پاک چین دفاعی تعاون

چینی وزیر دفاع اور پیپلز لبریشن آرمی کے حاضر سروس جنرل وی فنگے نے جنوبی ایشیا کے دو ملکوں پاکستان اور نیپال کے ہنگامی دورے کیے ہیں۔ پاکستان میں ان کی ملاقاتیں صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں علاقائی سالمیت اور خطے کو درپیش اہم چیلنجز پر بات کرنے کے علاوہ سی پیک کے منصوبوں کی رفتار تیز کرنے اور آگے بڑھانے سمیت دفاعی معاملات پر کئی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ پاکستان کے بعد چینی وزیر دفاع نے نیپال کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے نیپال کی علاقائی سالمیت، خودمختاری اور اقتدارِ اعلیٰ کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنے کا عزم دہرایا۔ بھارت کے اخبار ’’دی ہندو ‘‘ کے مطابق چینی وزیر دفاع نے پاکستان میں بھارت کے خلاف فوجی تعاون کی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ بھارتی اخبار کا دعویٰ تھا کہ یہ دورہ بھارت مرکز تھا۔ اس دوران بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے دی ہندو کی سوہاسنی حیدر کو انٹرویو دیا جس میں پاکستان میں دہشت گردی کے الزامات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جے شنکر نے بیڈ فکشن یعنی بُرا افسانہ کہہ کر بات گول کردی۔ اسی انٹرویو میں جے شنکر کا کہنا تھاکہ چین اور بھارت کے درمیان معاملات طے ہونے میں اب طویل وقت بھی لگ سکتا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کی اس بات سے لگتا ہے کہ گلوان وادی اور پنگانگ جھیل پر چینی فوج کی پیش قدمی کے معاملات پر دونوں ملکوں کے مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہوئے، جس کے بعد بھارت نے چینی پیش قدمی کو ایک حقیقت اور مقدر کا لکھا جان لیا ہے۔ بھارت میں اب دو محاذوں کی جنگ کا مقابلہ کرنے کی باتیں زوروں پر ہیں۔ دو محاذوں سے مراد یہ ہے کہ بھارتی فوج کو بیک وقت چین اور پاکستان سے لڑنا پڑے گا۔
چینی وزیر دفاع نے پاکستان کا دورہ ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان اور چین دونوں بھارت پر سی پیک کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کرچکے ہیں اور اس کے واضح ثبوت بھی سامنے لائے جا چکے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ بھارت نے سات سو افراد کی ملیشیا سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے قائم کی ہے۔ اس بیان کے بعد ہی چین نے پاکستانی فوج کی طرف سے سی پیک منصوبوں کے حفاظتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ ٹی ٹی پی، بلوچ مسلح گروہ، جماعت الاحرار اور داعش سمیت سب تنظیمیں امریکی اور بھارتی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ ان حالات میں چینی وزیردفاع کا پاکستان کے ساتھ ساتھ نیپال کا دورہ خاصا اہم ہے۔ نیپال بھارت کا حصار توڑ کر چین کے قریب آرہا ہے، اور بھارت ہر ممکن طور پر اس عمل کو روک رہا ہے۔ مودی نے خطے میں کشیدگی کا جو الائو دہکایا ہے اُس کے شعلے بے قابو ہوئے تو بہت کچھ راکھ ہوسکتا ہے۔ کشمیر میں مظالم اور عوامی خواہشات کو طاقت سے کچلنے کے عمل میں بھارت کی حوصلہ افزائی کرنے والوں نے امن کا کس قدر نقصان کیا ہے اس کا اندازہ شاید آنے والے وقتوں میں ہو۔
اس دوران آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے گلوبل ولیج اسپیس کی نمائندۂ خصوصی کو ایک انٹرویو میں پاکستان کو درپیش سیکورٹی معاملات اور خطرات پر کھل کر بات کی ہے۔ جنرل بابر افتخار کی گفتگو کا محور بھارت اور اس کے پیدا کردہ مسائل اور چیلنجز تھے۔ ان کے اس طویل انٹرویو کو پاکستانی ٹی وی چینلز نے بھی دکھایا۔ جنرل بابر کے انٹرویو کو غور سے سنیں تو اس میں بھارت کے سوا کوئی اور دشمن نظر نہیں آتا، بلکہ یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ بھارت ہے، اور باقی سب مسائل اسی کے برگ و بار ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلے صرف کشمیر ہی وجۂ نزاع تھا، اب اس میں سی پیک کا اضافہ ہوگیا ہے۔ بھارت نے سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے ملیشیا بھی قائم کی، جبکہ پاکستان نے اس منصوبے کی حفاظت کے لیے دو ڈویژن قائم کیے ہیں، جن علاقوں سے سی پیک گزرتا ہے وہاں آٹھ سے نو رجمنٹ کو تعینات کیا گیا ہے، جبکہ اس کے ساتھ پیرا ملٹری دستے بھی تعینات ہیں۔ بابر افتخار نے کشمیر کے حالات بھی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ انہوں نے افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کی بات دہرائی، مگر افغان حکومت کی صلاحیت کے باعث انہیں زیادہ دوش دینے سے گریز کیا بلکہ اس کا ذکر بھی کھل کر کیا۔
جنرل بابر افتخار کا یہ انٹرویو اُس وقت سامنے آیا جب چین کے وزیر دفاع پاکستان کا دورہ کررہے تھے اور اس دورے کا مرکزی تصور بھی سی پیک کے حوالے سے پاکستان اور چین کو درپیش اہم چیلنجز تھے۔ یہ انٹرویو اُس وقت سامنے آیا جب پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل اسد درانی میڈیا میں زیر بحث تھے جس میں انہوں نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس میں تبدیلی کے بعد بھارت پاکستان کے لیے خطرہ نہیں رہا کیونکہ اس کے بعد بھارت کئی اندرونی مسائل میں پھنس چکا ہے۔ پاکستان میں ریٹائرڈ جرنیلوں کی باتوں کو اکثر فوج کا مؤقف سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جنرل درانی کے اس تصور کو بھی فوج کا مؤقف سمجھا جا سکتا تھا۔ اس تاثر اور تصور کی نفی کے لیے فوج کے اصل اور سرکاری ترجمان جنرل بابر افتخار نے فوج کا مؤقف بیان کرنا ضروری سمجھا۔ ان کے انٹرویو میں بھارت کے پیدا کردہ خطرات کا تفصیل سے ذکر یہ ثابت کررہا ہے کہ کل کی طرح آج بھی بھارت ہی پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستان کو لگنے والے نوّے فیصد زخم بھارت کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بھارت اب پاکستان کے لیے خطرہ نہیں رہا تو اس کی وجہ ایک تو پاکستان کا ایٹم بم ہے اور دوسرا اب سی پیک ہے۔ چین اپنی سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے بھارت کی مسلط کردہ جنگ سے الگ نہیں رہ سکتا۔ یہی تصور اب بھارت کے لیے سوہان ِروح بن چکا ہے اور وہ چھپ کر وار کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتا جا رہا ہے۔ جنرل بابر کے انٹرویو سے اسد درانی کا پھیلایا ہوا یہ تاثر زائل ہوگیا کہ پاکستان اب بھارت کے لیے خطرہ نہیں رہا۔
nn