آدمی کی خوبیاں ہی بعض اوقات اس کی دشمن بن جاتی ہیں۔ ایاز کی ذہانت، دیانت و امانت اور اپنے آقا کے ساتھ وابستگی اور کامل فرماں برداری ایسے اعمال تھے جنہوں نے تمام ارکانِ دولت کو اُس کا دشمن بنادیا تھا۔ ایاز کے خلاف اُن کے دلوں میں کدورت، بغض اور حسد کا مادہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا تھا۔ ادھر سلطان کا لطف و کرم اور جود وسخا ایاز کے حق میں بڑھ رہا تھا۔ ایک دن بدباطن امرا نے بادشاہ سے عرض کیا کہ ہم غلاموں کی ناقص عقل میں یہ بات نہیں آرہی کہ آپ ایک معمولی غلام ایاز کی عقل و بصیرت پر کیوں یقین رکھتے ہیں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
سلطان نے اُس وقت کوئی جواب نہ دیا اور مسلسل اس معاملے میں خاموش رہا۔ چند دن بعد وہ دربار کے ان حاسد امرا کو ساتھ لے کر جنگل اور پہاڑوں کی طرف نکلا۔ کوسوں میل دور ایک قافلہ پڑائو ڈالے ہوئے تھا۔ سلطان نے ایک امیر کو حکم دیا کہ ’’گھوڑے پر تیزی سے جائو اور قافلے والوں سے پوچھو کہ کہاں سے آئے ہو؟‘‘ وہ امیر سلطان کے حکم کی تعمیل میں گیا اور کچھ دیر بعد واپس آکر بتایا کہ ’’قافلہ شہر ’’رے‘‘ سے آیا ہے۔‘‘ سلطان نے پوچھا: ’’قافلے والوں کی منزلِ مقصود کیا ہے؟ ‘‘اس کا جواب امیر نہ دے سکا۔ سلطان نے دوسرے امیر سے کہا ’’اب تم جائو اور پوچھو کہ کارواں کدھر جائے گا؟‘‘ دوسرا امیر جواب لایا کہ ’’ان کا ارادہ یمن کا ہے‘‘۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا ’’ان کا سازو سامان کیا ہے؟‘‘ اس بات کا جواب وہ نہ دے سکا۔ وزیر حیران ہوا کہ یہ تو اس نے معلوم ہی نہیں کیا! بادشاہ نے ایک اور امیر کو بھیجا اور حکم دیا کہ ’’دریافت کرکے آئوکہ ان کے پاس کیا سامان ہے؟‘‘ اس نے واپس آکر کہاکہ ’’ان کا سامان ’’رے‘‘ کے برتن ہیں‘‘۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا ’’وہ قافلہ ’’رے‘‘ شہر سے کب نکلا تھا؟‘‘ وہ امیر اس سوال کا جواب دینے سے عاجز رہا۔ بادشاہ نے ایک اور وزیر کو بھیجا تاکہ وہ معلوم کرے کہ انہوں نے سفر کب شروع کیا؟ اس نے واپس آکر بتایا کہ ’’ساتویں رجب کو یہ قافلہ ’’رے‘‘ سے روانہ ہوا‘‘۔ اور ساتھ ہی بادشاہ نے یہ بھی پوچھا کہ ’’رے‘‘ شہر میں اشیاء کا بھائو کیا ہے۔ وہ سلطان کے سوال کا جواب دینے سے عاجز رہا۔ اسی طرح بادشاہ نے تیس سرداروں کو بھیجا اور ایک ایک سوال دریافت کیا، ان میں سے ہر ایک نے اسی ایک ہی سوال کا جواب معلوم کیا اور واپس آگیا۔
غرض سب امیر ناقص العقل اور پریشان ذہن ثابت ہوئے۔ قافلے والوں کا پورا حال کسی نے جاننے کی زحمت گوارا نہ کی۔ اس مشاہدے کے بعد سلطان نے ان بدباطن امرا سے کہاکہ تم لوگ ایاز پر اعتراض کرتے ہو کہ وہ اتنا منظورِ نظر کیوں ہے۔ سلطان نے ان پر ایک معنی خیز نظر ڈالی اور کہا: میں تم سے پہلے ایاز کا امتحان لے چکا ہوں، میں نے اس کو یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ قافلہ کہاں سے آیا ہے۔ وہ گیا اور قافلے کا سارا حال دریافت کرکے واپس آیا۔ میں نے اُس سے جو سوال کیا، اُس نے تسلی بخش جواب دیا۔ جبکہ یہ معلومات تم تیس آدمیوں نے تیس پھیروں میں فراہم کیں۔ اب تمہیں پتا چل گیا کہ میں اس کی اتنی قدر کیوں کرتا ہوں! یہ سن کر سب امیروں کے چہرے شرم سے پانی پانی ہوگئے۔ انہوں نے اپنی گستاخی کی معافی چاہتے ہوئے کہاکہ بے شک ہم ایاز کی برابری نہیں کرسکتے۔
ایاز کی فراست، قابلیت، ذہانت خداداد تھی۔
درسِ حیات: حسد ایک بیماری ہے، اس سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