جعفر خان جمالی سے ظفر اللہ خان جمالی تک؟

پاکستان کے سابق وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی اب تاریخ کا حصہ ہیں وہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں وزیراعظم بنائے گئے۔ ظفر اللہ خان جمالی جنرل پرویز کا بڑا احترام کرتے تھے، انہیں اس کی وجہ سے Bossکہتے تھے۔ بلوچستان میں آئی جے آئی کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔ ان کے دورے میں ہیلی کاپٹر کا حادثہ ہوا اور وہ اس میں بال بال بچ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے انتخابی مہم ترک کردی۔ وہ نواز شریف کے مخالف تھے اس لیے انہوں نے سابق وزیراعظم جونیجو کی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اُن کا سیاسی سفر بڑا دلچسپ ہے مگر وہ کسی ایک پارٹی میں جم کر کام نہ کرسکے۔ مسلم لیگ سے پی پی پی تک اُن کا سفر جاری رہا۔ وہ اس لحاظ سے منفرد شخصیت تھے جو بڑی مختصر مدت کے لیے صوبائی وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ بادشاہ گروں نے نواب بگٹی کے بجائے انہیں وزیراعلیٰ کے منصب پر براجمان کیا۔ یہ ایک سیاسی شطرنج کا کھیل تھا۔ اکثریت نواب بگٹی کو حاصل تھی مگر مقتدر طبقہ نواب کو پسند نہیں کرتا تھا اس لیے وزیراعلیٰ کا تاج ظفر اللہ جمالی کے سر پر سجادیا گیا۔ اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کیا گیا، جمعیت علمائے اسلام کے ایک مولوی محمد خوستی ژوب سے انتخاب جیتے تھے ان کا ووٹ خریدا گیا۔ بینک بند تھا تو ایک سرمایہ دار نے راتوں رات تجوری کھولی اور ووٹ ظفر اللہ جمالی کو دے دیا گیا۔ نواب بگٹی کو شکست ہوئی ، ووٹوں کی گنتی میں گھپلے کیے گئے۔ نواب بگٹی نے عدالت عالیہ میں اس انتخاب کو چیلنج کیا اور عدالت عالیہ نے اس انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا، یوں نواب بگٹی وزیراعلیٰ کے منصب پر پہنچ گئے۔
نواب بگٹی نے صوبائی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے 5 دسمبر 1989ء کو حلف اٹھالیا۔ ان دنوں میںعدالت عالیہ میں حکومت ایران کی دعوت پر تقریبات میں مہمان کے طور پر شریک تھا۔ ایران کے اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ نواب بگٹی وزیراعلیٰ کا حلف اٹھائیں گے، ہوٹل لالہ میں ٹھیرا تھا وہاں سے فون کیا تو بتلایا گیا کہ نواب غسل فرما رہے ہیں، کچھ دیر بعد دوبارہ فون کیا اور نواب بگٹی شہید کو مبارک باد دی اور اُن کو بتلایا کہ ایران کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے، وہ ہنسے اور کہا کہ آج اجلاس میں جارہا ہوں وہاں دیکھیں گے۔ بہرحال انہیں مبارک باد دی ۔ نواب کا دور حکومت 5 دسمبر 1989ء کو شروع ہوا۔ اور 7 اگست 1990ء کو اختتام پذیر ہوا۔ صدر پاکستان غلام اسحق خان نے بے نظیر کی حکومت کو ختم کردیا تھا اس کے بعد بلوچستان میں میر ہمایوں مری، نگراں وزیراعلیٰ بنے اور ان کا دور حکومت 8 اگست 1990ء کو شروع ہوا اور 17 نومبر 1990ء کو ختم ہوگیا۔
میر ظفر اللہ جمالی مرحوم 1977ء کے انتخابات میں نصیر آباد (2) سے ممبر منتخب ہوگئے۔ وہ پی پی پی میں تھے۔ 5 جولائی کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا حزب اختلاف کی طاقت ور تحریک کا نتیجہ فوجی جنرل کی صورت میں نکلا۔ یہ اسمبلی 2 اپریل کو وجود میں آئی اور 5 جولائی کو ختم ہوگئی اور صوبائی اسمبلی کے اسپیکر جام غلام قادر مرحوم تھے جو جام کمال کے دادا تھے۔ 1985ء میں جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے، بلوچستان سے جماعت اسلامی بلوچستان کے رکن مولانا عبدالحق بلوچ نے قومی اسمبلی کی نشست جیت لی اور وہ صوبائی نشست پر بھی کامیاب ہوگئے تھے۔ صوبائی نشست خالی کردی اور قومی کی برقرار رکھی، وہ تربت سے جیتے تھے، 1988ء کے انتخابات میں ظفر اللہ خان جمالی نے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر جعفر آباد کے حلقہ 202 سے نبی بخش کھوسہ کو شکست دے کر کامیاب ہوئے۔ 1990ء میں بھی ظفر اللہ خان جمالی نے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا اور نبی بخش کھوسہ سے ہار گئے۔ 