لندن میں بگٹی سے ملاقات

(قسط 5)

مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کلیم صدیقی (مرحوم) نے برطانیہ کے دورے کی دعوت دی۔ لندن یونیورسٹی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ماہ اگست میں ہورہی تھی اور انقلابِ ایران کے حوالے سے مقالہ بھی پڑھنا تھا۔ نواب بگٹی سے بگٹی ہائوس میں ملاقات ہوئی تو اُن سے کہا کہ برطانیہ دعوت پر جارہا ہوں۔ اس پر نواب بگٹی نے کہا کہ میں جرمنی جارہا ہوں اور وہاں سے ہوتا ہوا لندن آجائوں گا۔ انہوں نے مجھ سے مسلم انسٹی ٹیوٹ کا پتا پوچھا اور ٹیلی فون نمبر مانگا جو میں نے انہیں دے دیا۔ یہ 1984ء کی بات ہے۔ کوئٹہ سے کراچی پہنچا تو ائرپورٹ پر خورشید گیلانی (مرحوم) سمیت بعض دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ خورشید گیلانی بہت خوش لباس تھے، بڑے زبردست مقرر تھے اور تحریر بھی بہت اچھی تھی۔ ظہر کے بعد جہاز روانہ ہوگیا۔ رات11 بجے ہم لندن ائرپورٹ پہنچ گئے جہاں غیاث الدین صدیقی ہمیں لینے کے لیے موجود تھے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد ہم لندن یونیورسٹی میں تھے جس کے ہاسٹل میں رہائش کا بندوبست تھا۔ سیکنڈ فلور پر کمرے میں رہائش تھی۔ غیاث الدین نے بتایا کہ کوئی بگٹی صاحب تھے جنہوں نے آپ کا پوچھا کہ کب آرہے ہیں، تو ہم نے اُنہیں بتادیا کہ وہ آج رات پہنچ جائیں گے، اور انہوں نے اپنا نمبر بھی دیا ہے۔ اُن سے نمبر نوٹ کرلیا اور کھانا کھانے کے بعد ہم ساتھی اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ تھکا ہوا تھا، اس لیے جلد ہی خوابوں کی دنیا میں چلا گیا۔
صبح اُٹھا، نماز پڑھی، قرآن کی تلاوت کی، اور چائے پینے کے لیے پہنچ گیا۔ وہاں مسلم ممالک سے آئے ہوئے کئی مہمان موجود تھے۔ اُن سے ملا، اپنا تعارف کرایا۔ انہوں نے بھی اپنا تعارف کرایا۔ اس کے بعد نواب بگٹی کو فون کیا کہ میں پہنچ گیا ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ میں نے رات ہی کو معلوم کرلیا تھا کہ تم پہنچ گئے ہو۔ اُن سے کہا کہ کل آئوں گا۔ کانفرنس کا وقت 10 بجے تھا اور میرے پاس کافی وقت تھا، اس لیے نواب بگٹی کو فون کیا کہ میں آرہا ہوں اپنا پتا بتادیں۔ انہوں نے فون پر بتادیا۔ انہوں نے کہا کہ تم نئے ہو، راستہ بھول جائو گے۔ میں نے کہا کہ نہیں بھولوں گا، میرے پاس لندن کا نقشہ موجود ہے۔ لندن یونیورسٹی سے چند قدم کے فاصلے پر ریلوے اسٹیشن موجود تھا اور ٹیوب چل رہی تھی۔ یہ ریلوے اسٹیشن بوسٹن تھا جہاں بڑا رش تھا۔ ٹکٹ لیا۔ ٹورسٹ گائیڈ کا نقشہ ہاتھ میں تھا۔ ایک جگہ اتر گیا تو معلوم ہوا کہ غلط جگہ اُتر گیا ہوں۔ اسٹیشن پر ایک نیگرو لڑکا نظر آیا جو بھیک مانگ رہا تھا۔ اُس سے اسٹیشن کا پوچھا تو اُس نے کہا آپ واپس جائیں اور وہاں سے دوبارہ ٹرین میں بیٹھیں تو جہاں آپ جانا چاہتے ہیں وہاں پہنچ جائیں گے۔ اس کو پچاس PENI خیرات دی۔ کچھ دیر بعد وہاں پہنچ گیا۔ اسٹیشن سے باہر آیا تو دیکھا کہ نواب بگٹی ہاتھ میں چھڑی لیے کھڑے تھے۔ وہ خوب ہنسے اور کہا کہ تم یقیناً راستہ بھول گئے تھے۔ میں نے اثبات میں سرہلایا اور اُن سے کہا کہ آپ نے کیوں تکلیف کی؟ آپ کے پتے پر آجاتا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میں نے اپنے ایک بگٹی کو بھیجا کہ آپ کو لے آئے۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آگیا اور مجھ سے کہا کہ آپ کا مہمان نہیں آیا ہے۔ اس لیے میں خود آگیا، اور وہ آپ کو جانتا بھی نہیں تھا۔ ہم دونوں پیدل ہی چلے اور وہاں پہنچ گئے جہاں نواب صاحب مقیم تھے۔ یہ برطانیہ کے کسی لارڈ کی رہائش گاہ تھی جس کو بھارت کی کسی خاتون نے خریدا تھی اور اب وہ اس کو کرایہ پر دیتی تھی۔ خوبصورت عمارت تھی۔ اس کے 2 کمرے تھے، ایک رہائش کے لیے، اور ایک کمرہ مہمانوں کے لیے۔ اس میں خوبصورت چھوٹا سا کچن بھی موجود تھا۔ کچھ دیر بعد نواب صاحب نے کہا کہ نیچے چلتے ہیں۔ نیچے گیا اور جو دیکھا اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ درمیان میں ایک ٹیبل تھی، جس پر وہ تمام اشیائے خورونوش موجود تھیں جو نواب صاحب کوئٹہ میں مہمانوں کے لیے رکھتے تھے۔ ان سے کہا کہ نواب صاحب یہاں بھی آپ نے تمام اہتمام کیا ہوا ہے، آپ تو خود یہاں ایک لحاظ سے مہمان ہیں اور کچھ عرصے کے لیے ٹھیرے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ یہ ہماری روایات کا حصہ ہے۔ میز پر تمام خشک میوہ موجود تھا، درمیان میں ایک بڑا سا کیک تھا۔ کچھ دیر نواب صاحب سے جرمنی کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ وہ ایک خاتون سے ملنے گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ خاتون میری واقف تھی اور اس سے کوئٹہ کلب میں ملاقات ہوئی تھی۔ ان کی یہ ملاقات 1958ء سے کچھ پہلے ہوئی تھی جب نواب بگٹی کو حکومت نے اپنے چچا ہسبت خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا اُس وقت یہ خاتون کوئٹہ جیل میں نواب بگٹی سے ملنے اکثر آتی تھی۔ اب نواب ایک طویل عرصے کے بعد اس سے ملنے جرمنی گئے تھے، اور پھر لندن آگئے تھے۔
اب جو واقعہ لکھنے لگا ہوں اسے میں زندگی بھر فراموش نہیں کرسکوں گا۔ میں فٹ پاتھ کا ایک عام آدمی تھا اور وہ ایک طاقتور قبیلے کے نواب تھے۔ مجھ سے پوچھا کہ کیا پیو گے؟ میں نے کہا: کافی۔ وہ کھڑے ہوگئے اور کچن کی طرف چل دیے۔ ان سے کہا کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں کافی بنائوں گا تمہارے لیے۔ میں فوراً کھڑا ہوگیا اور کچن میں اُن کا ہاتھ تھام لیا اور کہا کہ آپ کافی نہیں بنائیں گے، میں بنائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ تم جائو اور کمرے میں بیٹھ جائو۔ ان سے کہا کہ نہیں نواب صاحب آپ کافی نہیں بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تم خاموشی سے جائو اور وہاں بیٹھ جائو۔ مجبوراً بیٹھ گیا، مگر مضطرب تھا۔ جب کافی تیار ہوگئی تو میں فوراً کچن میں پہنچ گیا اور اُن کے ہاتھ سے ٹرے لے لی۔ انہوں نے بڑی مشکل سے ٹرے چھوڑی۔ ہم دونوں کمرے میں آگئے اور مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرتے رہے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد ان سے رخصت لی اور لندن یونیورسٹی پہنچ گیا جہاں دنیا بھر سے مہمان پہنچ گئے تھے۔ ان سب سے ملاقات ہوئی۔ یہ تمام مہمان نظریاتی لحاظ سے ایران کے انقلاب کے حامی تھے اور اپنے اپنے ممالک میں انقلاب کی خواہش رکھتے تھے۔ ان دنوں انور درانی بھی لندن آئے تھے۔ یہ بعد میں نواب بگٹی کی پارٹی کے سینیٹر بھی منتخب ہوگئے تھے۔ وہ میرے اسکول کے زمانے کے کلاس فیلو تھے اور غفور خان درانی کے بھائی تھے۔ غفور خان درانی ایوب خان کے دورِ حکومت میں کوئٹہ میونسپلٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے تھے اور تحریک پاکستان میں شریک تھے۔ اس کانفرنس میں ارشاد احمد حقانی بھی مدعو تھے۔ اُن سے لندن یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں ملاقات ہوئی تو ان کو بتایا کہ نواب بگٹی لندن میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھی بات ہے، اُن سے ایک انٹرویو لینا چاہتا ہوں۔ نواب صاحب کو فون کیا تو انہوں نے انٹرویو کے لیے وقت دے دیا۔ ارشاد احمد حقانی کو لے کر نواب صاحب کی رہائش گاہ پہنچ گیا۔ یہ نواب بگٹی سے اُن کی پہلی ملاقات تھی۔ کوئی ایک گھنٹے تک انٹرویو ہوتا رہا۔ اس موقع پر انور درانی بھی موجود تھے۔ نواب نے کہا کہ جب کانفرنس ختم ہوجائے تو آپ میرے ساتھ کھانا کھائیں گے، آپ میرے مہمان ہوں گے۔ کانفرنس کے بعد وقتِ مقررہ پر ہم پہنچ گئے۔ نواب بگٹی نے سفید کھدر کا لباس، بلوچی چپل، اور کیمل کلر کی صدری پہنی ہوئی تھی۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہے تھے اور تیز تیز قدم اُٹھارہے تھے۔ مجھے کہا کہ جلدی جلدی چلو۔ ان سے مذاقاً کہا کہ آپ کے اونٹ کی طرح لمبے قدم ہیں، اس لیے مجھے تو ایک طرح سے بھاگنا پڑ رہا ہے۔ وہ خوب ہنسے۔ نواب بگٹی نے کہا کہ جب میں پہلی دفعہ لندن آیا تو جس ہوٹل میں اکثر کھانا کھاتا تھا، میں وہیں لے جارہا ہوں۔ کچھ دیر بعد ہم ہوٹل پہنچ گئے۔ ہم دونوں نے پاکستانی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ہوٹل میں تمام لوگ نواب کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان کی شخصیت بڑی وجیہ تھی اور قد بھی اونچا تھا۔ عورتیں تو نواب کو گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں۔ ہم دونوں ایک ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ نواب بگٹی سے کہا کہ عورتیں اور لڑکیاں آپ کو بڑے غور سے دیکھ رہی ہیں۔ اس پر وہ مسکرا دیے۔ ان سے کہا کہ نواب صاحب نوجوانی میں تو لڑکیاں آپ کو خوب غور سے دیکھتی ہوں گی؟ وہ خوب ہنسے، کھانا کھایا اور ہم دونوں رہائش گاہ پہنچ گئے۔ میں نے اُن سے رخصت لی اور یونیورسٹی چلا آیا۔ کانفرنس ختم ہوگئی تھی اس لیے میرے پاس وقت کافی تھا، دوسرے دن پھر ان کی رہائش گاہ پہنچ گیا۔ ان کے قبیلے کا ایک بگٹی لندن میں رہائش پذیر تھا، اس نے نواب صاحب سے کہا کہ چلیں آپ کو سردار عطاء اللہ مینگل کے ہوٹل لیے چلتے ہیں۔ نواب نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ یہ تو میرے لیے خوشی کی بات تھی کہ سردار عطاء اللہ مینگل سے ملاقات ہوجائے گی۔ ہم تینوں ٹرین کے ذریعے وہاں پہنچ گئے۔ پکاڈلی سرکس کا علاقہ تھا۔ ہم پیدل ہی ہوٹل کی جانب روانہ ہوگئے۔ ہوٹل کا نام عمرخیام تھا۔ ہم داخل ہوئے تو نواب کے آدمی نے کہا: یہ نوجوان اختر مینگل ہیں۔ اختر مینگل آگے بڑھے اور نواب صاحب اور ہم سے ہاتھ ملایا۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ جو شخص ہوٹل میں داخل ہوا ہے وہ بگٹی قبیلے کا نواب ہے۔ نواب کے آدمی نے اختر مینگل کو کہا کہ یہ نواب بگٹی ہیں۔ یہ سن کر وہ بڑے احترام سے نواب صاحب کے سامنے کھڑے ہوگئے اور ذرا جھک کے ملے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا پئیں گے؟ میں نے کہا کہ میں صرف چائے پیئوں گا۔ بگٹی کے آدمی کے ہمراہ اُس کا بیٹا بھی تھا جس کی عمر تقریباً 11 سال ہوگی، اس کے باپ نے شراب کا آرڈر دیا اور بیٹے کو بھی شراب پلائی۔ میں بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ ایک باپ کیا کررہا ہے! اختر مینگل جب آرڈر لینے آئے تو نواب بگٹی نے پوچھا کہ یہاں کیا کررہے ہو، پڑھ رہے ہو؟ تو انہوں نے نفی میں سر ہلادیا۔ نواب صاحب نے مجھ سے کہا کہ اس نالائق کو دیکھو لندن میں آیا ہے اور تعلیم کا کوئی شوق نہیں ہے۔ نواب صاحب نے سردار عطاء اللہ کا پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ یوں سردار عطاء اللہ مینگل سے ملاقات نہ ہوسکی۔ سردار مینگل کسی Old Age Home کے نگران تھے۔ یہ اُس بگٹی نے بتایا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ نواب کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ دوسرے دن نواب کے ساتھ ہم لندن کے پکاڈلی سرکس کی طرف گئے۔ اس علاقے میں راتیں جاگتی ہیں، یہاں شراب خانے موجود ہیں، تھیٹر موجود ہے۔ ویسے تو لندن 5 بجے کے بعد بند ہوجاتا ہے مگر یہ علاقہ جاگتا ہے۔ یہاں دن کا سماں ہوتا ہے۔ اس علاقے میں اکثر لڑکیاں اور مرد لڑکھڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہاں کوئی پولیس نہیں تھی، سب آزاد تھے۔ سنیما ہال بھی موجود تھے۔ رات زیادہ ہوگئی تھی، نواب صاحب نے کہا کہ چلیں کہیں کھانا کھاتے ہیں۔ ہم ایسے ہوٹل کی تلاش میں تھے جہاں ہلال کھانا موجود ہو۔ ڈھونڈتے رہے، آخر ایک چھوٹا سا ہوٹل مل گیا جہاں ایک بنگالی موجود تھا۔ اُس سے کہا کہ ہمیں حلال کھانا تیار کردے۔ اس نے ہمارے لیے حلال کھانا تیار کرلیا اور رات گئے ہم لوٹ گئے۔ انور درانی ہمارے ساتھ تھے۔ اُن سے رخصت لی اور لندن یونیورسٹی کے ہاسٹل پہنچ گیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اب میری واپسی کی تاریخ قریب آرہی تھی اور عید بھی قریب تھی۔ جب دوسرے دن نواب سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ تم عید یہاں کرو گے یا اپنے گھر میں؟ اُن سے کہا کہ عید اپنی فیملی کے ساتھ اپنے وطن میں کرنا چاہتا ہوں۔ نواب نے بڑا اصرار کیا کہ یہاں عید کرلو، لیکن دل نہیں مانا۔ لندن سے کراچی پہنچا، یہاں عید کی نماز پڑھی اور کوئٹہ کی فلائٹ پکڑی اور عید کے دن کوئٹہ پہنچ گیا۔ اب جب یہ تحریر کررہا ہوں تو بڑا وقت گزر گیا ہے، جو کچھ یاد ہے وہ لکھ رہا ہوں، کچھ بھول گیا ہوں۔ اہم باتیں لکھ دی ہیں جو اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے کل کی بات ہے۔ بقول شاعر

کوچے میں تھی 37 سال قبل
بہار ابھی کل کی بات ہے