سرطان زدہ خلیوں کو بھوک سے ہلاک کردینے والی دوا

سویڈن اور جرمنی کے سائنس دانوں نے مشترکہ تحقیق کے بعد ایسا مرکب تیار کیا ہے جو سرطان زدہ خلیوں کو غذا ’ہضم‘ کرکے توانائی پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑتا۔ نتیجتاً یہ خلیے فاقہ زدہ ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ابتدائی تجربات میں یہ مرکب چوہوں پر کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے اور امید ہے کہ آئندہ سال اس کی انسانی طبی آزمائشوں کی اجازت بھی مل جائے گی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے کچھ ایسے حیاتی سالمات (بایو مالیکیولز) دریافت کیے جو خلیے کے ایک اہم حصے ’’مائٹوکونڈریا‘‘ کو متاثر کرتے ہیں، اور اسے خلیے کے لیے توانائی پیدا کرنے سے روکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مائٹو کونڈریا کو ’’خلیے کا بجلی گھر‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ غذا کے سالمات کو ’ہضم‘ کرکے نہ صرف توانائی پیدا کرتا ہے بلکہ جسمانی بافتوں (ٹشوز) اور اعضا کے درست طور پر کام کرنے کے لیے ضروری سالمے بھی تیار کرتا ہے۔ مائٹوکونڈریا کا اپنا ڈی این اے ہوتا ہے جو باقی خلیے سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اگر مائٹوکونڈریا اپنا کام کرنا بند کردے تو خلیوں میں غذا ہضم ہونے کا عمل بھی رک جائے گا اور وہ فاقہ زدہ ہو کر مرنے لگیں گے۔ ہر صحت مند خلیہ اپنی مخصوص عمر پوری کرنے کے بعد خود کو ختم کرلیتا ہے اور اس کی جگہ وہی کام کرنے والا دوسرا خلیہ آجاتا ہے۔ لیکن سرطان (کینسر) میں مبتلا خلیے خود کو ختم نہیں کرتے بلکہ اپنی تعداد میں اضافہ کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں متاثرہ مقام پر ’’سرطان زدہ پھوڑا‘‘ (ٹیومر) وجود میں آجاتا ہے جس کا علاج تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے سامنے برسوں سے یہ امکان موجود تھا کہ اگر سرطان زدہ خلیوں میں مائٹوکونڈریا کو نشانہ بناکر کام کرنے سے روک دیا جائے تو سرطان زدہ خلیے بھی ’’فاقہ زدگی‘‘ کا شکار ہوکر مرنے لگیں گے۔ اس طرح نہ صرف سرطان کو بڑھنے سے روکا جاسکے گا بلکہ ممکنہ طور پر مکمل ختم بھی کیا جاسکے گا۔ البتہ اس امکان کو یقین بنانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ حائل تھی: مائٹوکونڈریا کو نشانہ بنانے والی دوائیں عموماً بہت زہریلی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اپنے راستے میں آنے والے ہر خلیے پر حملہ کردیتی ہیں چاہے وہ سرطان زدہ ہو یا نہ ہو۔ کینسر کا علاج کرنے کےلیے ادویہ (حیاتی کیمیائی سالمات) کو لازماً اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ صحت مند خلیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف اور صرف سرطان زدہ خلیوں ہی کو نشانہ بنائیں۔ جرمن اور سویڈش سائنس دانوں نے برسوں تحقیق کے بعد یہی کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کچھ مخصوص بایوکیمیکلز کے ساتھ ساتھ وہ پورا نظام بھی دریافت کیا ہے جس کے تحت بطورِ خاص کینسر زدہ خلیوں میں مائٹوکونڈریا کے ڈی این اے (mtDNA) سے پروٹین بننے کے عمل میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، اور یوں مائٹوکونڈریا کو ناکارہ بنایا جاتا ہے۔ ان بایوکیمیکلز کے اثرات کچھ دیر بعد اردگرد کے صحت مند خلیوں تک پہنچنا شروع ہوتے ہیں لیکن تب تک ان کی شدت میں خاصی کمی آچکی ہوتی ہے اور وہ دوسرے خلیوں کے لیے بڑی حد تک بے ضرر ہو چکے ہوتے ہیں۔ ابتدائی تجربات میں ان بایوکیمیکلز کو سرطان زدہ چوہوں پر آزمایا گیا۔ ان آزمائشوں کے دوران چوہوں میں سرطانی رسولیوں کا سائز کم ہوا جبکہ ان کی مجموعی صحت بھی بہت زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔ ریسرچ جرنل ’’نیچر‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں اس حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس دوا کو جلد ہی عالمی اداروں کی جانب سے انسانی آزمائشوں کی اجازت مل جائے گی۔

والد کا بچوںکو دیاگیا معیاری وقت ان کی شخصیت کے لیے بہتر

روٹگرز یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کم آمدنی والے خاندانوں میں لڑکپن میں پہنچ جانے والے بچوں کے ساتھ اگر والد کھانا کھلانے، مطالعے، کھیلنے اور دیگر سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں اور ضروریات جیسے ملبوسات اور خوراک فراہم کرتے ہیں، تو بچوں میں جذباتی اور رویوں کے مسائل کی شرح میں کمی آتی ہے۔ جریدے جرنل سوشل سروس ریویو میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں میں رویوں کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں اور والد ان کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارتے۔ محققین نے اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ 5 سے 15 سال کی عمر کے دوران والد کے ساتھ کھانے پینے، کھیل کود، مطالعے اور اسکول کے کام کے دوران مدد جیسی سرگرمیوں میں کتنا وقت گزارا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کم آمدنی والے گھرانوں میں والد کے پاس بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع کم ہوتا ہے، جس کی وجہ حالیہ دہائیوں میں آنے والی سماجی اور معاشی تبدیلیاں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر مرد اپنے بچوں کی سرگرمیوں کا زیادہ حصہ بننے لگیں تو بچوں کی شخصیت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے پالیسی سازوں، عالموں اور عوام پر بھی اس حوالے سے بہتر پالیسیوں کے نفاذ کے لیے زور دیا۔

مضر عادتوں کو چھوڑنے کی مدت ؟

سائنسی طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ اگر 66 روز تک کسی بری عادت کو ترک کیا جائے یا اچھی عادت کو اپنانے کی کوشش کی جائے تو اس سے مستقل مزاجی میں بہت مدد ملتی ہے۔ بعض ماہرین اور ایپس بتاتی ہیں کہ اچھی عادت کو معمول بننے میں 21 سے 40 دن تک اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، لیکن اب اس پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔ 21 دن کا معاملہ 1960ء میں پلاسٹک سرجن میکسویل مالز کی ایک کتاب سے مقبول ہوا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ پلاسٹک سرجری کے 21 روز بعد مریض اپنے بدلے ہوئے چہرے سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ پھر 2009ء میں ایک تحقیق نے اس تصور کو رد کردیا کہ نئی اچھی عادت اختیار کرنے اور بری لت چھوڑنے کے لیے 21 دن کافی ہوتے ہیں۔ اب یونیورسٹی کالج لندن میں 96 افراد پر 12 ہفتوں تک تحقیق کی گئی ہے۔ اس مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی نئی عادت اپنانے میں اوسطاً 66 دن لگ سکتے ہیں۔ لیکن ہر فرد میں یہ صلاحیت مختلف ہوسکتی ہے اور اس میں 18 سے 254 دن لگ سکتے ہیں۔ تاہم اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دو یا تین ہفتوں میں ہم کسی عادت کو اپنے رویّے میں شامل نہیں کرسکتے بلکہ اس کے لیے کم سے کم دو ماہ درکار ہوتے ہیں۔ اسی لیے 21 روز کا مفروضہ اکثریت پر کام نہیں کرتا، اور کسی بری عادت کو چھوڑنے کی روش 66 روز تک برقرار رکھی جائے تو اس کی ضرورت دماغ سے محو ہوجاتی ہے۔ اسی طرح عین اتنی ہی مدت میں ہم کسی اچھی عادت کو اپنے لاشعوری معمولات کا حصہ بناسکتے ہیں۔ اس پر تحقیق کرنے والے ماہرین ٹموتھی پائیکل اور ایلیسن ناستاسی کا خیال ہے کہ پرانی عادتوں کے دماغ پر نقوش گہرے ہوتے ہیں اور اسی لیے کسی نئی اچھی عادت کو اپنانا پرانی عادتِ بد کو ترک کرنے کے مقابلے میں قدرے آسان ہوتا ہے۔ یعنی بری عادت چھوڑنے میں آپ کو بطورِ خاص اپنا عزم بھی استعمال کرنا ہوگا۔