ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی جدوجہد اور عملِ پیہم سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد بانوے 92) )سال کی عمر میں 2 نومبر 2020ء کو راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
صبح کو طائرانِ خوش الحان
پڑھتے ہیں کل من علیہا فان
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب (انڈیا) کے ضلع حصار سے پاکستان کی طرف ہجرت کرتے ہوئے پہلے پہل ہارون آباد (ضلع بہاول نگر) میں عارضی قیام، پھر محلہ رحمٰن پورہ (لاہور) کے بعد سمن آباد (لاہور) میں نقل مکانی اور مستقل قیام اختیار کیا۔
1960ء میں اپنے برادرِ خورد الطاف حسن قریشی کے ساتھ مل کر پاکستان میں ماہانہ ڈائجسٹ صحافت کو اوّلین طور پر متعارف کرواتے ہوئے، ماہ نامہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ جیسا اعلیٰ پائے کا علمی، ادبی، سنجیدہ، شائستہ، پاکستانی معاشرت کا عکاس رسالہ جاری کیا۔ اس طرح پاکستان کی صحافت کے افق پر انہیں ماہانہ ڈائجسٹ صحافت کے بانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1960ء میں جاری ہونے والے اس رسالے نے مقبولیت اور کثیرالاشاعتی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ چنانچہ 1967ء کے سالنامہ اردو ڈائجسٹ کی اشاعت ایک لاکھ پچیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
جہدِ مسلسل اور محنتِ پیہم سے قریشی برادران نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اردو صحافت کے ماہانہ رسائل و جرائد کی اشاعت سیکڑوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ ہزاروں سے تجاوز کرتے ہوئے ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے اجرا کے بعد دیگر بہت سے لوگوں نے بھی ماہانہ ڈائجسٹ رسالے نکالنے کا آغاز کردیا، اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر عروس البلاد کراچی سے تو ماہانہ ڈائجسٹ رسالوں کی اشاعت، موسم برسات میں اگنے والی خودرو کھمبیوں کی طرح لاتعداد ہوگئی۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کراچی کے ان ماہانہ ڈائجسٹ رسالوں کے مالکان، مدیران اور لکھاریوں نے کثیرالاشاعت بننے کے اندھا دھند، بے ہنگم طوفان، اور ہوسِ زر نے اخلاق، شائستگی، سنجیدگی، متانت اور اعلیٰ ادبی و علمی ذوق کے تمام اصولوں اور ضابطوں کو پامال کرکے رکھ دیا۔ ہندو دیومالا، مخرب اخلاق، سفلی جذبات بھڑکانے والے قصے، شتربے مہار طول طویل ہندو سفلی کتھائیں یوں شروع کیں کہ ان کی طوالت کو دیکھ کر ’’شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہونے‘‘ کا مشہور محاورہ بھی ان نام نہاد داستانوں کے سامنے ماند پڑ گیا۔ اور مقام صدحیف! اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ماہانہ ڈائجسٹ رسالوں نے نئی نسل کا علمی و ادبی ذوق غارت کرکے رکھ دیا۔
خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ کراچی کے مندرجہ بالا ماہانہ ڈائجسٹوں کے طوفانِ بدتمیزی کے باوجود قریشی برادران نے اردو ڈائجسٹ کو اخلاقی پستیوں سے بچائے رکھا۔ اگرچہ اس سے اشاعت متاثر ہوئی لیکن انہوں نے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا، اور اردو ڈائجسٹ کے اخلاقی معیار کو گرنے نہیں دیا۔
ماہنامہ اردو ڈائجسٹ پاکستان کی صحافت کے افق پر قدیم اور جدید کے امتزاج سے ایک نیا تجربہ اور سنجیدہ علمی و ادبی انگریزی سے اردو ترجمہ کی تحریروں کا خوش گوار آغاز تھا، جس کی کامیابی کا سہرا مدیر انتظامی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم اور ان کے چھوٹے بھائی الطاف حسن قریشی (اللہ تعالیٰ ان کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھے، آمین) کی شبانہ روز محنت اور تپسّیا کی حد تک جہدِ مسلسل کا مرہونِ منت ہے۔
