مذہبی جماعتوں  کے نئے سیاسی اتحاد بنانے کی تجویز

جمعیت (س) کی فعالیت کے پیچھے کون ہے؟سیاسی اتحادوں کی تاریخ اور اس کے نتائج کیانکلے؟

جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی نے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پارٹی کی مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو کئی مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے لیکن موجودہ حکومت ان پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ اجلاس میں ملک کے دیگر حصوں سے بھی جے یوآئی(س) کی مرکزی جنرل کونسل کے ارکان شریک ہوئے۔ مولانا حامدالحق کا کہنا تھا کہ مروجہ نظام کی وجہ سے معاشرے کے عام افراد کئی مسائل کا شکار ہیں۔ انہوں نے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں پر زور دیا کہ وہ پارٹی کی تنظیمِ نو پرتوجہ دیں اور پارٹی کو نچلی سطح پر متحرک کریں، تاکہ ملک کو درپیش چیلنجز کا مناسب انداز میں مقابلہ کیا جاسکے۔ جے یوآئی(س) کے سربراہ نے کہا کہ یہ مولانا سمیع الحق مغفور ومرحوم ہی تھے جو تمام مذہبی جماعتوں کو ایک بینر ’دفاع پاکستان کونسل‘ کے تحت لانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے مرحوم والد نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جو خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ جے یو آئی کے سربراہ نے مذہبی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی سیاست ملک کی خدمت نہیں کررہی ہے بلکہ ان کا ایجنڈا ذاتی اور پارٹی مفادات ہیں اس لیے ہمیں مذہبی جماعتوں کے ایک نئے اتحاد کی طرف جانا ہوگا۔ اس سے قبل شرکاء نے مولانا حامدالحق سے کہا کہ وہ پارٹی کے لیے اپنا لائحہ عمل وضع کریں، قائدین سے ملاقاتیں کریں تاکہ حکمران یا حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے رابطہ کرنے کے بجائے 10 دن میں نیا پلیٹ فارم مہیا کیا جاسکے۔ اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ مولانا حامدالحق کو اپنے مرحوم والد مولانا سمیع الحق کی طرح پاکستان اور اسلام کے خلاف کی جانے والی ہر طرح کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ اجلاس میں طے کیا گیاکہ جے یوآئی ایس کو پورے ملک میں مضبوط کیا جائے گا اور وہ پاکستان اور اسلام دشمن عناصر کو چیلنج کرتا رہے گا۔ شرکاء نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں افواہیں پھیلانے والوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک فلسطین کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، وہ کسی کو بھی یہودی ریاست تسلیم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
جمعیت(س) کی جنرل کونسل کا حالیہ اجلاس اور اس میں کیے گئے فیصلے، خاص کر مذہبی جماعتوں کا کوئی نیا سیاسی اتحاد بنانے کی بات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایک جانب ملک کی قابل ذکر سیاسی جماعتیں واضح طور پر دو گروپوں میں بٹی نظر آتی ہیں، جن میں سے ایک گروپ برسراقتدارجماعتوں پر مشتمل ہے جس کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کررہی ہے، جب کہ اس اتحاد میں ایم کیو ایم، جی ڈی اے، بی اے پی اور پاکستان مسلم لیگ(ق) قابل ذکر جماعتیں ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کا گیارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)، جمعیت(ف)، اے این پی، بی این پی(مینگل)، پختون خوا ملّی عوامی پارٹی، بی این پی(عوامی) اور قومی وطن پارٹی پر مشتمل ہے۔ جب کہ تیسری جانب جماعت اسلامی ملک کی وہ واحد قابلِ ذکر جماعت ہے جو سندھ، خیبرپختون خوا اور قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ میں بھی نمائندگی رکھنے کے باوجود نہ تو حکومتی اتحاد کا حصہ ہے، اور نہ ہی وہ پی ڈی ایم میں شامل ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں جمعیت (س) کے کافی عرصے بعد فعال ہونے اور ملک میں جاری سیاسی بحران، نیز تاریخ کی بدترین مہنگائی کے دوران ایک نئے سیاسی اتحاد کی ضرورت پر زور دینے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جمعیت (س) پی ڈی ایم میں شامل روایتی سیاسی جماعتوں اور برسراقتدار حکومتی اتحاد کے درمیان موجود سیاسی خلا جسے پُر کرنے کے لیے جماعت اسلامی جیسی ملک کی منظم ترین ملک گیر جماعت پہلے سے تن تنہا محوِ پرواز ہے، جمعیت (س) بھی ان ہی لائنوں پرنہ صرف اپنی سیاست آگے بڑھانے کی خواہش مند نظر آتی ہے، بلکہ وہ اس ضمن میں ماضی کی روایات کے مطابق پی ڈی ایم اور حکومتی اتحاد سے باہر کی ہم خیال جماعتوں کو ساتھ ملاکر بطور ایک تیسری سیاسی قوت کوئی نیا سیاسی اتحاد بنانے کے موڈ میں بھی نظر آتی ہے۔ یاد رہے کہ جمعیت(س) ماضی کے اتحادوں کے قیام میں نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہے، اور اس ضمن میں مولانا سمیع الحق کو ملکی سیاست میں ایک خاص اور نمایاں مقام حاصل تھا، جس کی نمایاں مثال جہاں آئی جے آئی اور متحدہ مجلس عمل کے اتحاد تھے، وہیں دفاعِ افغانستان وپاکستان کونسل، ملّی یکجہتی کونسل اور متحدہ دینی محاذ جیسے اتحادوں کے قیام میں بھی جمعیت(س) کا فعال کردار رہا ہے۔
یاد رہے کہ جمعیت(س)1988ء میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں قائم ہونے والے انتخابی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی کے بعد تیسری بڑی اور مؤثر جماعت تھی، جس نے بعد ازاں1990ئکے انتخابات میں میاں نوازشریف کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے لیے راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح جب یہ اتحاد بعد ازاں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکا تھا تو محترم قاضی حسین احمد کے ساتھ مولانا سمیع الحق مذہبی جماعتوں اور آئی جے آئی کی جماعتوں کی جانب سے میاں نوازشریف کے ایک بڑے ناقد کے طور پر سامنے آئے تھے۔ دراصل ان کے اور میاں نوازشریف کے درمیان اختلافات کی وجہ ذاتی یا پارٹی مفادات کے بجائے یہ مطالبہ تھا کہ آئی جے آئی کے مینڈیٹ اور منشور کے مطابق ملک میں شرعی نظام نافذ کیا جائے، جس سے پہلے تو میاں نوازشریف مسلسل کنی کتراتے رہے، لیکن جب ان پر جماعت اسلامی اور جمعیت (س) کا دبائو بڑھا تو انہوں نے اپنے روایتی ہتھکنڈوں سے سرے سے آئی جے آئی کے وجود ہی کو سوالیہ نشان بنادیا تھا، جس پر یہ دونوں جماعتیں اس اتحاد سے علیحدہ ہوگئی تھیں۔ 1993ء کے عام انتخابات جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے لڑے تھے، جب کہ جمعیت علمائے اسلام (س) نے یہ انتخابات اپنے بینر تلے قائم ہونے والے 6 مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد ’متحدہ دینی محاذ‘ کا پلیٹ فارم تشکیل دے کر لڑے تھے۔
پاکستان کی مروجہ سیاست میں مذہبی ووٹ بینک کی اہمیت کا تو ہرکوئی معترف ہے، لیکن دوسری جانب سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اسلامک فرنٹ اور متحدہ دینی محاذ جیسے مذہبی سیاسی اتحاد کبھی بھی روایتی کھلاڑیوں کے ووٹ بینک پر کوئی بڑا ڈینٹ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، جس کی مثال ان دونوں اتحادوں کے انتخابی نتائج کو قرار دیا جاتا ہے۔ اصل میں ہمارے ہاں زیادہ تر انتخابی اتحاد مذہبی جماعتیں تشکیل دیتی رہی ہیں جس کا مقصد لبرل اور ترقی پسند قوتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنا ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں اپنا یہ عارضی اور وقتی مقصد تو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، لیکن کوئی بڑا بریک تھرو کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ پاکستان کے انتخابی اتحادوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو 1973ء میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں تحریک استقلال اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی نے اصغر خان کی زیرقیادت پیپلز پارٹی کے خلاف متحدہ جمہوری محاذ قائم کیا تھا۔ اس طرح اس اتحاد کے کچھ عرصے بعد ہمارے ہاں پہلا بڑا اتحاد اُس وقت سامنے آیا جب حزبِ اختلاف کی 9 جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، تحریک استقلال، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، خاکسار تحریک اور جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیا تھا جس کو ہماری سیاسی تاریخ میں ’’نو ستارے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہل کے انتخابی نشان کے تحت لڑے جانے والے ان انتخابات میں پی این اے نے تمام حلقوں سے اپنے امیدوار اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں برسراقتدار پی پی پی کے خلاف میدان میں اتارے تھے۔ اس اتحاد نے نہ صرف انتخابی نتائج کو مسترد کردیا تھا بلکہ ملک بھر میں ایک زبردست احتجاجی مہم چلا کر بھٹو صاحب کی حکومت کو بھی چلتا کردیا تھا۔
