سجاد میر
ایک اور مہربان رخصت ہوگیا۔ وہ سیاست دانوں کی اُس نسل کا آخری نمائندہ تھا جنہوں نے پاکستان میں اصولوں کی خاطر جمہوریت کی شمع کو روشن رکھا۔ شیر باز مزاری ایک بے مثال شخص تھے اور میرے بہت ہی مہربان۔ ان کی دیانت اور شرافت کے بارے میں میری یہ رائے رہی ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کی اس عہد کی دو ڈھائی ایمان دار شخصیتوں میں سے تھے۔ میری ان سے شناسائی اُس وقت ہوئی جب وہ ٹوٹے ہوئے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن کے طور پر اسلام آباد آئے۔ مجھے بھی پہلی بار اسمبلی کے اجلاس کو دیکھنے کے لیے اسلام آباد جانا پڑا۔ وجہ یہ تھی کہ ہمارے جرائد پر پابندی لگ چکی تھی اور ہم نیا پرچہ نکالنے کے ساتھ اسمبلی میں لابی کرنا چاہتے تھے۔ معلوم ہوا کہ آزاد اراکینِ اسمبلی شیر باز مزاری کو اپنا لیڈر منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ یوں ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ حیرانی ہوئی کہ یہ کون شخص ہے جسے ظفر احمد انصاری پر ترجیح دی جارہی ہے! اکثر لوگوں کے خیال میں انصاری صاحب جنہیں ہم چچا کہتے تھے، اپنی بزرگی اور سیاسی پس منظر کی وجہ سے بہترین انتخاب تھے۔ کچھ ہی عرصے بعد میں کراچی چلا گیا تو مزاری صاحب سے ایسا رشتہ قائم ہوا جو میرے لیے ہمیشہ باعثِ افتخار رہا۔ یہ میں کہاں سے ذاتی داستان سنانے بیٹھ گیا ہوں!
ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی علاقوں کے ٹمن داروں کے ہاں پیدا ہونے والے اس نوجوان کو یتیمی کا داغ سہنا پڑا۔ انگریز نے انہیں اور ان کے بھائیوں کو اپنی نگرانی میں لے لیا۔ ایچی سن کالج لاہور اور ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی میں ان کی تربیت ہوئی۔ لاہور کے قیام کے دوران ان کی دوستی اکبر بگٹی سے ہوئی۔ بعد میں یہ برادر نسبتی بنے، مگر سیاست میں اکثر ان سے الگ رہے۔ میں نے کم سیاست دانوں کا اتنا بامعنی کتب خانہ دیکھا ہے۔ انہوں نے کراچی میں اپنے شاندار بنگلے کی تعمیر بھی ایسے کی تھی کہ کتب خانہ اپنی افادیت کا ثبوت دیتا تھا۔ نیا نسبتاً چھوٹا گھر تعمیر کیا تو کتب خانے کی ایسی شان تھی۔ ہر کتاب بامعنی تھی، ایسے ہی سجاوٹ کے لیے دھری ہوئی نہ تھی۔ اُن دنوں کا کراچی بھی ملکی سیاست کی نابغہ روزگار شخصیات کا مرکز تھا۔ جماعت اسلامی سے پروفیسر عبدالغفور احمد ابھر کر آئے تھے جو نہ صرف اپنی شرافت اور نجابت کی مثال تھے، بلکہ انہوں نے جماعت اسلامی کی سیاست کو بھی ایک نئی نہج پر ڈالا تھا۔ مولانا ظفر احمد انصاری آزاد امیدوار تھے، پرانے مسلم لیگی تھے، جماعت اسلامی نے ان کی حمایت کی تھی۔ اور تیسرے شیر باز مزاری تھے۔ یہ تینوں شخصیات وہ ہیں جو بھٹو کے زمانے میں ملکی سیاست پر چھائی رہیں۔1973ء کے آئین میں ان کا بنیادی کردار تو تھا ہی، ملکی سیاست کو بھی نیا رنگ دینے میں یہ لوگ اختلافات کے باوجود سیاست کا ایک الگ دبستان تھے۔ شریف بھی، ذہین بھی، دیانت دار بھی اور اصول پرست بھی۔ ملکی سیاست میں شیر باز مزاری کا بنیادی کردار اُس وقت سامنے آیا جب بھٹو نے سپریم کورٹ سے نیپ پر پابندی لگوا دی اور سرحد (خیبر پختون خوا) اور بلوچستان کی حکومتیں توڑ دیں۔ ان دونوں صوبوں میں ولی خان کی نیپ(نیشنل عوامی پارٹی) کی حکومت تھی۔ مری، مینگل، بزنجو سب اس میں شامل تھے۔ پارٹی کے قائدین کو گرفتار کرکے ان کے خلاف حیدرآباد ٹریبونل بنایا گیا تاکہ ان سب لوگوں کو غدار قرار دیا جائے۔ نیپ اس ملک میں لیفٹ کی اصولی سیاست کی ایک ایسی جماعت تھی جو ملک بھر میں پہچان رکھتی تھی۔ یہ پہلے ہی بھاشانی سے الگ ہوکر اپنے پاکستانی تشخص کو قائم رکھنے میں کوشاں تھی۔ ایسے میں ڈر تھا کہ اس کے کارکن ردعمل کا شکار ہوکر بکھر نہ جائیں۔ شیر باز مزاری اُس وقت سامنے آئے اور این ڈی پی(نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی) کے نام سے ایک پارٹی بنادی کہ گویا نیپ کے ارکان کو بکھرنے سے بچانا تھا۔ پرانی نیپ کی طرح بیگم ولی خان اس نئی پارٹی کا بھی حصہ تھیں۔ نواب اکبر بگٹی بھٹو کے کہنے میں آ گئے اور بلوچستان کے گورنر بن بیٹھے۔ انہوں نے اپنے دوست برادر نسبتی کا ساتھ دینے کے بجائے بلوچستان کی دوسری جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا۔ نئی جماعت نے بڑی شہرت پائی۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ شیر باز مزاری کوئی لیفٹ کے سیاست دان تھے۔ نہیں، وہ ایک جمہوری سیاست دان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں آئین سازی میں انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا، وہاں بھٹو کے آخری دنوں میں انہیں پارلیمنٹ میں قائد حزبِ اختلاف چن لیا گیا۔ 1977ء کے الیکشن میں قومی اتحاد کا وہ نہایت فعال حصہ رہے۔ کراچی کی دو کے سوا ساری نشستیں پی این اے نے جیت لی تھیں۔ کیا کیا لوگ منتخب ہوئے تھے اس شہر سے۔ ایئر مارشل اصغر خان، شیر باز مزاری، پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، منور حسن، شاہ احمد نورانی… ہاں یاد آیا، شاہ احمد نورانی بھی تو اُس زمانے کی سیاست میں کراچی کا ایک نمایاں نام تھا۔ وہ بھی انہی دنوں قومی افق پر ابھرے تھے۔ نورانی نے جہاں قومی سطح پر غیر معمولی کردار ادا کیا۔ سوچو ذرا، جب میں کراچی گیا تو یہ شہر کیسا تھا اور اس کی سیاست کیسی تھی۔ یہ تو تباہ کردیا انہوں نے جو بظاہر اس شہر کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔ لاحول ولا قوۃ۔ مزاری صاحب نے نازک وقت پر جمہوری قدروں کا ساتھ دیا۔ انہیں لوگ عموماً سردار صاحب کہتے تھے۔ وہ خود کو سردار کہلانا پسند نہ کرتے تھے۔ اپنے بھائی بلخ شیر مزاری کی سیاست سے بھی خوش نہ تھے۔ بلخ شیر ہمارے جنوبی پنجاب میں بڑے بزرگ اور زیرک سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔ ہمیشہ سیاست کی جوڑ توڑ کرنے والے ان کو اہم سمجھتے ہیں۔ مگر شیر باز اُن کی سیاست سے خوش نہ تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اُن دنوں میں آسٹریلیا میں تھا جب خبر آئی کہ انہیں نوازشریف کی حکومت توڑ کر نگراں وزیراعظم بنادیا گیا ہے۔ وہاں کے ریڈیو کی اردو سروس والوں کو صرف اتنی خبر تھی کہ مزاری صاحب وزیراعظم ہوگئے ہیں۔ وہ سمجھے شیر باز مزاری ہیں، کہ اُن دنوں انہی کا چرچا تھا۔ میں نے آن ایئر کہا یہ ممکن نہیں ہے، جس قدر میں مزاری صاحب کو جانتا ہوں وہ یہ منصب کبھی قبول نہ کریں گے۔ ہو نہ ہو یہ اُن کے بھائی بلخ شیر ہوں گے۔ آدھے گھنٹے بعد پروگرام ہی کے دوران اس خبر کی توثیق ہوگئی۔ آج جب دو سطری خبر نشر کی گئی کہ وہ بلخ شیر مزاری کے بھائی تھے تو میرا دل عجیب کیفیت سے دوچار ہوا۔ شیر باز شیر باز تھے اور جب تک سیاست میں رہے قومی سطح کے لیڈر کے طور پر رہے۔ اصولی سیاست دان۔ ایک دیانت دار شخصیت اور صاف ستھری سوچ رکھنے والے شخص۔ اچانک ایک بات یاد آگئی، بیان کیے دیتا ہوں۔ میرے ساتھ اُن کے تعلقات کی نوعیت ایسی تھی کہ جب ایم آر ڈی کی تحریک میں یا شاید بھٹو صاحب کی گرفتاری پر بیگم بھٹو اُن کے گھر میں کھانے پر مدعو تھیں۔ خوف کی اس فضا میں مزاری صاحب پھر میدان میں تھے۔ چند چیدہ چیدہ صحافی بھی موجود تھے۔ میں بھی حاضر ہوا۔ زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کی پیپلز پارٹی سے ہمدردیاں
(باقی صفحہ 41پر)
تھیں۔ میرے آتے ہی مزاری صاحب نے بیگم نصرت بھٹو سے میرا تعارف کچھ ایسے الفاظ میں کرایا کہ جنہیں میں یوں سمجھیے ازراہ انکسار نقل نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے یاد ہے کہ مجلس میں موجود ہر شخص نے مجھے ایسے دیکھا کہ گویا میں کوئی آسمانوں سے اترا ہوں۔ وہ لمحہ میری زندگی کے قیمتی لمحوں میں سے ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے کہ جب پی این اے کی تحریک کے نقطہ عروج پر اتحاد کے سیکرٹری جنرل رفیق باجوہ اچانک وزیراعظم بھٹو سے ملنے اسلام آباد پہنچ گئے۔ عین اُس وقت پی این اے کی ایک مقامی کمیٹی کا اجلاس مزاری صاحب کے گھر ہورہا تھا۔ میرے ذرائع نے مجھے ایئرپورٹ سے ایک فوجی افسر کے ساتھ ان کی روانگی کی خبر دی۔ میں نے میٹنگ میں مزاری صاحب کو پیام بھیجا۔ کسی اور کو بتانا نہیں چاہتا تھا۔ انہوں نے اندر جاتے ہی دھماکہ کردیا۔ نورانی میاں جوشِ جذبات میں فوراً گرج دار لہجے میں کہنے لگے ”اگر ایسا ہوا تو میں انہیں پارٹی سے نکال دوں گا“۔ وہ اتحاد کے سیکرٹری جنرل جے یو پی کے نمائندے کے طور پر تھے۔ میرے ذاتی طور پر رفیق باجوہ سے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ نظام مصطفیٰ کا لفظ غالباً انہوں نے پہلی بار استعمال کیا تھا۔ ایک آدمی ضائع ہوگیا۔ انہوں نے بعد میں وضاحت کی کہ میں نواب زادہ نصراللہ خان کو بتاکر گیا تھا۔ نواب زادہ صاحب نے اس کی تردید کردی۔ بہرحال رفیق باجوہ گوشہ گمنامی میں چلے گئے اور پی این اے کے نئے سیکرٹری جنرل پروفیسر غفور احمد مقرر ہوئے۔ کہاں دور نکل گیا ہوں!
ابھی نہیں چار سال پہلے میں کراچی گیا تو جانے سے پہلے برادرم نصیر سلیمی سے عرض کیا کہ مزاری صاحب سے وقت لے رکھنا۔ ان سے نیاز حاصل کیے بڑا عرصہ ہوگیا ہے۔ مزاری صاحب کو مل کر ایک طرح کا افسوس ہوا۔ ان کی یادداشت کمزور ہوچکی تھی۔ وہ تصویریں دکھا دکھا کر اس بات کی تصدیق کرتے رہے کہ اس تصویر میں یہ میں ہی موجود ہوں ناں۔ وہ یقین کرنا چاہتے تھے کہ وہ ٹھیک آدمی سے مل رہے ہیں۔ ان کی صحت کے مسائل کافی عرصے سے چل رہے تھے۔ کئی بار سرجری ہوئی۔ بہرحال انہوں نے طویل عمر پائی۔ آج معلوم ہوا کہ ان کا انتقال 90 سال کی عمر میں ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ میں جب اُن سے پہلی بار ملا تھا تو وہ 42برس کے تھے۔ ایک بار ایئر مارشل اصغر خان نے مجھے بتایا کہ شیر باز مزاری نے ان سے کہا ہے کہ تم پارٹی بنا رہے ہو۔ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ میں نے بناکر دیکھ لیا ہے۔ وہ اس دنیا کے آدمی نہ تھے۔ اصولوں کی خاطر انہوں نے کسی کی پروا نہ کی۔ نہ کسے رشتے کی، نہ کسی فائدے کی۔ ایک تاریخ ساز کردار ادا کرکے ہم سے رخصت ہوئے۔
(بشکریہ روزنامہ 92 نیوز)