پی ڈی ایم کا احتجاج

موسم سرما کی شدت میں جوں جوں اضافہ ہورہا ہے، سیاسی موسم کی حدت بھی روزافزوں ہے۔ حزبِ اختلاف کا اتحاد پی ڈی ایم لاہور میں 13 دسمبر کے جلسے کو فیصلہ کن حیثیت دینے کے لیے کوشاں ہے، حکومت نے ملتان کے جلسے کے تجربے کے بعد پینترا بدلا ہے اور نئی حکمت عملی اختیار کرنے کا اعلان خود وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کیا گیا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کو لاہور میں مینارِ پاکستان پر جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی، مگر ہم کسی کو جلسہ کرنے سے روکیں گے بھی نہیں، البتہ قانون کی خلاف ورزی پر قانون حرکت میں آئے گا، اور مینارِ پاکستان میں کرسیاں لگانے اور سائونڈ سسٹم نصب کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ عجیب حکمتِ عملی ہے اور قانون کی بالادستی کا ناقابلِ فہم تصور ہے کہ جس وقت قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہو، چور جب چوری کررہا ہو، اور قاتل جب مقتول کے گلے پر چھری چلا رہا ہو اُس وقت تو اس کا ہاتھ نہ پکڑا جائے اور یہ کہہ کر اسے جرم کرنے دیا جائے کہ جب وہ چوری کرلے گا، یا جب قتل ہوچکے گا تب قانون حرکت میں آئے گا۔ وزیراعظم اور اُن کے ساتھیوں کو ذرا سوچنا چاہیے کہ اس پالیسی کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟
ممکن ہے اس حکمتِ عملی کے اعلان کا مقصد جلسے کا انتظام کرنے والوں کو متنبہ کرنا ہو کہ وہ خوف زدہ ہوکر جلسہ گاہ میں کرسیاں، سائونڈ سسٹم اور اسٹیج وغیرہ کے لیے سامان فراہم کرنے سے باز رہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کے اقدامات یا دھمکیوں سے جلسے یا عوام کے اجتماع کو روکا جا سکے گا؟ اور حکومت کورونا کے پھیلائو کی روک تھام کا جو جواز ان جلسوں کے انعقاد کے خلاف بیان کررہی ہے کیا اس کورونا کو پھیلنے اور پھیلانے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے گی؟ کیا عوام کی صحت اور جان و مال کی حفاظت کے لیے بروقت اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ اور وہ محض مخالفین پر اس ضمن میں الزام تراشی کرکے اپنی ذمہ داریوں اور کورونا کے پھیلائو سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکے گی…؟
جہاں تک جلسے کے بعد قانون کے حرکت میں آنے کا تعلق ہے تو سوال یہ ہے کہ اب تک پشاور، گوجرانوالہ اور ملتان وغیرہ میں جلسوں سے پہلے اور بعد حکومت نے جو بیسیوں مقدمات ہزاروں لوگوں کے خلاف درج کیے تھے وہ کس قدر نتیجہ خیز رہے، جو آئندہ جلسوں میں مقدمات اور قانونی کارروائی کے خوف سے لوگ ان میں شرکت سے گریزاں رہیں گے؟ کیا کوئی سرکاری اور حکومتی عہدیدار بتا سکتا ہے کہ گزشتہ جلسوں سے پہلے اور بعد جو گرفتاریاں کی گئی تھیں ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ جو مقدمات حکومت نے قانون شکنی پر درج کیے تھے اُن میں کتنے مقدمات میں اب تک کوئی عدالتی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے، یا کتنے لوگوں کو کسی قسم کی قید یا جرمانے وغیرہ کی سزا سنائی گئی ہے؟ اگر جواب صفر ہے تو پھر لوگوں کے قانونی کارروائی کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہونے کی توقع رکھنا چہ معنی دارد؟ یہ تو تازہ مقدمات ہیں، آج سے پانچ چھے برس قبل جب خود تحریک انصاف اُس وقت کی نوازشریف حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی تھی اُس وقت جو مقدمات بنائے گئے تھے کیا وہ اب تک کسی انجام کو پہنچ پائے ہیں؟ اگر نہیں، تو آئندہ اس قسم کی انہونی سے لوگوں کو خوف زدہ کرنے کا کیا مطلب؟ بہتر ہوتا حکومت سیدھی طرح اپنی پسپائی کا اعتراف کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کو جلسے کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کردیتی!!