۔2002ء کے عام انتخابات کے موقع پر 6 مذہبی سیاسی جماعتوں جمعیت(ف)، جماعت اسلامی، جمعیت(س)، جمعیت اہل حدیث، جمعیت العلمائے پاکستان اور تحریک جعفریہ پاکستان نے متحدہ مجلس عمل کی تشکیل کی۔ اس اتحاد کی بنیاد مولانا سمیع الحق مرحوم کی قیادت میں افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف وجود میں آنے والی ’’دفاع افغانستان کونسل‘‘ بنی تھی، جسے بعد میں مجلس عمل کی انتخابی حیثیت دے دی گئی تھی۔
مجلس عمل نے صوبہ خیبر پختون خوا میں11.3 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور یہاں سادہ اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ ایم ایم اے کی اس کامیابی کی بڑی وجہ افغانستان پر امریکی حملے پر پاکستان کی پختون بیلٹ میں پائی جانے والی ناراضی کو قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ مجلس عمل پنجاب اورسندھ میں کوئی خاص اثر ڈالنے میں ناکام رہی تھی۔ 2008ء کے انتخابات تک یہ اتحاد ٹوٹ گیا تھا جس کی بنیادی وجہ اتحادکی دو بڑی سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام(ف)کے درمیان اختلافات تھے۔ جماعت اسلامی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، جبکہ جمعیت (ف) نے ان انتخابات میں مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تھا، لیکن اسے 2002ء کے برعکس عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑ اتھا، جب کہ جمعیت(س) نے ان انتخابات میں بھی متحدہ دینی محاذ کے پلیٹ فارم سے قسمت آزمائی کی تھی، لیکن اس کے حصے میں بھی سوائے رسوائی کے کچھ نہیں آیا تھا۔2013ء کے انتخابات جماعت اسلامی نے اپنے انتخابی نشان، جب کہ جمعیت(ف) نے ایم ایم اے کے نشان کتاب، اور جمعیت (س) نے دیوبندی مکتب فکر کی حامل 6 چھوٹی مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر متحدہ دینی محاذ کے پرچم تلے لڑے تھے، لیکن یہ اتحاد ملک بھر سے ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ 2018ئکے انتخابات میں جمعیت(ف) اور جماعت اسلامی تو ایک بار پھر ایم ایم اے بحال کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں، لیکن جمعیت (س) پی ٹی آئی کے ساتھ پہلے انتخابی اتحاد اور بعد ازاں انتخابی ایڈجسٹمنٹ کی آس پر انتخابی منظرنامے سے مکمل طور پر آئوٹ ہوگئی تھی، کیونکہ پی ٹی آئی آخر میں جمعیت (س) کو کسی ایک نشست پر بھی اکاموڈیٹ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، جس کا خمیازہ جمعیت(س) کو بہت بڑی سیاسی تنہائی اور رسوائی کی شکل میں بھگتنا پڑا تھا۔ لہٰذا اب ڈھائی سال بعد جب اس کی جانب سے اپنی صفیں ازسرنو منظم کرنے اور اس ضمن میں مذہبی جماعتوں کا کوئی نیا اتحاد بنانے کی نوید سنائی گئی ہے تو سیاسی مبصرین اسے جمعیت (س) کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ماضی کی قربتوں کا اثر، اور اس اثر کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ ان مبصرین کا دعویٰ ہے کہ جمعیت(س)کی اس فعالیت کے پیچھے پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کو کائونٹر کرنے کے لیے ایک نیا سیاسی اتحاد تشکیل دینے کی خواہش کارفرما نظر آتی ہے۔ ان حلقوں کا یہ بھی استدلال ہے کہ عین ممکن ہے آگے جاکر اس مجوزہ اتحاد میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جانے والی تحریک لبیک، سنی تحریک اور جماعت الدعوہ کے زیراثر جنم لینے والی ملی مسلم لیگ جیسی جماعتیں بھی شامل ہوجائیں۔ اگر واقعتاً ایسا کوئی اتحاد بنتا ہے تو اس سلسلے میں یہ سوال جواب طلب رہے گا کہ آیا دیوبندی اور بریلوی کے دو متحارب مذہبی دھڑوں کی حامل آگ اور پانی سمجھی جانے والی یہ جماعتیں کیونکر ایک دوسرے کے قریب آسکیں گی۔ لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ مقتدر قوتوں کے لیے ضرورت پڑنے پر ایسے کسی اتحاد کی داغ بیل ڈالنا نہ ماضی میں کبھی کوئی مسئلہ رہا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایساکرنا کوئی مشکل امر ہوگا۔