1970ء کے پُرآشوب سال میں جب وطنِ عزیز پاکستان (بشمول مشرقی پاکستان، موجودہ بنگلہ دیش) میں جلسے جلوسوں کی بھرمار اور سیاسی پارٹیوں میں اسلام اور سوشلزم کی نظریاتی کشمکش عروج پر تھی، مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ اور عبدالحمید بھاشانی کی چین نواز نیشنل عوامی پارٹی سوشلزم کے پرچارکوں کا روپ دھار کر جلائو گھیرائو کے نعرے لگاکر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف تخریب کاری کا گھنائونا جرم سیاسی سرگرمیوں کی آڑ میں کررہی تھیں۔ اس کے بالمقابل پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع اور حفاظت کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی، اسلامی رجحانات اور نظریۂ پاکستان کی ترجمانی اور فروغ کے لیے صفِ اوّل میں سب سے نمایاں اور منظم انداز میں کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے اوچھے ہتھکنڈوں کے مقابلے میں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع اور تحفظ کے لیے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں پیش پیش تھی۔
نظریۂ پاکستان کے تحفظ، اسلامی سیاسی نظریات کے فروغ اور لادینی سوشلسٹ نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی نے ایک معیاری ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ جاری کیا، اور مجیب الرحمٰن شامی اس کے ایڈیٹر مقرر کیے گئے۔ آغا شورش کاشمیری (وفات 24 اکتوبر 1975ء) کے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کے بعد اسلامی نظریاتی سیاست کی ترجمانی اور فروغ کے لیے ’’زندگی‘‘ دوسرا بڑا اور کثیرالاشاعت ہفت روزہ تھا۔
قریشی برادران اور مجیب الرحمٰن شامی کی جرأتِ اظہار اور جہدِ مسلسل کے نتیجے میں ’’زندگی‘‘ پاکستان کے سیاسی ہفت روزہ رسائل میں سب سے آگے نکل گیا اور جون 1970ء کے لگ بھگ ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کی اشاعت چوالیس ہزار (44000) تک پہنچ گئی۔ ان روزافزوں صحافیانہ سرگرمیوں کے پس منظر میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں اور منصوبہ بندی کا ہاتھ تھا۔ بقول اقبال ؎
ہے رگِ ساز میں رواں، صاحبِ ساز کا لہو!
ہفت روزہ زندگی نے 1970ء کے پُرآشوب سال میں اسلام اور سوشلزم کی نظریاتی کشمکش میں اسلامی نظریات، نظریۂ پاکستان، پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے بنیادی نظریہ اسلام کی ترجمانی کا فریضہ ببانگِ دہل انتہائی خوش اسلوبی سے یوں انجام دیا کہ ’’زندگی‘‘ ہفت روزہ رسائل و جرائد میں سیاسی ذوق رکھنے والے قارئین کی اکثریت اور نئی نسل کا پسندیدہ رسالہ بن گیا تھا۔
ہم اپنے گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹائون گوجرانوالہ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زمانۂ طالب علمی (1969-76ء) کے دوران اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں شائع شدہ تحریروں کے پُرشوق قاری ہونے کے ساتھ ساتھ قریشی برادران کے غائبانہ نیازمند تھے۔ لیکن صرف ایک دو بار ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ جب وہ مئی 1974ء میں 1۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی ایک تربیت گاہ میں بطور مقرر تشریف لائے۔ اپنی تقریر میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے نوجوان طلبہ کو عصرِ حاضر کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو علم کے حصول کے لیے وقف کرنے پر زور دیا۔ اس کے بعد 1978ء میں ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی کے دفتر میں (جو قریشی برادران کی رہائش گاہ سے ہی ملحق تھا) ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی سے بالمشافہ مختصر گفتگو کا موقع ملا۔
