جنوبی ایشیا کے لیے خطرات میں اضافہ
بھارت کی مایوسی اور ڈپریشن، یا بے جا خوداعتمادی بڑھتی جارہی ہے، جس کا ایک ثبوت کنٹرول لائن پر اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی گاڑی پر ہونے والی بھارتی فائرنگ ہے۔ اقوام متحدہ کے دو مبصرین پونچھ کے چڑی کوٹ سیکٹر میں پولاچ گائوں میں گزشتہ دنوں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے متاثرین کے حالات کا مشاہدہ کرنے جارہے تھے۔ مبصرین اقوام متحدہ کی سفید گاڑی میں سوار تھے جس پر موٹے حروف میں یواین لکھا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بھارتی فوج نے فوجی مبصرین کی گاڑی پر فائرنگ کی۔ دونوں مبصرین تو محفوظ رہے مگر گولیاں گاڑی کو جا لگیں۔ پاکستانی فوج نے مبصرین کی گاڑی کو ریسکیو کرکے قریب ہی راولاکوٹ شہر میں پہنچایا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے فوجی مبصرین کی گاڑی پر بھارتی فائرنگ کی مذمت کی، جبکہ اقوام متحدہ کی ترجمان نے بھی گاڑی پر فائرنگ کی تصدیق کی۔
اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی موجودگی کشمیر کی متنازع حیثیت کی علامت ہے۔ یہ مبصرین اقوام متحدہ کی قراردادوں اور جنگ بندی کے معاہدے کے تحت کنٹرول لائن کے دونوں جانب تعینات ہیں۔ بھارت نے فوجی مبصرین کو عضوِ معطل بنا رکھا ہے اور ان کی نقل وحرکت رفتہ رفتہ محدود اور اب تقریباً مکمل طور پر ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے فوجی مبصرین کو مظفر آباد اور راولپنڈی میں پورے پروٹوکول کے ساتھ رکھا ہے، اور یہ مبصرین پوری طرح فعال ہوکر کنٹرول لائن کے حالات پر نہ صرف نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ باقاعدگی سے رپورٹیں بھی اپنے ہیڈ آفس کو بھیجتے ہیں۔ کنٹرول لائن کی دوسری طرف فوجی مبصرین کی فعالیت اور سرگرمی بھارتی فوج کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
حکومتِ پاکستان نے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی گاڑی پر حملے پر بھرپور احتجاج کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک خط بھی لکھا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس واقعے کی مذمت کی جس سے اس واقعے کی میڈیا کوریج میں اضافہ ہوا۔ آزادکشمیر میں کام کرنے والے عالمی خبر رساں اداروں کے ذریعے یہ خبر دنیا کے کونے کونے تک پہنچی، مگر ’’مدعی سست، گواہ چست‘‘ کے مصداق اس پر اقوام متحدہ نے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا، جس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ کہیں اقوام متحدہ بدلے ہوئے حالات اور حقائق میں اب مبصرین کی موجودگی اور تعیناتی سے سیکورٹی کے نام پر ہاتھ تو نہیں کھینچ رہا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی ادارہ مدتِ دراز سے مبصرین کے حوالے سے بھارت کے شدید دبائو کا سامنا کررہا ہے، اور اب یہ بھارت کا تنہا دبائو نہیں، کئی اتحادی ممالک بھی اسٹرے ٹیجک مجبوریوں میں اس دبائو کا حصہ بن رہے ہیں۔ بلااشتعال فائرنگ کی ایک اہم وجہ تو فوجی مبصرین سے یہ روایتی خار بھی ہوسکتا ہے، مگر اس کی ایک بنیادی وجہ بھارت کا بڑھتا ہوا ڈپریشن یا خوداعتمادی ہے۔ ڈپریشن کی وجہ کشمیر کے حالات ہیں جو بھارت کے قابو میں نہیں آتے۔ چین کا تحرک بھارت کی مایوسی کو بڑھانے کا ایک اور سبب ہے۔ اسے اگر بھارت کی خوداعتمادی کہا جائے تو اس کی وجہ امریکہ اور اسرائیل کی بھرپور ہلہ شیری اور کچھ مسلمان ممالک کی خاموش تائید ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھارت کے قریب ترین عرب ملک متحدہ عرب امارات میں جاکر ایک نیوز کانفرنس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینا پڑا کہ بھارت پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیکس کی تیاریاں کررہا ہے۔ پاکستان بھارتی منصوبوں کا جواب اور اسے شکست دینے کے لیے تیار ہے۔ یہی پیغام عرب امارات کے حکمرانوں کو بھی دیا گیا اور ان حکمرانوں کے ذریعے دہلی اور تل ابیب تک یہ پیغام پہنچایا گیا ہے۔ بھارت کی حد سے بڑھتی ہوئی خوداعتمادی یا مایوسی دونوں جنوبی ایشیا کے لیے خطرات بڑھا رہی ہیں۔ اسٹیریو ٹائپ کہانی کے انداز میں بیان کریں تو وہاں شاہ محمود قریشی کی ملاقات دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم اور وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید سے ہوئی ہے۔ شاہ محمو د قریشی نے اماراتی حکمرانوں کو وزیراعظم عمران خان کا خیرسگالی کا پیغام پہنچایا اور امارات میں کام کرنے والے محنت کشوں کے مسائل پر بات چیت کی۔ اس روایتی خبر کی تہہ میں اصل خبر حالات وواقعات کے پس منظر میں موجود ہے۔
وزیر خارجہ کا یہ دورہ ایک ایسے عالم میں ہوا جب خلیج کے دو اہم ملکوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ایک دراڑ اُبھری ہے، اور اس دراڑ کو وسیع کرنے والے پے در پے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ عالمی اور علاقائی سیاست میں متحدہ عرب امارات سعودی عرب کا سایہ ہے۔ سعودی عرب اپنی روایتی قدامت پسندی اور ایک مخصوص امیج کی وجہ سے جس مؤقف کا اظہار کرنے سے کتراتا ہے اُس کا اظہار متحدہ عرب امارات کرتا ہے۔ یوں اماراتی پالیسیاں حقیقت میں سعودی پالیسیوں کا ہی عکس ہوتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے کورونا کا بہانہ بناکر پاکستانیوں کے لیے ویزوں کا اجرا بند کردیا ہے۔ یہ عذر، عذرِ لنگ نہ کہلاتا اگر یہی معیار بھارت کے لیے اپنایا جاتا جہاں کورونا کی صورتِ حال پاکستان سے کئی گنا بدتر اور خطرناک ہے۔ پاکستانیوں کے لیے ویزے بند اور بھارتیوں کے ویزوں کا مسلسل اجراء اپنے اندر ایک واضح پیغام رکھتا ہے۔ اس سے پہلے تاریخ میں پہلی بار بھارتی فوج کے سربراہ نے سعودی عرب اور امارات کا طویل دورہ کیا۔ اس دورے کے بعد یہ اندازہ ہورہا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب اور امارات کے درمیان اب روایتی تعلقات کا بحال رہنا مشکل اور کشیدگی کا عنصر اُبھرنا یقینی ہے۔ سعودی عرب سے آنے والی خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ یہ دورہ زیادہ حوصلہ افزا ثابت نہیں ہوا۔ بھارت پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے خلا کو فوجی انداز سے پُر کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان کی فوج سعودی عرب میں جو خدمات انجام دیتی ہے بھارت وہ سب خدمات انجام دے کر اس اہم ملک سے پاکستان کو باہر دھکیلنا چاہتا تھا، مگر سعودی شاہی خاندان کے بااثر افراد اور فوج نے اس سرگرمی کو پسند نہیں کیا۔ پاکستان اس صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے تھا، اور اگر بھارت کی کوشش کامیاب ہوتی تو سب سے پہلے جنرل راحیل شریف کو اپنا بیگ اُٹھاکر جدہ ائرپورٹ کی راہ لینا پڑتی جس کے لیے پاکستانی حکام ذہنی طور پر تیار تھے۔ شہزادہ ترکی الفیصل کا وزیراعظم عمران خان کو فون شاہی خاندان میں محمد بن سلمان کے متوازی سوچ اور جذبات کا عکاس تھا۔ ترکی الفیصل شاہ فیصل مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان سے تین ارب ڈالر واپس مانگ کر اس کی معاشی مشکلات کو بڑھانے کے لیے ایک کارڈ کھیلا تھا، مگر پاکستان نے جیسے تیسے اس مشکل پر قابو پالیا۔ اس دوران اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ بھی پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث بنا رہا۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا، اور اس صف میں جو ممالک کھڑے نظر آئے ان میں سعودی عرب کا نام بھی شامل تھا۔ سعودی عرب پاکستان پر بھی یہ دبائو بڑھا رہا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تلخ گھونٹ پی لے۔ سعودی عرب اور امارات کی ناراضی کی ایک اہم وجہ یہ بھی بیان کی جارہی تھی، اور خود سعودی حکمران خاندان بھی اس معاملے پر تقسیم تھا۔ وقتی طور پر یہ معاملہ ٹل گیا۔ اس دوران پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک چلارہی تھیں اور اس تحریک کے محرک اور مرکزی کردار نوازشریف نے ایک دومراحل پر حکومت کے خلاف اپنی چارج شیٹ میں واضح طور پر کہا کہ حکومت کی پالیسیوں نے دوست ملکوں کو ناراض کردیا ہے۔ دوست ملکوں سے ان کی مراد سعودی عرب اور امارات سے ہی تھی۔ بعد میں دوست ملکوں کی ناراضی کا نکتہ چارج شیٹ سے غائب ہوگیا۔ اس دوران یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ امریکہ میں جوبائیڈن انتظامیہ کی وائٹ ہائوس میں آمد سے پہلے ہی ٹرمپ کی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔ انہی اشاروں کے زیراثر بھارت نے دوبارہ ایران کی چابہار بندرگاہ میں دلچسپی لینا شروع کردی ہے۔ ایران جو تیزی سے بھارت کے اثر سے نکل کر چین کی طرف لڑھک رہا تھا، دوبارہ چابہار کے ذریعے بھارت کے قریب ہونے لگا۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں ایران پر پابندیاں سخت ہونے کا امکان نہیں، یا بھارت کو امریکہ نے اس معاملے میں ’’گو اے ہیڈ‘‘ کا گرین سگنل دے دیا ہے۔ ایران سعودی عرب اور امارات کے لیے سانڈ کے آگے سرخ رومال کی طرح ہے۔ اس نئی اُبھرتی ہوئی صورتِ حال نے عرب ملکوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ جس ایران کا محاصرہ کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ دوستی میں گہرائی اور شدت پیدا کررہے تھے، وہ بھارت وائٹ ہائوس کا مکین اور منظر بدلتے ہی دوبارہ چابہار پر مرمٹنے کے لیے تیار و آمادہ ہے۔ اس ساری صورتِ حال کی وجہ سے سعودی عرب اور امارات نے دوبارہ پاکستان کی طرف امیدا افزا نظروں سے دیکھنا شروع کیا ہے۔
پاکستان نے دوستوں، مہربانوں اور قدردانوں سے اس پسِ پردہ کھچ کھچ سے بہت سے سبق سیکھے ہوں گے، جن میں پہلا یہ ہے کہ معاشی خودانحصاری کے بغیر آزادی اور آزاد خارجہ پالیسی کا کوئی تصور نہیں۔ دوسرا یہ کہ دوست اور بھائی کو اپنے جائز مقام پر رکھنا چاہیے، اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر حاوی کرکے ’’آقا‘‘کی حیثیت نہیں دینا چاہیے۔
پاکستان سے روابط،بھارت کو تشویش نہیں ہونی چاہیے،روسی سفیر کی دہلی میں پریس کانفرنس
روس نے کہا ہے کہ بھارت کو ماسکو، اسلام آبادتعلقات پر تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نئی دہلی میں روسی سفیر نکولائی کیو داشیف نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوے کہا کہ بھارت کو پورے خلوص سے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اس کو روس پاکستان تعلقات کے فروغ پر تشویش میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ روس دوسرے ممالک کی حساسیت کا پوری طرح احترام کرتا ہے‘ روس بھارت اور چین کا با اعتماد اتحادی ہے اور دونوںکے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے‘ ماسکو افغان مذاکرات کے لیے بھی اپنا مثبت کردار جاری رکھے ہوئے ہے۔