خوف زدہ کرکے کام نکالنے کی اس حکمتِ عملی کو آگے بڑھاتے ہوئے حکومت نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ملیشیا کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ اس ضمن میں وفاقی وزارتِ داخلہ نے جو مراسلہ صوبائی حکومتوں کو ارسال کیا ہے اُس میں انتباہ کیا گیا ہے کہ مختلف جماعتوں کی مسلح تنظیمیں مسلح افواج جیسی وردی اور رینکس لگاتی ہیں، یہ آئین کی دفعہ 256 اور نیشنل ایکشن پلان کے تیسرے نکتے کی خلاف ورزی ہے، اور ایسی مسلح تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو سیکورٹی کی صورتِ حال مزید خراب ہوسکتی ہے جس سے دنیا میں ملک کا منفی تاثر ابھرے گا، ایسی تنظیمیں غلط مثال قائم کررہی ہیں، صوبائی حکومتیں اس کا نوٹس لیں، وفاقی حکومت ہر طرح کی مدد کے لیے تیار ہے۔ اگرچہ اس مراسلے میں نام تو نہیں، تاہم یہ واضح طور پر مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام کی تنظیم ’’انصار الاسلام‘‘ کی جانب اشارہ ہے جس نے گزشتہ برس انہی دنوں اسلام آباد میں دھرنے کے موقع پر ڈنڈے اٹھاکر دھرنے کا نظم و نسق برقرار رکھا تھا، اور اب ملتان کے جلسے میں بھی مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے نوجوانوں کو ڈنڈے کے جواب میں ڈنڈا استعمال کرنے کی دوٹوک ہدایت جاری کی تھی۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمٰن ہی نے اس مراسلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عسکری ونگ اور رضا کاروں میں فرق ہوتا ہے، یہ پی ڈی ایم کے جلسوں سے بوکھلائی ہوئی حکومت کی، دبائو بڑھانے کی ناکام کوشش ہے۔
پی ڈی ایم کی قیادت اپنے اب تک کے جلسوں خصوصاً ملتان کے جلسے کی کامیابی کے بعد خاصا جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، خاص طور پر لاہور کے جلسے سے انہیں بے پناہ امیدیں وابستہ ہیں، اور وہ اس جلسے کو حکومت سے نجات کے ضمن میں فیصلہ کن قرار دے رہے ہیں، شاید اس لیے بھی کہ لاہور کو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور ماضی میں سیاسی تحریکوں کے دوران بھی لاہور کا کردار ہمیشہ فیصلہ کن رہا ہے۔ اس ضمن میں نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز بھرپور مہم چلا رہی ہیں اور لاہور
(باقی صفحہ 41پر)
کے جلسے کو اپنی سیاسی تحریک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ 13 دسمبر کو لاہور کیا منظر پیش کرتا ہے۔
لاہور کے جلسے کے بعد پی ڈی ایم کی حکمت عملی کیا ہوگی، اس سے متعلق تاحال کوئی بات واضح نہیں۔ اسلام آباد کی جانب مارچ بھی ہوسکتا ہے اور اسمبلیوں سے استعفے بھی۔ مگر پی ڈی ایم کی قیادت کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دونوں حربے میاں نوازشریف کی حکومت کے خلاف موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی آزمائے تھے مگر حکومت کو ختم کرنے میں ناکام رہے تھے، حالانکہ اُس وقت اسٹیبلشمنٹ بھی ان کی پشت پر تھی۔ اس لیے جارحانہ احتجاجی سیاست کی علَم بردار پی ڈی ایم کی قیادت کو معاملے کے تمام پہلوئوں کا گہرائی میں جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر یہ پہلو سامنے رہنا چاہیے کہ ماضی میں اس قسم کی تحریکوں کے نتیجے میں کبھی جمہوریت کو استحکام حاصل نہیں ہوسکا، بلکہ ہمیشہ ایسی تحریکوں کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں ہی نے اٹھایا ہے، اور جمہوریت کے نام پر چلائی گئی ایسی احتجاجی تحریکوں کا انجام جمہوریت سے مزید دوری ہی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس لیے سیاسی قائدین، حکومت اور اپوزیشن سب کے لیے لازم ہے کہ حکمت اور تدبر سے کام لیں اور سیاست کو بند گلی میں لے جانے اور تصادم کا رخ اختیار کرنے سے بچائیں، ورنہ کہیں ان کا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا شوق جمہوریت اور ریاست ہی کو عدم استحکام سے دو چار نہ کردے۔