اب سے دو ہفتے پہلے کی بات ہے، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ بلوچستان کی تحصیل بولان کے علاقے مچھ میں کوئلے کی کان میں کُھدائی کرنے والے گیارہ مزدوروں کو دہشت گردوں نے اغوا کرکے وحشیانہ انداز میں قتل کردیا۔ اس دل خراش سانحے کی خبر دیتے ہوئے ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ (دونوں) نے ان مظلوم مزدوروں کے لیے ’’کان کَن‘‘ کی جگہ ’’کان کُن‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ ایک اخبار نے تو اپنی شہ سُرخی میں ’’کن‘‘ کے کاف پر باقاعدہ پیش بھی لگایا، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی اسے ’’کان کُن‘‘ پڑھنے سے محروم ہی رہ جائے۔
اردو زبان میں شائع ہونے والے اخبارات و جرائد اور اردو کو ذریعۂ اظہار بنانے والے نشریاتی اداروں میں اب املا اور تلفظ کی درستی کا خیال رکھنا بے رواج ہوچکا ہے۔حالاں کہ ان اداروں کو اپنے وقار اور وقعت میں اضافہ کرنے کے لیے مستند املا اور مستند تلفظ اختیار کرنے کا باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیے۔ ایک زمانہ تھا کہ ریڈیو، ٹیلی وژن اور اخبارات کا تلفظ و املا سند سمجھا جاتا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی ذمے داریوں میں سے ایک اہم ذمے داری اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین کی علمی رہنمائی بھی ہے۔
ابلاغی اداروں کے لیے فائدے کی نہیں، نقصان کی بات ہے کہ اخبارات میں خبریں تحریر کرنے والوں اور نشریاتی اداروں سے خبریں پڑھنے والوں کی لسانی تربیت کا اب کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس وجہ سے اکثر املا اور تلفظ محض قیاس سے اختیار کرلیے جاتے ہیں۔ غلط املا شائع ہونے اور غلط تلفظ نشر ہونے سے نیک نامی نہیں، بدنامی ہوتی ہے۔ سہل پسندی کی وجہ سے لغت دیکھنے کا کہیں بھی رواج نہیں ہے۔ چناں چہ ’’کارکُن‘‘ کے تلفظ پر قیاس کرکے ’’کان کُن‘‘ کا تلفظ بھی اختیار کرلیا گیا، جو غلط ہے۔ غلطی پر ٹوکنے والابھی اب کوئی نہیں، لہٰذا ایک کی دیکھا دیکھی یا سن کر وہی غلطی دوسرے بھی دوہراتے چلے جاتے ہیں۔
عربی، فارسی اور اردو میں اِعراب (زیر، زبر، پیش)کے فرق سے تلفظ تبدیل ہونے پر اکثر اوقات معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ اس وجہ سے معیاری زبان لکھنے اور بولنے والے املا اور تلفظ کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
’’کان کَن‘‘ فارسی ترکیب ہے۔ کاف پر زبر کے ساتھ ’’کَن‘‘کامطلب ہے ’’کھودنے والا‘‘۔ اس کا مصدر ’’کَندَن‘‘ ہے، یعنی ’’کھودنا‘‘۔ پتھر، لکڑی یا دھات وغیرہ کو کھود کر اس پر نقش و نگار اُبھارنے کو ’’کَندہ کرنا‘‘ کہتے ہیں۔
شیریں فرہاد کی رُومانی داستان میں دودھ کی نہر نکالنے کے لیے اپنے تیشے سے پہاڑ کھود ڈالنے والے فرہاد کو ’’کوہ کَن‘‘ بھی کہا گیا، یعنی ’’پہاڑ کھودنے والا‘‘۔ اگرچہ اب تو بہت سہولت ہوگئی ہے، مگر ہمارا ماضی پرست اور تیشہ بدست شاعر کوہ کَنی کے جدید طریقوں سے سراسر ناخوش ہے۔ کہتا ہے:۔
اب تو بارُود سے ہوتی ہے یہاں کوہ کَنی
اب میں ہم پیشۂ فرہاد نہیں رہ سکتا
قبر کو فارسی میں ’’گور‘‘ کہا جاتا ہے اور قبر کھودنے والے کو ’’گورکَن‘‘۔ فارسی کا ایک محاورہ اکثر اردو میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے ’’چاہ کَن را چاہ درپیش‘‘۔ چاہ کنویں کو کہتے ہیں۔ ترجمہ اس کا یہ ہوگا کہ کنواں کھودنے والے کو خود کنویں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ جو دوسروں کے رستے میں کنواں کھودتا ہے وہ خود اس میں گر پڑتا ہے۔ اسی مفہوم کا یہ محاورہ بھی اردو میں رائج ہے کہ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے۔ مطلب یہ کہ دوسروں کی بُرائی چاہنے والا آپ اس کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ اسی طرح ایک اورلفظ ہے ’’بیخ کَنی‘‘ یعنی جڑ کھودنا یا کسی چیز کو جڑ بنیاد سے اُکھاڑ پھینکنا۔ اکثر اس کا تلفظ بھی کاف پر پیش کے ساتھ کردیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ ’’جاں کَنی‘‘ میں بھی فرشتے کسی کے جسم سے جان اُسی طرح کھینچ کر نکالتے ہیں جس طرح کوئی چیز کھود کر نکالی جاتی ہے۔ اسی کو نزع کا عالم کہتے ہیں۔ نزع کے معنی کسی شے کو کھینچ کر نکالنے کے ہیں۔ نزاع یا تنازع بھی ایسی ہی کھینچا تانی سے پیدا ہوتا ہے۔ کان کَنی میں تو جان کَنی کا خطرہ ہر وقت ہی موجود رہتا ہے۔ مگر ہمارے شعرائے کرام اس قسم کے خطرات سے بھی لطف لیتے ہیں۔ بقول مصطفیٰ زیدی:۔
یکایک ایسے جل بجھنے میں لطفِ جاں کَنی کب تھا
جلے اِک شمّع پر ہم بھی، مگر آہستہ آہستہ
(ضرورتِ شعری کے تحت یہاں شمع کا تلفظ ’’شمّع‘‘ کیا گیا ہے)
حاصلِ کلام یہ کہ کان میں کھدائی کرنے والے مزدور کوکان ’’کَن‘‘ ہی کہا جاتا ہے، کان ’’کُن‘‘ نہیں۔
’’کارکُن‘‘ بھی فارسی ترکیب ہے۔کاف پر پیش کے ساتھ ’’کُن‘‘ کا مطلب فارسی میں ہے: ’’کرنے والا‘‘۔ اس کا مصدر ’’کردن‘‘ ہے، یعنی ’’کرنا‘‘۔ ’’کار‘‘ فارسی میں ’’کام‘‘ کو کہتے ہیں۔ ’’کارکُن‘‘ ہوا کام کرنے والا۔’’حیران کُن‘‘ حیران کرنے والا اور ’’پریشان کُن‘‘ پریشان کرنے والا۔کھیل کے کسی مقابلے کا فیصلہ کرنے والا، مثلاً ہاکی کا جوگول یا کرکٹ کا جو شاٹ فتح و شکست کا فیصلہ کردے، اُسے ’’فیصلہ کُن‘‘ کہتے ہیں۔قوموں کی زندگی میں بعض مواقع بھی ’’فیصلہ کُن‘‘ آتے ہیں، جن کے متعلق تاریخ میں یہی پڑھا ہے کہ اکثرو بیشتر گنوا دیے جاتے ہیں۔
کاف پر پیش کے ساتھ ’’کُن‘‘ عربی زبان کا بھی لفظ ہے۔ یہ صیغۂ امر ہے۔ یعنی حکم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے’’ہوجا‘‘۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 117 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’… اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس کے لیے فرما دیتا ہے کہ ہو جا،(کُن) تو وہ ہو جاتا ہے(فَیکُون)‘‘۔ کُن فیکُون کے یہ قرآنی الفاظ اردو شاعری میں بھی استعمال کیے گئے ہیں۔اقبالؔ کا مشہور شعر ہے:۔
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے ’کُن فیکوں‘
کاف پر زبر کے ساتھ’’کَن‘‘ اردو میں کان کے مخفف کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً جس کے کان کٹے ہوئے ہوں اُس کو ’’کَن کٹا‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ کان اور ماتھے کے بیچ کے پَٹ (حصے) کو ’’کَن پَٹی‘‘ کہتے ہیں، جس کا املا ’’کنپٹی‘‘ ہے۔کسی شخص (بالعموم اگر کسی مرد) کے کان چھدے ہوئے ہوں وہ ’’کَن چھدا‘‘ کہلاتا ہے۔ بُندے وغیرہ پہننے کے لیے بچیوں کے کان چھیدے جاتے ہیں اور اس کی باقاعدہ رسم منعقد کی جاتی ہے، جو’’کَن چھیدن‘‘ یا ’’کَن چھدائی‘‘ کہی جاتی ہے۔ دوسروں کی بات چپکے چپکے کان لگا کر سننے کو ’’کَن سُوئیاں‘‘ لینا کہتے ہیں۔ مگر یہ کوئی اچھی عادت نہیں ہے۔ جو ٹوپی یا ٹوپا کان چھپا لے، وہ ’’کنٹوپ‘‘ کہلاتا ہے۔ ایک زہریلا کیڑا جو کھجور سے مشابہت رکھتا ہے اور کان میں گھس جاتا ہے ’’کَنکھجورا‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو شخص گانے بجانے یا موسیقی کا رسیا ہو اُسے ’’کَن رَس‘‘ یا ’’کَن رسیا‘‘ کہتے ہیں۔
آدھا، کونا یا گوشہ بھی ’’کَن‘‘ کہلاتا ہے۔
اب تو اس کی بس ایک ہی مثال باقی رہ گئی ہے ’’کَن انکھیوں‘‘ سے دیکھنا۔ یعنی گوشۂ چشم سے تکنا۔
وہ گو کچھ نہ سنتی، نہ کہتی اُسے
کَن انکھیوں سے پَر دیکھ رہتی اُسے
(مولوی میرحسن ۔ مثنوی ’’سحرالبیان‘‘)