1993ء کے انتخابات میں میر ظفر اللہ جمالی نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور نبی بخش کھوسہ سے ہار گئے۔ 1997ء میں 203 پر میر فرید اللہ نے انتخاب میں آزاد حیثیت سے حصہ لیا اور انہوں نے اظہار حسین کھوسہ کو شکست دی میر ظفر اللہ خان جمالی نے 1997-2003ء میں سینیٹ کا انتخاب لڑا اور وہ کامیاب ہوگئے، اس وقت وہ آزاد امیدوار تھے۔ یہ مختصر سی اس دور کی تاریخ ہے جب ظفر اللہ خان جمالی سیاست میں متحرک تھے۔ یہ ان کے عروج و زوال کی داستان جماعت اسلامی ہے۔ بلوچستان تمہید اس لئے باندھی ہے کہ میر ظفر اللہ جمالی (مرحوم) کی وفات کے حوالے سے مجھے روجھان جمالی کے دورے کی دعوت تھی۔ امیر صوبہ جناب عبدالحق ہاشمی نے کہا کہ ہم تعزیت کے لیے جارہے ہیں، آپ آنا چاہیں تو تیار ہوجائیں۔ جمعہ کی صبح ہم روجھان جمالی کے لیے روانہ ہوگئے۔ جنرل سیکرٹری ہدایت الرحمن بھی ساتھ تھے ۔ ہم 12 بجے کے قریب نصیر آباد پہنچ گئے، جماعت اسلامی کا اسکول ہے وہاں تھکاوٹ تھی گرم گرم چائے سے لطف دوبالا ہوگیا، اس کے بعد ہم روجھان جمال کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہمارے ہمراہ اب الگ گاڑی تھی جس میں جماعت کے اہم افراد جن میں حاجی جان محمد بھنگر اور جعفر آباد سے امیر ضلع محمد امین بگٹی، پروفیسر محمد ایوب (شاعر بھی ہیں) محمد یوسف ،حاجی محمد صدیق، عبدالحئی براہوی، مٹھا خان بارینی، ظہیر منگی، عبداللہ ڈومکی، جمیل بھنگر، شمس کھوسہ تھے۔ صحبت پور سے امیر ضلع عبدالرشید گاجانی، حافظ عبدالرحیم گاجانی، اوستہ محمد سے ارباب علی سومرو، سکھر سندھ سے مولانا حزب اللہ جکھرو، جیکب آباد سے عبدالحفیظ بجارانی شامل تھے۔ یوں 25 افراد کا قافلہ تھا جو میر ظفر اللہ جمالی کی تعزیت کے لیے جارہا تھا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ لاہور سے کار کے ذریعے جعفر آباد پہنچ رہے تھے۔ ہم سب کا میٹنگ پوائنٹ الیوسف پیٹرولیم سروس ڈیرہ اللہ یار بائی پاس پر تھا۔ جمعہ کا دن تھا اب 2 بج رہے تھے کچھ دیر بعد جناب لیاقت بلوچ پہنچ گئے۔ یوں ہمارا قافلہ مکمل ہوگیا۔
پیٹرولیم سروس کے ساتھ ہی مہمان خانہ موجود تھا اور مسجد ساتھ تھی۔ جناب لیاقت بلوچ کا ہم سب نے پرتپاک استقبال کیا، وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ان سے جماعتی یارانہ ایک طویل عرصہ پر محیط ہے۔ نماز جمعہ باجماعت پڑھی، اس کے بعد جناب بادینی نے پرتکلف ظہرانہ کا اہتمام کیا تھا، تھکاوٹ تھی، مہمان نوازی نے تھکاوٹ بھلادی اس کے بعد چائے کا دور چلا اور جماعت کا یہ قافلہ سوئے روجھان جمالی کی طرف محو سفر ہوگیا۔ ہم جلد ہی پہنچ گئے۔ مرحوم کے خاندانی قبرستان کے ساتھ قریب ہی مہمانوں کے لیے شامیانہ لگا ہوا تھا۔ ہم پہنچے تو وہاں اکیلے عبدالحئی بلوچ بھی آگئے۔ پارٹی بنائی اور اکیلے ہی محو سیاست ہوگئے ہیں۔ نیپ کی باقیات کا یہ انجام بڑا عبرت ناک ہے، ہم سب تعزیت کے لیے بیٹھ گئے دعا کی۔ میر ظفر اللہ جمالی مرحوم کے بیٹے، بھائی، بھتیجے اور دیگر خاندان کے لوگ موجود تھے لیکن جان محمد جمالی موجود نہ تھے۔ یہ مجھے کچھ عجیب لگا۔ جان محمد جمالی، میر صاحب کے بھانجے ہیں، ان کے درمیان سیاسی چپقلش موجود تھی۔ جان جمالی کا سیاسی سفر مختلف مراحل طے کرتا ہوا باپ کی آغوش میں پناہ گزین ہوگیا ہے۔ میر ظفر جمالی کے فرزند عمر جان جمالی ممبر صوبائی اسمبلی وزیر بھی ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر جمالی خاندان کے معتبرین موجود تھے جن میں فرید اللہ جمالی، جاوید خان جمالی، سردار ہارون خان جمالی، میر چنگیز خان جمالی، میر عبدالخالق جمالی، ڈاکٹر سعید جمالی یہ بولان میڈیکل کالج میں میرے شاگرد تھے۔ ان کے علاوہ سردار ڈاکٹر شعیب جان گولہ موجود تھے یہ جناب ارشاد احمد گولہ کے فرزند ہیں۔ جناب ارشاد احمد گولہ سے دوستانہ تھا وہ نواب بگٹی کے قریب تھے اور اکثر نواب بگٹی سے ملنے آتے تھے۔ نواب نے انہیں پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین نامزد کیا تھا۔ جماعت کا قافلہ فاتحہ خوانی کے بعد اپنے اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ (جاری ہے)