پیر4جنوری کی صبح ایک نجی مصروفیت کے باعث میرا موبائل فون سائلنٹ پر تھا۔ اس دوران مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے برادرم رستم اور ہمارے دیرینہ رفیقِ کار اور بھائی سلمان عابد کی کالیں آرہی تھیں ۔ فارغ ہو کر انہیں فون کر ہی رہا تھا کہ ایک ناواقف نمبر پر ٹرسٹ کے اکائونٹنٹ محمد میاں کی کال آگئی۔ انہوں نے سلام دعا کے بغیر ہی اندوہناک خبر سنائی کہ برادرم رئوف طاہرکا انتقال ہوگیا ہے۔ تفصیلات اُن کے پاس بھی نہیں تھیں۔ انہیں بھی یہ اطلاع ٹرسٹ کے چیئرمین جناب خالد محمود صاحب کے ذریعے ہی ملی تھی، جنہیں اُن کے اور ہمارے مربی و مہربان جناب مجیب الرحمٰن شامی نے یہ دل ہلا دینے والی خبر دی تھی۔ میں فوری طور پر ٹرسٹ کے دفتر پہنچا، جہاں ہنگامی طور پر پون بجے ہی ظہر کی نماز ادا کردی گئی، لیکن صف میں مستقل نمازی جناب رئوف طاہر نہیں تھے کہ اُن کی تو اپنی نماز چند گھنٹے بعد ادا ہونے والی تھی۔ ہم کوئی وقت ضائع کیے بغیر جناب رئوف طاہر کے گھر پہنچے۔ گیٹ پر ’’زاہدہ طاہرہائوس‘‘ کی تختی دیکھ کر دل ہل گیا۔ جناب رئوف طاہر کی اہلیہ زاہدہ نومبر 2013ء میں انتقال کرگئی تھیں۔ آج رئوف طاہر بھی جدائی کے سات سال کاٹ کر اُن کے پاس پہنچ گئے تھے۔ ڈرائنگ روم میں جناب مجیب الرحمٰن شامی بمشکل اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے موجود تھے، اور سامنے غموں کے پہاڑ تلے دبا ہوا نوجوان کاشف طاہر بیٹھا تھا۔ کاشف نے بتایا کہ مرحوم رئوف طاہر صبح 9:30 بجے تیار ہوکر گھر ہی سے یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کی آن لائن کلاس لے رہے تھے۔ کاشف کمپیوٹر پر آن لائن کلاس کا بندوبست کرکے اٹھا تو رئوف طاہر نے سوا دس بجے آکر حاضری لگانے کا کہہ کر رخصت کردیا۔ اس دوران یونیورسٹی کے کوآر ڈی نیٹر جناب رحمٰن ناصر کا فون آگیا جنہیں رئوف طاہر نے بتایا کہ ان کی طبیعت مضمحل سی ہے اور سانس اکھڑ رہا ہے۔ چنانچہ رحمٰن ناصر نے معاملے کی سنگینی کو بھانپ لیا اور فوری طور پر انہیں ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی۔ اس دوران برخوردار کاشف اٹینڈنس لینے کے لیے آگیا۔ وہ یہ کام کر ہی رہے تھے کہ صوفے پر بیٹھے ہوئے رئوف طاہر کی سانسیں زیادہ ڈسٹرب ہوگئیں اور وہ صوفے پر ہی نیم دراز ہوگئے ۔ چنانچہ کاشف اپنے بڑے بھائی آصف کی مدد سے انہیں گاڑی میں ڈال کر لاہور یونیورسٹی اسپتال کی طرف دوڑ پڑے۔گھر میں موجود رئوف طاہر کی بیٹی میمونہ نے فوری طور پر شامی صاحب سے رابطہ کیا۔ اُن سے رابطہ نہ ہونے پر بیگم مجیب الرحمٰن شامی کو اطلاع کی، جنہوں نے شامی صاحب کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ شامی صاحب نے فوری طور پر اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر زاہد پرویز کو فون کرکے انہیں الرٹ کردیا، کہ اُس وقت تک رئوف طاہر اسپتال نہیں پہنچے تھے۔ چند منٹ بعد ہی ایم ایس نے شامی صاحب کو فون پر اطلاع دی کہ رئوف طاہر اسپتال پہنچنے سے قبل ہی اللہ کے حضور پہنچ چکے تھے۔
یہ ہے اس شخص کی ابدی منزل کی جانب روانگی کی کُل کہانی، جس نے تمام عمرجدوجہد کی۔ رزقِ حلال سے اپنے خاندان کی پرورش کی۔ نظریاتی محاذ پر ہمیشہ ڈٹا رہا۔ پیشہ ورانہ صحافت میں ایمان داری اوردیانت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ دوستوں ہی نہیں، مخالفوں کے دکھ سُکھ میں شریک رہا۔ اپنے مؤقف کے اظہار میں سخت ترین لہجہ اختیار کرنے کے باوجود دوسروں کا احترام کیا۔ رپورٹنگ میں اپنی محنت سے مقام بنایا، اور کالم نگاری کو اپنے مطالعے اور حافظے کی بدولت ایک نیا اسلوب دیا۔ بہاولنگر کی تحصیل ہارون آباد سے لاہور آنے والے اس طویل قامت راجپوت نے زندگی بھر محبتیں بانٹیں اور صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ بطور طالب علم وہ اپنے ضلع کے نیک نام طالب علم لیڈر تھے۔ دورِ طالب علمی ہی میں انہوں نے صحافتی مشقت شروع کر دی تھی۔ پہلے روزنامہ حریت کراچی میں مضمون لکھنے شروع کیے، پھر بہاولنگر یا ہارون آباد میں روزنامہ کوہستان لاہور کے نامہ نگار ہوئے۔ ہارون آباد کے بعد ملتان سے ہوتے ہوئے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی لا کالج پہنچے تو جناب مظفربیگ کے ہفت روزہ آئین میں لکھنا شروع کردیا۔ یہاں سے انہیں اتنے پیسے مل جاتے تھے جنہیں ایک طالب علم عیاشی تصور کرسکتا ہو۔ پھر عبدالقادر حسن کے ہفت روزہ افریشیا میں با قاعدہ ملازمت کرلی۔ یہیں سے وہ اردو ڈائجسٹ میں چلے گئے۔ پھر ہفت روزہ زندگی میں ڈپٹی ایڈیٹر ہوگئے ۔ 80ء کی دہائی میں روزنامہ جسارت لاہور کے بیورو چیف ہوگئے۔ پھر روزنامہ نوائے وقت لاہور میں سیاسی رپورٹر اور ایوانِ وقت فورم کے انچارج کے طور پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران وہ اردو نیوز جدہ کے ایڈیٹر ہوکر سعودی عرب چلے گئے۔ دس سال بعد واپس آئے توپہلے روزنامہ پاکستان اور پھر روزنامہ جنگ میںکالم نگار کے طور پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران وہ پنجاب حکومت کیمیڈیا کنسلٹنٹ اور نوازشریف کے آخری دور میں پاکستان ریلوے میں جنرل منیجر پبلک ریلیشنز ہوگئے۔ یہ کنٹریکٹ ختم ہوا تو روزنامہ دنیا میں کالم شروع کردیا۔ ان کا کالم جمہور نامہ ان کی موت تک جاری رہا۔ یوں یکم فروری کو ان کا آخری کالم ’’وفا کا نام بھی زندہ ہے، میں بھی زندہ ہوں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