فیصل آباد کے تحریکی اور تعلیمی حلقوں میں پروفیسر قاری عبدالخالق بہت نمایاں، معتبر اور محترم شخصیت کے طور پر معروف و مقبول تھے۔ انہوں نے طویل عرصے تک مختلف تعلیمی اداروں میں شماریات کے مضمون میں طالبانِ علم کو تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت اور دین سے آگاہی کا فرض ادا کیا۔ تقریباً 69 سال کی عمر میں گزشتہ دنوں کورونا کا شکار ہوکر داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔
پروفیسر موصوف علمی، دینی اور جسمانی اعتبار سے بہت قد آور تھے۔ کالج اساتذہ کی پیشہ ورانہ تنظیم پی پی ایل اے کے صوبائی سیکریٹری رہے اور اپنے کالج یونٹ کے متعدد بار صدر منتخب ہوئے۔ فکری اور نظریاتی تعلق اساتذہ کی تنظیم ’’تنظیم اساتذہ پاکستان‘‘ کے ساتھ تادمِ آخر مستحکم رہا۔
اپنی ہر حیثیت میں انہوں نے فلاحِ عامہ کو اپنا شعار بنایا۔ دورانِ ملازمت اساتذہ کے ہمدرد، معاون، خیرخواہ رہے اور پیشہ ورانہ مسائل و معاملات کے حل کے ساتھ ذاتی فلاح و بہبود میں سرگرمی دکھائی، اور سرکاری فرائض سے سبک دوشی کے بعد اپنے حلقۂ تعارف کے تحریکی و غیر تحریکی احباب، اعزہ و اقربا کی ضروریات بالخصوص شادی بیاہ، خوشی غمی اور دیگر مواقع پر اپنی طرف سے بھرپور مالی مدد اور دیگر احباب کے ذریعے تعاون کرتے رہے۔ گزشتہ لاک ڈائون کے دوران راشن پہنچانے کا کام خود اپنے ذمے لیا۔
مرحوم کو قرآن کریم، صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم، اور اس نسبت سے دو شخصیات سیدنا بلالؓ اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے دیوانگی کی حد تک لگائو تھا۔ نہایت خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا ان کا معمول تھا۔ قرآنی تعلیمات کا مطالعہ بھی ان کی ترجیح ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عشق تھا۔ آپؐ کی سیرت کے مطالعے کو خصوصی اہمیت دیتے۔ اکثر مجالس میں واقعاتِ سیرت اور تذکارِ اصحابِ پاک کرکے محظوظ ہوتے۔ اسی نسبت سے حضرت بلالؓ سے متعلق علامہ اقبالؒ کی دو نظمیں بہت تواتر سے دہراتے اور دوستوں سے سنتے۔ اپنے اعزہ اور احباب کو نصیحت کرتے رہتے کہ دن کے ابتدائی حصے میں استغفار اور دوسرے حصے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کثرت سے درود پاک کے نذرانے پیش کرتے رہیں۔
ان کا گھرانہ مکمل تحریکی گھرانہ تھا۔ ان کی اہلیہ محترمہ طویل عرصے تک جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی ناظمہ رہیں۔ اللہ نے انہیں گرچہ اولاد کی نعمت سے محروم رکھا، مگر اپنے بھائی، بہنوں کی اولاد کو اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہا اور ان کے والدین سے بڑھ کر ان کی ضروریات کی تکمیل اور کفالت کرتے رہے۔ ان کے زیر تربیت و کفالت رہنے والے بچوں کا بیان ہے کہ حالات خواہ کیسے ہی دشوار اور بظاہر ان کا حل ناممکن ہو، انہیں نہ کبھی پریشان دیکھا، نہ مایوس اور نہ ناامید۔ انہوں نے ہمیشہ ہر مشکل اور بڑے کام کو اپنے تدبر، حکمت، عزم و ارادے سے اللہ کی مدد کے بھروسے پر حل کرلیا اور سرخرو رہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد تحریکی احباب کے ساتھ مل کر اعلیٰ سائنس کی تعلیم کا ادارہ ’’فیصل آباد کالج آف سائنس‘‘ بنایا، جہاں تعلیم و تعلّم کے علاوہ تحریکی، تنظیمی اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رہتیں۔ تنظیم اساتذہ کی تربیت گاہیں، ماہانہ اجلاس، دبستانِ فکرِ اقبال کے تحت ہفتہ وار تدریسِ اقبال کی مجالس منعقد ہوتیں۔ وہ بڑی خوش دلی سے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے اور ہر ممکن خدمت اور میزبانی کرتے۔ ان کے لیے یہ عام سی بات اور معمول تھا کہ احباب اگر مذاق میں بھی کھانے اور دعوتِ طعام و کلام کا تقاضا کرتے تو بلاتاخیر اسے قبول کرکے پچاس ساٹھ مختلف الفکر دوستوں کو پُرتکلف دعوت پر اکٹھا کرکے علمی ادبی لطائف، مزاح اور بے تکلفی کے ساتھ یادِ ماضی کو آواز دیتے، لطف اٹھاتے اور دوستوں کو محظوظ کرتے۔
اپنے زیر نگرانی ادارے ’’فیصل آباد کالج آف سائنس‘‘ میں اعلیٰ درجے کی تقریبات کے انعقاد کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔ طلبہ کی ذہنی نشوونما، اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے لیے بڑے ادبا، شعرا، مفکرین، علما اور دانشوروں کو بلاتے اور دعوتِ کلام و خطاب دیتے۔ ادارے میں طالبات کی موجودگی کے باعث مخلوط تعلیم کو کبھی باضطرار بھی قبول نہیں کیا۔ ان کے لیے علیحدہ حصہ مختص کیا۔ علیحدہ نظام العمل ترتیب دیا، اور تمام تعلیمی و ہم نصابی سرگرمیاں علیحدہ منعقد کیں۔ اگرچہ کم وسائل اور انتظامی مسائل رکھنے والے چھوٹے اداروں کے لیے یہ بڑا معاشی بوجھ تھا، مگر وہ استقامت کے ساتھ اس لائحہ عمل پر جمے رہے۔ ان کے ادارے کی ایک خاص بات نظم الاوقات میں نماز باجماعت کا وقفہ اور اہتمام شامل تھا، جس سے ان کی دینی وابستگی اور شعوری کیفیت کا پتا چلتا ہے۔
ان کا ایک خاص شخصی وصف علم اور اہلِ علم سے وابستگی تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس اشتیاق میں بہت اضافہ ہوگیا۔ کتابوں سے وابستگی، علمی مجالس میں شرکت، اہلِ علم بالخصوص ذکر و فکر میں مراتب رکھنے والی شخصیات کے حضور حاضری، ان کی صحبت اور فیض کا حصول ان کا معمول بن گیا۔ یہ ان مجالس میں کئی کئی دن اور راتیں بسر کرتے۔ تزکیۂ نفس کا سامان کرتے اور اہل اللہ کی رفاقت سے مستفید ہوئے۔ انہوں نے درسِ نظامی، دورہ تفسیر و حدیث اور دیگر پروگراموں میں ایک طالب علم کی حیثیت سے حصہ لیا اور ان کی تکمیل کی۔ کئی شب بیداریاں، چلہ کشی اور محافلِ ذکر و تربیت کو اختیار کیا۔ آخری برسوں میں ان کا رجحان تصوف کی جانب ہوا۔ سلوک و معرفت کے راستوں کے مسافر بنے اور ایک بڑی علمی اور روحانی شخصیت کے ہاتھوں پر بیعت ہوئے۔
