۔”اے سندھ ! تیری بیٹیاں غیرمحفوظ کیوں ہورہی ہیں؟“۔
ہفتہ رفتہ پیر جوگوٹھ ضلع خیرپور میرس کے قریبی گائوں لونگ لاڑک میں نامعلوم ملزمان نے سات برس کی معصوم محنت کش ایک بچی مونیکا لاڑک کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔
اس المناک سانحے کے خلاف اور قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سندھ بھر میں پُرزور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد کے معروف کالم نگار ایڈووکیٹ عبداللہ چھجن نے اس حوالے سے بروز پیر 18جنوری 2021ء کو جو خامہ فرسائی درد بھرے انداز میں کی ہے اس کا ترجمہ قارئین فرائیڈے اسپیشل کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’تین روٹیاں روز اور دس روپے خرچی، جس کی وجہ سے ایک ایسا المناک سانحہ رونما ہوا ہے جس نے گردنیں شرم سے جھکادی ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے ضلع خیرپور میں آج بعینہٖ دور ہے جس کے بارے میں مثالیں دی جایا کرتی تھیں کہ فلاں بادشاہ یا حکمران کے دور میں ایسی بھی غربت ہوا کرتی تھی کہ لوگ ایک وقت کی روٹی کے حصول کے لیے بھی سارا سارا دن سخت محنت اور مشقت کیا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوں گمان ہونے لگا تھا کہ شاید اب وہ پرانا وقت نہیں رہا ہے، اور لوگوں میں اپنی اوقات بسری کے لیے قوت اور طاقت آگئی ہے۔ لیکن خبر اُس وقت پڑی اور صورتِ حال کا صحیح اندازہ تب ہوا جب معصوم مونیکا لاڑک جس کی عمر ہی محض اتنی تھی کہ ابھی اس کے دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے تھے کہ پیر جو گوٹھ کے وحشی صفت انسان نے اس وقت شرم وحیا کی تمام حدود پامال کر ڈالیں جب یہ معصوم فرشتہ صفت مونیکا پیر جوگوٹھ کے کسی پیر ومرشد کے گھر سے وہاں اپنا کام مکمل کرکے حسبِ معمول اپنے گھر کی جانب واپس آرہی تھی۔ اس کے سادہ لوح غریب باپ غلام شبیر لاڑک نے تین روز تک بھی اپنی بیٹی کے گھر نہ آنے پر ازخود ہی یہ قیاس کرلیا کہ میری بیٹی مرشد سائیں کے ہاں ہی زیادہ کام کاج ہونے کی بناء پر رہ رہی ہوگی، لیکن اس پر بعد ازاں یہ جان کر گویا ایک قیامت سی ٹوٹ پڑی کہ اس کی معصوم بیٹی کی لاش قریبی واقع کیلوں کے ایک باغ سے ملی ہے۔
مونیکا کا باپ غلام شبیر تو تین روز تک اپنے گھر میں یہ سوچ کر مطمئن بیٹھا رہا کہ مونیکا جب تین دن کے بعد گھر واپس آئے گی تو وہ اپنے ساتھ شاید 9 عدد روٹیاں اور 30روپے بھی مرشد سائیں کے گھر سے لیتی آئے گی۔ وہ تو اپنے پیر سائیں کی شفقت اور سخاوت سے ازحد پُرامید تھا۔ اب میں اس وقت یہ سطور لکھتے ہوئے بڑی اذیت اور تکلیف محسوس کررہا ہوں۔ کیا اس مرشد سائیں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے گھر میں سات برس کی معصوم بچی اپنے چھوٹے چھوٹے کمزور ہاتھوں سے محنت طلب کام کس طرح اور کیوں کر کرتی ہوگی، اور وہ بھی محض تین روٹیوں اور دس روپے روز کی آس میں؟ افسوس کہ وہ کیسی بے رحم آنکھوں اور پتھر دل والا مرد ہوگا جو معصوم مونیکا کو یوں کام کرتے ہوئے دیکھتا ہوگا اور اسے ہر روز اپنے گھر میں آتے جاتے ہوئے دیکھتا ہوگا۔ لیکن اسے کبھی معصوم مونیکا کی حالتِ زار اور غربت پر ترس نہ آسکا۔ لیکن یہ ظلم تو ہمارے ہاں سندھ کے اضلاع جیکب آباد، خیرپور ، گھوٹکی اور کشمور وغیرہ کے پیروں اور میروں کی حویلیوں میں عام اور معمول کا واقعہ ہے۔ پیر سائیں اور میر سائیں ہمارے ہاں زمینی خدا بنے بیٹھے ہیں، اور ان کے اس ظلم و استحصال پر ان سے کوئی بھی بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔
جیساکہ اوپر بھی مذکور ہوچکا ہے، جب مونیکا تین روز تک اپنے گھر واپس نہ آئی تو اُس کا والد یہ سمجھ بیٹھا کہ میری بیٹی کام کی زیادتی کے سبب مرشد سائیں کے ہاں ہی رہ رہی ہوگی۔ لیکن ہر روز مرشد سائیں کی حویلی میں کام کے لیے آنے والی معصوم مونیکا جب مسلسل تین دن تک اس کے ہاں کام کرنے نہیں آئی تو کیا اس کا بھی یہ فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ اپنے گھر میں کام کرنے والی اس معصوم کنیز کے بارے میں معلوم کرواتا کہ وہ کہاں ہے؟ لیکن اس مرشد سائیں نے بے حسی کی ردا اوڑھے رکھی۔ معصوم مونیکا کا والد جو غربت کے سبب چنگ چی رکشہ چلاتا ہے اُسے بھی اپنی بیٹی کی المناک اور بھیانک موت کی خبر تین روز کے بعد ہی دیگر مقامی افراد کے توسط سے مل سکی، جنہوں نے فرشتہ صفت معصوم مونیکا کو ایک قریبی کیلوں کے باغ میں برہنہ حالت میں مُردہ پایا اور اس کی اطلاح مقتولہ کے والد کو دی۔
پیر جو گوٹھ میں رونما ہونے والا یہ سانحہ کوئی نیا یا انوکھا سانحہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے واقعات اور المیے تو اب ایک طرح سے گویا ہمارے ہاں معمول کا ایک بدنما حصہ بن چکے ہیں، جن کی خبریں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے سے سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن انتظامیہ اور پولیس کے ذمہ داران اس کے باوجود اپنا کردار ادا کرتے ہوئے کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ وہی روایتی بیان کہ ’’تفتیش ابھی جاری ہے‘‘ سننے کو ملتا ہے۔
پیر جو گوٹھ واقعے سے ایک روز پیشتر ضلع گھوٹکی کے شہر اوباڑو میں بھائی کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی مقتولہ سبحانہ شر جس کے بارے میں ابتدائی خبروں میں یہ بتایا گیا کہ دو بھائیوں کے مابین جھگڑے کو ختم کرانے کے لیے جب ان کی یہ بہن بھائیوں کے ہاں پہنچی تو یہ لاڈلی بہن اس دوران ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے گولیوں کا نشانہ بن گئی، لیکن بعد ازاں اس سانحے کے دوسرے روز اس واقعے کو ’’کاروکاری‘‘ کا نام دے کر اس کا رخ ہی تبدیل کردیا گیا۔ یعنی اس معاشرے میں کسی زمین یا گھر یا پلاٹ وغیرہ پر کوئی قتل ہوجائے تو وہ ایک بے حد المناک بات ہوگی، لیکن اگر کسی بہن یا بیٹی کو کارو کاری کے نام پر بے گناہ قتل کردیا جائے اور اس پر یہ جھوٹا الزام لگادیا جائے تو پھر اس گھنائونے عمل کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی، اور ایس ایس پی ضلع گھوٹکی کی طرح پولیس کے ذمہ داران اسے معمول کا واقعہ قرار دے ڈالتے ہیں۔ سندھ میں ہر روز معصوم مونیکا کی طرح بے شمار بچیاں ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں اور قتل تک کردی جاتی ہیں، لیکن ان کا خونِ ناحق کرنے والے کیفرِ کردار کو نہیں پہنچ پاتے۔
