سندھ گورنمنٹ چلڈرن ہسپتال کی بندش

ڈاکٹر،عملہ اور عوام پریشان

سندھ کے دیگر شہروں کے ساتھ کراچی میں پہلے ہی علاج معالجہ کی صورتِ حال بہت اچھی نہیں ہے، خاص طور پر بچوں کے ہسپتال تو تین کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہیں، اور جو سرکاری ہسپتال موجود ہیں ان کو بھی حکومت ٹھیک طریقے سے چلانے سے قاصر ہے۔ کچھ ہسپتال جہاں علاج ہورہا ہے تو یہ بھی کچھ اداروں، مخیر حضرات اور این جی اوز کی بدولت ہے۔ ناگن چورنگی کے قریب واقع سندھ گورنمنٹ چلڈرن ہسپتال وہاں کے قریبی رہائشیوں کے ساتھ ساتھ اردگرد کے علاقوں کی ضرورت ہے، اور بحیثیتِ مجموعی علاج معالجہ کے سلسلے میں اس کا مثبت تاثر رہا ہے۔ لوگوں کو مہنگائی کے اس دور میں مفت طبی سہولت دوائوں کے ساتھ مل رہی ہو تو یہ ایک نعمت سے کم نہیں۔ یہ ہسپتال سندھ حکومت اور ایک این جی او مل کر چلا رہے تھے۔ سندھ حکومت این جی او کو رقم فراہم کرتی تھی، لیکن اس دوران آڈٹ رپورٹ میں بڑے پیمانے پر گھپلے کا انکشاف ہوا اور کروڑوں روپے کی خوردبرد کی بات سامنے آئی۔ اس مبینہ کرپشن کے انکشاف کے بعد محکمہ صحت نے این جی او کے فنڈز روک لیے ہیں اور کہا گیا ہے کہ جب تک فنڈز کے معاملات کلیئر نہیں ہوں گے نیا بجٹ نہیں ملے گا۔ اصل صورتِ حال کیا ہے اور سندھ حکومت اور این جی او کے کیا معاملات ہیں اس پر تو عدالت یا متعلقہ اداروں کو نوٹس لینا چاہیے، لیکن ایک ایسا ہسپتال جہاں روزانہ ڈھائی ہزار کے قریب مریض آتے تھے اس کو سو مریضوں تک محدود کردیا گیا ہے، ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ گزشتہ چار ماہ سے بند ہے، جس کے باعث ہسپتال آنے والے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اور اب لوگ اپنے بچوں کو ہسپتال کے دروازے سے واپس لے جاتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتِ سندھ کی بے حسی کی وجہ سے سندھ گورنمنٹ چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹروں سمیت دیگر عملہ گزشتہ7 ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہے، اور انتہائی کسمپرسی کی حالت کو پہنچ چکا ہے، ان کے گھر روزمرہ کے کھانے پینے کے مسائل کا شکار ہورہے ہیں، اور روزانہ کے معاملات چلانے کے لیے یہ لوگ بینکوں سے قرضہ لے رہے ہیں۔ عملے کے ایک رکن نے آپس میں گفتگو کے دوران بچوں سمیت خودکشی تک کی بات کی ہے۔ چلڈرن ہسپتال کے عملے کی صورت حال فوری توجہ کی طالب ہے۔ اس صورت حال کا جماعت اسلامی نے نوٹس لیا ہے، اور امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن امیر ضلع وسطی منعم ظفر خان اور چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر اظہر چغتائی کے ہمراہ ہسپتال پہنچے اور وہاں ڈاکٹروں اور عملے سے ملاقات کی، جس کے بعد انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے بات چیت کی، ان کے مسائل سنے اور تنخواہ کی عدم فراہمی پر سندھ حکومت کو الٹی میٹم دے دیا اور کہا کہ ملازمین کو تنخواہیں ادا نہ کئی گئیں تو جماعت اسلامی ڈاکٹروں کے ہمراہ وزیراعلیٰ ہائوس پر دھرنا دے گی۔ جماعت اسلامی ہسپتال کے ڈاکٹروں سمیت دیگر ملازمین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہے گی۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے ڈاکٹروں اور دیگر ملازمین کے احتجاج میں بھی شرکت کی۔ ان کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ سندھ گورنمنٹ چلڈرن ہسپتال پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جارہا ہے، حکومت ہسپتال این جی اوز کے حوالے کرکے بری الذمہ ہوجاتی ہے۔ عوام کوصحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر سندھ حکومت نے عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم نہ کیں تو جماعت اسلامی بھرپور احتجاج کرے گی۔ والدین بچوں کے علاج کے لیے پریشان ہیں، پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھاری فیسیں وصول کی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے غریب عوام سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، لیکن سرکاری اسپتالوں کی ابتر صورت حال ٹھیک کرنے کے بجائے غریب عوام سے صحت کی سہولت چھینی جارہی ہے۔ سندھ حکومت کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بنیادی سہولیات تک موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے ہسپتال کے ملازمین کو تنخواہیں نہ دینا ملازمین کا معاشی قتل اور سراسر ظلم و زیادتی ہے، ملازمین کے گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں، حکومت ہسپتال کے ملازمین کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک بند کرے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے یقین دلایا کہ ملازمین کے حقوق اور مسائل کے حل کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں، جماعت اسلامی پیرا میڈیکل و دیگر اسٹاف پر ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت اور متعلقہ این جی او Poverty Eradication Initiative (PEI)کی ذمہ داری ہے کہ وہ تنخواہوں سے محروم ملازمین کے مسائل حل کرے۔ اس موقع پر موجود ڈاکٹر اظہر چغتائی نے کہا کہ ہسپتال میں روزانہ ڈھائی ہزار مریض وزٹ کرتے تھے، لیکن تنخواہوں کی عدم فراہمی کے باعث اسپتال کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے اب مریضوں کی تعداد میں خاصی کمی آگئی ہے، اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بچوں کی صحت کے مسائل تشویش ناک حد کو پہنچ جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت فوری طور پر ہسپتال کے لیے فنڈز جاری کرے اور عدالت بحیثیتِ مجموعی اس صورت حال کا نوٹس لے کہ آخر اصل معاملہ ہے کیا، تاکہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ آسانی کے ساتھ اپنے بچوں کا علاج کروا سکیں اور ڈاکٹروں سمیت عملہ یک سوئی کے ساتھ علاج پر توجہ دے سکے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور سندھ حکومت مزید غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ کرتی ہے تو نہ صرف اس علاقے بلکہ شہر کے لوگ احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ویسے بھی یہ شہر کراچی کے صرف ایک ہسپتال کا معاملہ نہیں، یہاں ایک تو ہسپتال ناکافی ہیں، دوسری طرف جو ہیں وہ سندھ حکومت کی روایتی نااہلی اور کرپشن کی زد میں ہیں، اور کچھ ہسپتال اچھے چل بھی رہے ہیں تو ان میں کچھ اداروں اور مخیر حضرات کی اپنی دلچسپی ہے جس کی وجہ سے وہ چل رہے ہیں۔