اپنے مزاج کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے والے، ان کے کام آنے والے، ان کی ضروریات و مسائل کو نظر میں رکھنے والے تھے۔ بہت سارے معاملات پر خوب علم و تجربہ رکھنے کے باوجود یہی ظاہر کرتے کہ انہیں کسی بات کا علم نہیں۔ مجالس میں موضوعات چھیڑتے۔ علمی، دینی، سیاسی، اخلاقی، معاشرتی موضوعات پر دلچسی رکھتے۔ دوستوں کی رائے اور علم سے استفادہ کرتے، اور اگر کہیں ان کی رائے شرکائے مجلس سے مختلف ہوتی تو بڑی صراحت اور پختہ دلائل طکے ساتھ اپنے مؤقف کا اظہار کرتے، بلکہ اس پر جمے رہتے۔ وہ اکثر قومی معاملات بالخصوص نسلِ نو کی اخلاقی حالت پر دل گرفتہ اور پریشان رہتے۔
اُن کے شخصی اوصاف بلاشبہ ان کی پاکیزہ شخصیت، نیک سیرت اور قلبِ مصفا و مطہر کے عکاس تھے۔ وہ اپنے طلبہ، احباب، رفقائے کار اور حلقۂ تعارف میں بہت محترم اور سربرآوردہ تھے۔ وہ بھی لوگوں کا خوب احترام و اکرام کرتے اور ان سے ایسا ہی جواب پاتے۔
اللہ کا یہ پاکیزہ صفت اور پاک طینت بندہ اپنے خالق و مالک کی بندگی کے نام سے موسوم ہوا… عبدالخالق۔ اسی کی بندگی میں اپنی زندگی کے 69 سال بسر کیے۔ اسی کی بندگی کے اظہار کے طور پر اس کے بندوں کے کام آتا رہا۔ ان کی خدمت، عزت، ان سے محبت اور وفا کے راستے پر چلا۔ اسی مالک و خالق کی بندگی کے راستوں، طریقوں اور طرزِ حیات کا متلاشی رہا، اور اسی کی بندگی کے سنگ ہائے میل طے کرتا ہوا، اس کے حکم کی تعمیل میں نفس مطمئنہ کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سفید کفن میں لپٹا اُن کا سرخ سفید چہرہ، اور اس پر سجی چاندی کی سی سفیدی لیے سنتِ رسول، لبوں پر حسبِ معمول زیرلب مسکراہٹ ان کے اطمینانِ نفس و روح کی غماز تھی۔ یہ پاکیزہ روح شاداں و فرحاں یقیناً اللہ کی جنتوں اور پاکیزہ بندوں کے جلو میں اپنی بندگی کے انعامات پا رہی ہوگی۔
فیصل آباد کی معروف ادبی و علمی تنظیم دبستانِ فکرِ اقبال نے جمعہ 8 جنوری 2021ء کو اپنے مرحوم رکن پروفیسر قاری عبدالخالقؒ کی یاد میں تعزیتی مجلس منعقد کی، جس میں پروفیسر ڈاکٹر آصف اعوان ڈین علوم شرقیہ و اسلامیہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، جناب محمد بشیر ہرل محقق و مصنف، جناب ڈاکٹر زاہد اشرف ڈائریکٹر آف لیبارٹریز، مدیراعلیٰ ’’المنبر‘‘ پروفیسر محبوب الزماں بٹ امیر جماعت اسلامی فیصل آباد، جناب محمد زبیر پرنسپل ریٹائرڈ، جناب پروفیسر محمد رمضان، جناب پروفیسر عابد محمود، جناب مفتی محمد سعید سیکریٹری دبستانِ فکرِ اقبال، جناب پروفیسر عبدالرحمٰن پرنسپل رحمان کالج اور راقم الحروف نے اظہارِ خیال اور مرحوم کی صفات و حیات کا تذکرہ کیا۔
یقینا اللہ کی ذات کو بقا و دوام حاصل ہے۔ باقی سب فانی ہیں۔ مگر انسان کا وہ کردار اور مآثرِ کرام بھی باقی رہتے ہیں جو اس کی دلکش شخصیت کو بقا و دوام عطا کرتے ہیں۔ بلاشبہ قاری عبدالخالق مرحوم ایک ایسی روشن و تابناک شخصیت تھے جو اپنے طالب علموں، دوستوں اور عام انسانوں کے لیے روشنی کی قندیل اور تقلید و اتباع کا نمونہ بنے رہیں گے۔