اب 2 نومبر2020ء کو محترم اعجاز حسن قریشی کی رحلت کے بعد یہ سب باتیں یادِ ماضی بن کر رہ گئی ہیں۔
حالیہ برسوں میں وطنِ عزیز پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کے 180 کے لگ بھگ ٹی وی چینلز کی رواں صحافت کی بھرمار اور یلغار نے ابلاغیات کے معیار کو منفی انداز میں گراتے ہوئے صرف تبدیل ہی نہیں کیا، بلکہ گستاخی معاف! اسے تلپٹ کرتے ہوئے غیر سنجیدگی اور کھلنڈرے پن کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا کر رکھ دیا ہے، اور ’’ترقیِ معکوس‘‘ کا یہ منفی عمل پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں شب و روز اور روز افزوں انداز میں مسلسل جاری ہے، اور اس کے بالمقابل شائستگی، شرافت اور علمی وقار سے اپنی بات اور نکتہ نظر احسن انداز سے کہنے اور لکھنے کا ڈھنگ، ایک بھولا بسرا خواب بن کر رہ گیا ہے۔
سنسنی خیز صحافت اور ابلاغیات میں بے ڈھنگے پن، اور اخلاقی ضوابط کے برعکس مادر پدر آزاد سبقت لے جانے کی دوڑ میں ٹی وی اینکرز کی اکثریت نے انسانی اخلاق کے تمام اصول یوں پامال کرکے رکھ دیئے ہیں کہ پاکستان کے ٹی وی چینلز کے ناظرین کے لیے کھوٹے کھرے سیاسی چہروں کی پہچان مشکل اور ناممکن ہوتی جارہی ہے۔ بقول شاعر ؎
عجب نہیں کہ رہے، نیک و بد میں کچھ بھی تمیز
کہ جو بدی ہے وہ سانچے میں ڈھلتی جاتی ہے
(الطاف حسین حالیؔ)
اور ’’چلوتم اُدھر کو ہوا جو جدھر کی‘‘ کے مصداق ابن الوقت نام نہاد ’’ماہرین ابلاغیات‘‘ کی تعداد یاجوج ماجوج کی طرح روزافزوں، اور اس کے بالمقابل حق گوئی اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرنے والے صحافیوں کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔
حق گوئی کی پاداش میں پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے اوّلین فاشسٹ دورِ حکومت (1972-77ء) میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمٰن شامی نے قیدوبند اور رسائل کی بندش کی صعوبتیں انتہائی جرأت اور استقامت سے برداشت کیں۔
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی شائستگی، شرافت اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری پر مبنی صحافت کا پرچم استقامت سے بلند رکھنے والے چند گنے چنے صحافیوں میں سے تھے۔ اگرچہ تحریر کے شعبے سے ان کا تعلق کم اور رسائل کی اشاعت کے انتظامی امور کی انجام دہی سے زیادہ تھا، لیکن مثبت اور معیاری صحافت کے فروغ میں ان کی اصول پسندی اور اعلیٰ اخلاقی معیار کی پابندی پر مبنی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جو انہوں نے پس منظر میں رہ کر معیاری رسائل و جرائد کی پالیسی اور صحافت میں مثبت رجحان سازی کے سلسلے میں انجام دیں۔
پاکستان کی موجودہ صحافت کے افق پر ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے ادارے کے تربیت یافتہ صحافی پاکستان کے اخبارات کے ایڈیٹروں اور بے شمار اہل قلم کارکن صحافیوں کی صف میں شامل ہیں۔
پاکستان کی صحافت کے مستقبل میں ایسے صحافی اور منتظم ایڈیٹر اب شاید ہی نظر آئیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی مرحوم کی مغفرت فرمائے (آمین)۔
قحط الرجال کے اس ماحول میں مرحوم کے حوالے سے اقبال کا یہ شعر بے اختیار یاد آرہا ہے:
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
nn