جنم دیا ہے جس کا ظہور ٹرمپ جیسے شخص کا عروج تھا۔ اس جنگ میں امریکہ کی شکست کے باوجود پاکستان کے حکمران طبقے یا اشرافیہ کی وجہ سے پاکستان کو حقیقی آزادی نہیں مل سکی ہے۔ عالمی صف بندی میں تبدیلی ہوگئی ہے، چین اقتصادی سپر پاور بننے کے بعد جارحانہ سیاسی سفارت کاری بھی کررہا ہے۔ ان حالات کے فوائد پاکستانی قوم کو حاصل ہوسکتے تھے، لیکن سیاست و حکومت میں بدعنوان طبقات کی طاقت نے ان فوائد سے محروم رکھا ہے۔ اب سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور طاقتور طبقات ایک دوسرے کے جرائم کو اس طرح بے نقاب کررہے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی حقیقی اصلاح نہ ہوسکے۔ سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف مہم چلانے کے باوجود موجودہ دور ِحکومت میں مختلف قسم کے مافیا زیادہ طاقتور، جب کہ ریاستی ادارے کمزور سے کمزور تر ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہمارا قومی نصب العین ہی نہیں رہا ہے۔ پاکستان نسلی یا قومی بنیاد پر قائم ریاست نہیں ہے، بلکہ ایک عقیدے اور نصب العین کے مطابق اجتماعی نظام قائم کرنے کے لیے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے قربانی دی اور آج بھی بھارت کے مسلمان قیام پاکستان کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ قیام پاکستان کا تقاضا تھا کہ ہمارے حکمران امریکہ اور عالمی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کی مزاحمت کرتے، لیکن ان کی ضمیر فروشی اور بدعنوان کردار نے قومی سلامتی اور یکجہتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