مجھے مونیکا کے اس سانحے کے ساتھ ہی اَن گنت اس طرح کے دیگر سانحات بھی یاد آرہے ہیں۔ کس کس کا ذکر کیا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے؟ ہندو لڑکی وسنتی ہو، یا پھر مونیکا، یا سبحانہ شر… روزانہ حوا کی بے شمار مظلوم بیٹیاں المناک واقعات سے دوچار ہوتی ہیں۔ چند روز قبل ہی ضلع کشمور کی تحصیل تنگوانی میں دُلہا نورالدین نندوانی نے شادی کے دوسرے روز ہی کاروکاری کا جھوٹا الزام لگاکر اپنی دلہن شبیراں کو گولیاں مار کر ناحق قتل کرڈالا۔ مقتولہ شبیراں جو اپنے والدین کے گھر سے نئے گھر میں بے شمار آرزوئوں اور تمنائوں کے ساتھ آئی ہوگی، لیکن اسے کس بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ اسی علاقے میں خاوند نے اپنی بیوی پری جعفری کو کھانے میں زہر ملاکر قتل کردیا۔ لیکن یہ تو محض چند واقعات ہیں، اور ہر روز ایسے بے شمار سانحے جنم لے رہے ہیں۔ اب کسی عورت کا قتل تو گویا کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔ آج ہماری بہنیں اور بیٹیاں پرندوں کی طرح سے شکار کی جارہی ہیں۔ جس کا جب جی چاہتا ہے کوئی بھی من گھڑت الزام عائد کرکے انہیں قتل کرڈالتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ سزا دینے والا۔
پیر جو گوٹھ کے مونیکا لاڑک کے اس دردناک واقعے کے بعد اگرچہ روایتی تعزیتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے اور ایم این اے مہرین بھٹو بھی مقتولہ کے ورثاء کو تسلی دینے کے لیے ان کے ہاں پہنچی ہیں جو بلاشبہ وقت کا تقاضا اور ایک قابلِ تعریف کام ہے، لیکن ضرورت بہرحال اس امر کی ہے کہ پولیس جہاں پیر جو گوٹھ کے اردگرد کے علاقوں سے ایک سو افراد کو شک کی بنیاد پر گرفتار کرکے اُن کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا سلسلہ شروع کرچکی ہے، وہیں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مزید المناک واقعات کو آئندہ وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اور مؤثر اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے؟ اور آیا ڈی آئی جی سکھر کی جانب سے تشکیل گردہ پولیس کی تین پارٹیاں اصل ملزمان تک پہنچ کر انہیں پنجاب کے ضلع قصور میں پیش آنے والے زینب کے سانحے میں ملوث مجرم کی طرح پھانسی کے پھندے تک پہنچانے میں کامیاب ہوپائیں گی؟ یا پھر معصوم مقتولہ مونیکا کے ستم زدہ والد غلام شبیر لاڑک کو روایتی طریقے سے بذریعہ دبائو، ترغیب یا تحریص، رام کرنے کے بعد مقتولہ کے خونِ ناحق میں ملوث ملزمان کو اسی طرح سے آزاد چھوڑ دیا جائے گا جس طرح سے کہ ہمارے ہاں شروع سے ہوتا چلا آرہا ہے۔
پس تحریر: خیرپور میں مونیکا لاڑک کیس میں پولیس نے اہم پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔ کے ٹی این نیوز نے اپنی رپورٹ میں ڈی آئی جی سکھر فدا حسین مستوئی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس کیس میں گرفتار ایک ملزم عبداللہ لاڑک کا ڈی این اے مقتولہ مونیکا لاڑک سے میچ کرگیا ہے۔ ڈی آئی جی کے مطابق گرفتار ملزم نے بچی کے ساتھ زیادتی اور اس کے قتل کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ ملزم کا کہنا ہے کہ اس نے یہ گھنائونا کام کاروکاری کے ایک واقعے کے بدلے کے طور پر سر انجام دیا تھا۔
(اسامہ تنولی)