مصنف : رام جی داس
مرتبہ : ڈاکٹر معین الدین عقیل
صفحات : 112 قیمت:500 روپے
ناشر : فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ
F-42 حب ریور روڈ، سائٹ کراچی
ای میل : contact@fazlee.com
زیر نظر کتاب کا اصل نام جو مصنف نے رکھا تھا وہ ’’تاریخ اموراتِ عام ضلع دہلی‘‘ تھا۔ یہ ایک غیر معروف و غیر مطبوعہ اور منحصر بفرد نودریافت مخطوطہ ہے جو مانچسٹر کے کتب خانے جون ریلنڈ لائبریری کے اردو مخطوطات کے گوشے سے ڈاکٹر معین الدین عقیل نے دریافت کرکے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر مبسوط مقدمہ تحریر کیا ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’یہ نادر تصنیف ’’ذکر اموراتِ عام ضلع دہلی‘‘ ہے، جسے ’’رام جی داس‘‘ نے 1854ء میں تحریر کیا تھا۔ یہی وہ سن ہے جب سید احمد خان کی تصنیف ’’آثار الصنادید‘‘ کا دوسرا ترمیمی ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ مصنف رام جی داس دہلی کے محکمہ کلکٹری میں نائب سرشتہ دار رہا، اور غالباً ملازمت سے اپنی سبک دوشی کے بعد اس نے یہ کتاب تحریر کی، جس کی ہدایت اسے اس کے افسر یا اس کے محکمے کے سربراہ کرنل جورج ولیم ہیملٹن (Con.George William Hamilton) نے دی تھی۔ چنانچہ اس نے کتاب کو لکھتے ہوئے جہاں معاصر تاریخوں سے مدد لی ہے، جس کا حوالہ بعض حاشیوں میں اس کی جانب سے مآخذ کی نشاندہی سے ہوتا ہے، وہیں گاہے گاہے عمارات اور ماحول کے تذکروں میں لگتا ہے اپنے ذاتی مشاہدات کی مدد سے بھی وہ احوال بیان کررہا ہے۔ خاص طور پر اختتامی باب میں، جہاں وہ دہلی کے رقبے اور مساحتی تفصیلات وغیرہ کو بیان کررہا ہے، جو عام طور پر سابقہ تصانیف کے موضوعات نہیں رہے، یہاں اس کی منصبی معلومات کا بیان معلوم ہوتا ہے۔ مزید تفصیلات اس نے خود اپنے بارے میں، اپنی منصبی ذمے داریوں یا اپنے حالاتِ زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتائیں۔ بس یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ 1854ء سے قبل اپنی ملازمت سے سبک دوش ہوچکا تھا، اور غالباً اس کا خاندانی یا پیدائشی تعلق مہرولی سے تھا۔
چوں کہ یہ تصنیف غیر معروف رہی اور اس کے محض ایک ہی نسخے کے بارے میں راقم کو علم ہوسکا ہے، جو دہلی کے بارے میں مطالعات کرنے والے دیگر مصنفین و محققین کی نظروں میں بھی نہ آسکی، چنانچہ اس کا حوالہ کہیں نظر نہیں آتا، اور یہ اسی لیے دہلی کے بارے میں شاید اب تک توجہ اور مطالعات کا ماخذ نہ بن سکی‘‘۔
’’اس تصنیف کی اہمیت یہ ہے کہ یہ دہلی شہر کی علی الخصوص ایسی تاریخ ہے جس کا مصنف اپنے منصب کے لحاظ سے ایسے محکمے کا سرکاری ملازم ہے جس نے محکمے کی شہری منصوبہ بندی کی تفویض کردہ ذمے داریوں کو ادا کرتے ہوئے جو متعلقہ علم و تجربہ حاصل کیا، اس کے مطابق اس نے اپنے افسرِ اعلیٰ کی ہدایت پر یہ کتاب تصنیف کی، اور اس شہر کے ماضیِ قریب و دور کی تاریخ کے واقعات کے لیے تو معاصر تاریخوں کو مآخذ بنایا لیکن اپنی معاصر تاریخ اور دہلی کی شہری و معاشرتی زندگی کے احوال کو اپنے ذاتی علم و مشاہدے پر منحصر رکھا، جس کی وجہ سے یہ تصنیف دہلی پر مذکورہ بالا تصانیف کے مقابلے میں ایک بنیادی ماخذ کہی جاسکتی ہے اور جسے استناد کا حامل بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ یقیناً ’’سیرالمنازل‘‘ بھی اس خصوصیت سے متصف ہے، اور ’’آثار الصنادید‘‘ کے موضوعات بھی اسی صفت کی وجہ سے بنیادی ماخذ کی تعریف پر پورے اترتے ہیں، جس میں مولوی بشیرالدین احمد کی ضخیم و بے حد مفصل و معلوماتی تصنیف کو بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ’’ذکر اموراتِ عام دہلی‘‘ ان سے قدرے مختلف اور معیاری و مستند اس وجہ سے ہے کہ بعض حقائق اور معلومات کے اخذ کرنے میں مصنف نے اپنے دفتری ریکارڈ اور اپنی ذاتی معلومات اور مشاہدے سے بھی فائدہ اٹھایا ہے، اور اپنے موضوعات کو، جس حد تک بھی اس نے ان کو اپنی تصنیف میں شامل کیا ہے، پیش کرنے میں صحت و سند دینے کی کوشش کی ہے، یا ہم اسے قابلِ بھروسا سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک وصف اس تصنیف کا اہم ہے کہ یہ اپنی متعلقہ دیگر اہم معاصر تصانیف: ’’سیرالمنازل‘‘ اور ’’آثار الصنادید‘‘ کے مقابلے میں چند ایسی عمارتوں اور دیگر معلومات و عنوانات پر بھی مشتمل ہے جو ان دونوں تصانیف میں موجود نہیں ،اور ان کے لیے یہ تصنیف واحد دستیاب ماخذ قرار دی جاسکتی ہے، اور یوں اپنے موضوع پر بے حد اہم ماخذ کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔
یہ تصنیف تین فصلوں پر مشتمل ہے، جو یہ ہیں: ۔
فصل اول: شہر کی تاریخ عہدِ قدیم سے تاریخِ تصنیف تک، فصل دوم: شہر کی عمارتوں، قلعوں، مساجد، مقابر و درگاہوں، سرائے اور دروازوں، بند اور پُلوں اور تالابوں کے تعارف و تاریخ پر۔ اور فصل سوم: احوالِ شہر و پرگنات اور شہری بندوبست کی اصطلاحات اور تشریح الفاظ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس تیسری فصل کے موضوعات بالعموم دہلی پر لکھی جانے والی دیگر کتابوں میں نظر نہیں آتے ہیں۔ اپنی ان صفات اور انفرادیتوں کی وجہ سے یہ تصنیف، اگرچہ مختصر ہے لیکن دہلی شہر کی تاریخ و معاشرت اور متعلقہ موضوعات کو بنیادی اور ضروری معلومات کے ساتھ سامنے لے آتی ہے، اور یہ ایسی تفصیلات و جزئیات پر بھی مشتمل ہے جو عام طور پر دہلی شہر کے بارے میں لکھی گئی دیگر تصانیفِ ماضی و عصر میں نہیں ملتیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے ان معلومات سے بھی استفادہ کیا ہے جو اس نے شاید دفتری ریکارڈ سے اخذ کی ہیں۔ اس لحاظ سے دہلی کی تاریخ اور متعلقہ موضوعات پر دیگر متعدد اہم و ناگزیر مآخذ کی موجودگی کے باوجود زیر نظر تصنیف اپنی ایک انفرادیت اور اہمیت رکھتی ہے، اس لیے دہلی کی تاریخ و تہذیب پر مطالعات و تحقیقات کے لیے یہ ہمیشہ ایک بنیادی اور ناگزیر تحریررہے گی‘‘۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے مقدمے میں دہلی کے تعلق سے لکھی جانے والی کتابوں کا ذکر کیا ہے، وہ ہم قارئین کی معلومات کے لیے یہاں درج کرتے ہیں:۔
’’دہلی یا اس کے آخر عہدِ اسلامی کی تہذیبی تاریخ کے ضمن میں اوّلین معروف فارسی تصنیف ’’سیرالمنازل‘‘ ہے جسے مرزا سنگین بیگ نے 1821ء کے آس پاس تصنیف کیا تھا۔ یہ تصنیف فارسی زبان میں تھی، جس کا ایک اردو ترجمہ شریف حسین قاسمی نے کیا، اور فارسی متن کو قدرے مرتب کرکے اردو متن کے ساتھ شائع کیا۔ اس سے قطع نظر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ دہلی شہر کو علی الخصوص حیدرآباد کے نواب درگاہ قلی خان (1708ء۔ 1766ء) نے اپنی تصنیف ’’مرقع دہلی‘‘ مرقومہ 1741ء۔ 1748ء میں موضوع بنایا، لیکن یہ بعد میں لکھی جانے والی تصنیف: ’’سیرالمنازل‘‘ سے اس طور پر مختلف تھی کہ اس میں شہر کے ساتھ ساتھ شہریوں کی معاشرتی زندگی اور ثقافتی و تہذیبی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جب کہ دہلی کی تاریخ و آثار پر ’’سیرالمنازل‘‘ اولین اور نسبتاً جدید انداز کی تاریخ ہے جو نوآبادیاتی دور میں لکھی گئی۔ مذکورہ اردو ترجمے کے علاوہ اس کے دو ترجمے دہلی میں ہوئے ہیں، جن میں سے ایک: Sangin Beg, Sair-ul-Manzil، نوشین جعفری نے کیا، اور سواپنا لیڈل نے مرتب کیا تھا، اور دوسرا ترجمہ:Delhi in Transition, 1821 and beyond, Mirza Sangin Beg`s Sair-ul-Manzil، خاصی محنت و اہتمام سے شمع مترا چنائے نے کیا، جس کے فاضلانہ مقدمے میں مؤخر الذکر مترجم نے اس کے قلمی نسخوں کی نشان دہی بھی کی اور ایک معلوماتی و تجزیاتی مقدمہ بھی لکھا۔ اس دور میں بھارتی مصنفین اور تاریخ نویسوں میں شمع متراچنائے نے دہلی کے مطالعات کو تخصیصی طور پر اپنایا ہے۔ قبل ازیں ان کی تصانیف: Shahjahanabad, A City of Delhi 1638-1857، اور اسی موضوع پر ان کا مقالہ:۔ Shahjahanabad, Seventeenth and Eigthteenth Centuries Symphony identities Plurality، پھر حیدرآباد کے نواب درگاہ قلی خان کی معروف قدیم فارسی تصنیف: ’’مرقع دہلی‘‘ کا انگریزی ترجمہ: Muraqqa-e-Dehli, The Mughal Capital in the Time of Muhammad Shah. کیا۔ شاہجہان آباد پر مصنفہ نے مزید مقالات بھی لکھے ہیں اور قرون وسطیٰ کی تاریخ پر دیگر متنوع مطالعات بھی انہوں نے کیے ہیں جو قابلِ شمار اور قابلِ استفادہ ہیں۔
ان اہم تصانیف کے بعد دہلی پر قابل ذکر مثالی تصنیف ’’آثار الصنادید‘‘ ہے جسے سید احمد خاں نے بڑی محنت و جستجو سے تحریر کیا اور 1847ء میں شائع کروایا۔ پھر قدرے تصحیحات کے بعد اسے 1854ء میں دوبارہ شائع کیا، اور بعد میں اب تک کئی بار مختلف صورتوں میں شائع ہوچکی ہے۔ یہ بہت مفصل اور محققانہ تصنیف ہے۔ اسی نوعیت کی بلکہ اس سے کہیں زیادہ مفصل، ضخیم اور معلوماتی تصنیف ’’واقعات دارالحکومت دہلی‘‘ مصنفہ بشیرالدین احمد ہے، جو دہلی کی تاریخ و تہذیب کے تمام ہی پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ دہلی کی تاریخ و تہذیب پر علی الخصوص یہ تین تصانیف قابلِ رشک محنت و جستجو سے لکھی گئی تھیں، جن کی پیروی میں دیگر بہت سی چھوٹی بڑی تصانیف سامنے آتی رہیں، جیسے ’’دلی کی تاریخی مساجد‘‘ از عطاالرحمٰن قاسمی، ’’الواح الصنادید‘‘ از عطا الرحمٰن قاسمی، ’’دلی کے آثار قدیمہ‘‘ از ڈاکٹر خلیق انجم، ’’دہلی کی درگاہ شاہ مرداں‘‘ از ڈاکٹر خلیق انجم، ’’دہلی کے قدیم مدارس اور مدّرس‘‘ از امداد صابری، ’’دہلی اور اطرافِ دہلی‘‘ مصنفہ حکیم عبدالحئی، ’’بزم آخر‘‘ از منشی فیاض الدین، ’’مرقع دہلی‘‘ از درگاہ قلی خاں وغیرہ۔ یہ بیسیوں تصانیف میں ایسی چند تصانیف ہیں جو ’’آثار الصنادید‘‘ اور ’’واقعات دارالحکومت دہلی‘‘ کے بعد منظرعام پر آئیں۔ لیکن یہ اور ایسی بیشتر تصانیف مطالعاتی اور تعارفی نوعیت کی ہیں، جبکہ ان چند دہائیوں کے عرصے میں دہلی میں ایک دو ادبی اور طباعتی اداروں نے علی الخصوص دہلی کی معاشرت اور ثقافت پر کلاسیکی نوعیت کی قدیم کتابیں یا دہلی سے تعلق رکھنے والے صاحبِ طرز ادیبوں و انشا پردازوں کی ایسی کتابیں یا تحریریں چھاپی ہیں جن میں دہلی کی تاریخ و معاشرت و تہذیب کے ساتھ ساتھ دہلی یا اس کے اکابر و نمائندہ شخصیات سے متعلق ان کی یادداشتیں اور خاکے محفوظ ہوگئے ہیں، جو دہلی کی تاریخ و معاشرت اور تہذیب و سوانحات کے لحاظ سے اپنی تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