اہم سیاسی رابطے

ڈھائی سال گزر جانے کے بعد ملک کا سیاسی اور جمہوری نظام جس جگہ کھڑا ہے،اس نے حکومت کی کمزوریوں، خارجہ پالیسی کے ڈھیلے پن اور ناکام معاشی پالیسی کو عیاں کردیا ہے۔ حال ہی میں ایک سروے رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں ملکی حالات پر عوامی جذبات کا ایک نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ملک کے عوام اس وقت معاشی صورتِ حال پر بہت پریشان دکھائی دے رہے ہیں، اور بے لگام مہنگائی کے ہاتھوں سنگین صورتِ حال کا شکار ہیں۔ حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت معاشی بحران کی ذمے دار ہے۔ سروے کے نتائج کے مطابق ملک کے 46 فیصد لوگوں نے ملک کے خراب معاشی حالات کا ذمہ دار حکومت کی پالیسیی کو قرار دیا ہے، اور37 فیصد کے خیال میں سابقہ حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں۔ سروے کے مطابق عوام کی اکثریت حکومت کی معاشی کارکردگی سے ناخوش ہے۔ سروے کے دوران جب لوگوں سے سوال کیا گیا کہ ملک کے موجودہ معاشی بحران کی اصل ذمے دار کون سی حکومت ہے؟ تو جواب میں 46 فیصد افراد نے تحریک انصاف کی حکومت پر ذمے داری ڈالی، اور 60 فیصد سے زائد لوگوں کی رائے میں ملکی معیشت کی سمت درست نہیں ہے۔ ڈھائی سال سے تحریک انصاف کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت ملک کو بدترین معاشی بحران میں چھوڑ کر گئی ہے، جب تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو قرضوں کی ادائیگی کے لیے خزانہ خالی تھا، اسی لیے حکومت کو دوست ممالک اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، اور اسی لیے سخت شرائط پر پیکیج لیا گیا۔ حکومت کے ایک وفاقی مشیر سے تحریک انصاف کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران ماضی کی حکومت کے پیدا کردہ بحران کے موضوع پر گفتگو ہوئی تو اُن کی رائے یہ تھی کہ ہر بار ایسا ہوتا ہے، مگر تحریک انصاف کچھ زیادہ ہی شور کررہی ہے۔ اب سابق سیکرٹری خزانہ اور وفاقی حکومت کے مشیر ڈاکٹر وقار مسعود کی خدمات لی گئی ہیں، انہیں یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ زرتلافی کے بارے میں سفارشات مرتب کریں تاکہ حکومت ان کی روشنی میں فیصلے کرسکے۔ آئی ایم ایف بھی یہی چاہتا ہے کہ حکومت غیر پیداواری شعبوں میں زرتلافی نہ دے اور ٹیکس محاصل بڑھائے۔ آئی ایم ایف نے جو پیکیج دیا تھا اُس میں یہی شرائط تھیں، اور حکومت اس پیکیج کی وجہ سے پریشان ہے۔ معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ یہ پریشانی حکومت کی اپنی پیدا کردہ ہے، اس میں ماضی کی کسی حکومت کا ہاتھ نہیں ہے، حکومت کو فیصلہ کرنا تھا کہ اُسے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں؟ حکومت بروقت فیصلہ نہیں کرسکی، فیصلہ کرتے کرتے حکومت نے 6 ماہ گزار دیے اور مسائل بڑھتے چلے گئے، حتیٰ کہ معاشی ٹیم تبدیل کرکے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ ملک میں مہنگائی دردِ سر بنی ہوئی ہے، اس کا ایک سبب حکومت کی بدانتظامی اور دوسرا سبب ڈالر کی شرح میں اضافہ ہے۔ یہ اضافہ کبھی نہ ہوتا اگر ایک وفاقی وزیر قبل از وقت یہ بیان نہ دیتے کہ ڈالر ریٹ بڑھنے لگا ہے۔ یہ وفاقی وزیر آج بھی کابینہ میں شامل ہیں۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کا یہ رجحان ابھی تک برقرار ہے۔ بلاشبہ ڈالر ریٹ بڑھنے سے مہنگائی راکٹ کی رفتار سے بڑھی ہے اور اب قابو میں نہیں آرہی۔ 2018ء میں ملک کی جی ڈی پی گروتھ 5.8 فیصد تھی، لیکن تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد ملکی معیشت کا پہیہ جام ہوگیا، اس کے باوجود حکومت خوش قسمت ہے کہ ملک کی پارلیمانی اپوزیشن جماعتیں پوری قوت کے ساتھ احتجاجی تحریک نہیں چلا رہی ہیں، ان کی جانب سے احتجاج کے سوا حکومت کے لیے کوئی حقیقی مسائل ابھی تک نہیں پیدا نہیں کیے گئے ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل یہ جماعتیں احتجاج کے ذریعے مذاکرات کے کسی ایسے ماحول کی تلاش میں ہیں کہ انہیں آئندہ انتخابات کے کھیل میں اسٹیک ہولڈر تسلیم کیا جائے۔ اس جانب کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور رابطوں کی بند گرہ کھل رہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں سے رابطے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف یہ سمجھ رہی تھی کہ صرف وہی ایک چہیتی سیاسی جماعت ہے اور رہے گی، لیکن سیاست کے رموز اتنے پوشیدہ ہیں کہ شاطر کے ارادوں سے ہر کوئی واقف نہیں ہوتا۔ یہ بات کبھی بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس میں کسی بھی وقت راکھ سے چنگاری برآمد ہوجاتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اپوزیشن کے ہاتھ کچھ آئے نہ آئے، نقصان حکومت کا ہی ہوگا۔
ابھی حال ہی میں کچھ اہم رابطے ہوئے ہیں کہ ملک کے موجودہ کشیدہ سیاسی حالات ایک حد سے زیادہ خراب نہ ہوں۔ اگرچہ پی ڈی ایم کی سربراہی مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ہے، تاہم پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری اہمیت اختیار کررہے ہیں۔ ان رابطوں میں اُن سے کہا گیا کہ ملک میں سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، جس کے بعد آصف علی زرداری نے نوازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن سے متعدد بار رابطہ کیا۔ ان رابطوں کے نتیجے میں کیا اثرات ہوتے ہیں اس کا براہِ راست تو کوئی علم نہیں، البتہ پی ڈی ایم کے رویّے سے پتا چلے گا کہ رابطوں نے کتنا اثر دکھایا ہے۔ مسلم لیگ(ن) سے بھی یہی کہا گیا ہے کہ سیاست میں اس کا کردار ختم نہیں ہوا، اسے محفوظ مستقبل کے لیے مثبت رویہ دکھانا ہوگا، اسے موجودہ بیانیے سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی سیاسی سرگرمیوں پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، البتہ قوم پرست طبقے کی جانب سے تلخ گفتگو برداشت نہیں کی جارہی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں اسمبلیوں سے استعفوں کے موضوع پر بات شروع ہوئی ہے، لیکن فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے عندیہ دیا ہے کہ پی ڈی ایم فیصلہ کرے، ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ یوں گیند اس وقت پی ڈی ایم کے کورٹ میں ہے، جس نے ابھی تک احتجاجی تحریک اور لانگ مارچ کا فیصلہ کیا ہے، اگلا محاذ کھولنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کی اِس وقت تو ساری توجہ 13 دسمبر کے جلسے پر ہے، یہ جلسہ مسلم لیگ(ن) کے لیے بہت بڑا امتحان ہے، یہ جلسہ مریم نواز کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ پی ڈی ایم لاہور کے جلسے کی شدت دیکھ کر اسلام آباد کے لیے فیصلہ کرے گا۔
لانگ مارچ کے بعد ملک میں سینیٹ کے انتخابات بہت بڑی سیاسی سرگرمی ہوگی۔ سینیٹ میں اگلے سال مارچ میں ریٹائر ہونے والوں میں سراج الحق، راجا ظفرالحق، عبدالغفور حیدری، شیری رحمٰن، رحمٰن ملک، فاروق ایچ نائیک، سلیم مانڈوی والا، پرویز رشید، مشاہد اللہ خان، شبلی فراز اہم نام ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے کُل 17 سینیٹر ریٹائر ہورہے ہیں، تحریک انصاف کو کے پی کے سے خطرہ نہیں، وہ پنجاب سے سینیٹ میں اپنے ارکان کی کامیابی چاہتی ہے۔ مارچ میں تحریک انصاف سینیٹ میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن جائے گی۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں کسی نہ کسی حد تک نظام کا حصہ ہیں، اصل معاملہ جے یو آئی کا ہے، سینیٹ میں اگلے سال مارچ میں اس کا صرف ایک رکن رہ جائے گا۔ کے پی کے میں جے یو آئی متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر ایوان کا حصہ ہے۔ سینیٹ انتخاب میں ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہے، لہٰذا اسے جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں سے مل کر کوئی فیصلہ کرنا ہوگا، لیکن چوٹی سر کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
nn