او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاسمسئلہ کشمیر پر اصولی مؤ قف کا اعادہ

او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس نائیجر کے شہر نیامے میں مشترکہ اعلامیے کے ساتھ ختم ہوچکا ہے۔ اس اجلاس کے لیے اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں دو ماہ سے تیاریاں جاری تھیں، خیال یہی تھا کہ پاکستان کی جانب سے اجلاس میں گستانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف قانون سازی کا کوئی مسودہ پیش کیا جائے گا۔ نہ جانے حکومت ایسا کیوں نہیں کرسکی! پارلیمنٹ کو حکومت سے ضرور یہ سوال کرنا چاہیے، کیونکہ پارلیمنٹ ہی حکومت سے جواب مانگ سکتی ہے، اپوزیشن جماعتوں کی اس بارے میں خاموشی بھی ایک جرم سمجھی جائے گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وفد کے ہمراہ او آئی سی اجلاس میں شرکت کی، صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان بھی مہمان مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئے، یوں انہیں خطاب کا موقع ملا اور انہوں نے او آئی سی کو بھارت کے مظالم سے آگاہ کیا، اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات اجلاس میں رکھیں۔
شاہ محمود قریشی کی نیامے میں سیکرٹری جنرل او آئی سی ڈاکٹر یوسف بن احمد سے ملاقات ہوئی جس میں اسلاموفوبیا اور مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر غور کیا گیا۔ وزیر خارجہ نے تجویز دی کہ او آئی سی کے ذریعے اسلاموفوبیا کی حوصلہ شکنی کے لیے پیغام جانا چاہیے، مسلم دنیا کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر نگاہ رکھے کیونکہ بھارت جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنا چاہتا ہے، اور مودی سرکار کی ہندوتوا سوچ خطے کے امن و امان کے لیے خطرے کا باعث بنتی جارہی ہے۔
اوآئی سی کا اجلاس ختم ہوچکا، اور حالیہ کانفرنس میں یہ بڑی پیش رفت نظر آئی کہ او آئی سی نے مطالبہ کیا کہ بھارت متنازع علاقے کے موجودہ آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے سے باز رہے۔ اوآئی سی نے مسئلہ کشمیر کی مستقل حمایت کے اصولی مؤقف کا اعادہ کیا ہے، اور اسلاموفوبیا پر بھی پاکستان کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ او آئی سی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بھارت متنازع علاقے کے موجودہ آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے سے باز رہے۔ اعلامیے میں جموں وکشمیر تنازع سے متعلق اوآئی سی کے اصولی مؤقف کا اعادہ کیا گیا، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر پر اوآئی سی کے مؤقف کی وضاحت کی گئی۔ اعلامیے میں مسئلہ کشمیر شامل کرنا اوآئی سی کی جانب سے مسئلہ کشمیرکی مستقل حمایت کا عکاس ہے۔ یہ بات کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ اوآئی سی اجلاس میں بھارت کو یک زبان ہوکر تنبیہ کی گئی ہے۔ اس قرارداد کی منظوری اور کانفرنس کے اعلامیے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کے تفصیلی تذکرے نے مودی حکومت کی منفی خواہشات پر پانی پھیر دیا ہے۔
آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان او آئی سی کے اجلاس میں کشمیری وفد کے سربراہ تھے، ان کی رائے یہ ہے کہ نائیجر کے شہر نیامے میں اسلامی وزرائے خارجہ کونسل کے سینتالیسویں اجلاس میں او آئی سی نے تنازع کشمیر کو امتِ مسلمہ کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اورکشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور تنظیم آج بھی اپنے اس اصولی مؤقف پر قائم ودائم ہے۔ انہوں نے اسلامی وزرائے خارجہ کو نجی طور پر اور کانفرنس سے خطاب میں یہ واضح کیا کہ اسلامو فوبیا کی سب سے بدترین شکل بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے اندر دیکھی جا سکتی ہے جہاں ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو اُن کے دین، عقیدے اور تہذیب کی وجہ سے نہ صرف حقارت سے دیکھتے ہیں بلکہ وہ پورے بھارت اور جنوبی ایشیا سے مسلمانوں کا قلع قمع کرنے اور اسلامی تہذیب کی تمام علامتوں کو مٹانے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہیں، ہندوتوا کے پرچارک مودی اور اُن کے ہم خیال فسطائی سوچ رکھنے والوں کو مسلم دنیا کے اندر بے نقاب کرنے کی جتنی ضرورت اس وقت ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی، اور اس مقصد کے لیے پوری دنیا میں بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص ایک منظم مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں کئی معاملات پر غور کیا گیا۔ امتِ مسلمہ کو آج گوناگوں مسائل درپیش ہیں، اسلامو فوبیا اس کانفرنس کا اہم موضوع ہوسکتا تھا، حکومت چاہتی تو او آئی سی اجلاس میں ملک کی پارلیمنٹ سے مینڈیٹ لے کر جاتی، سیاسی اور دینی جماعتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بناتی اور اپنی سفارشات اجلاس میں پیش کرتی، تاکہ گستاخانہ خاکوں پر پاکستان کی جانب سے بھرپور ردعمل مسلم دنیا کے ذریعے اقوام عالم تک پہنچتا۔ لیکن سولو فلائٹ کی عادی سیاسی قیادت اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتی، یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ رہا ہے۔ دوسری جانب یہ صورتِ حال ہے کہ دنیا میں ایک خاص مائند سیٹ اسلام کے خلاف لغو اور گمراہ کن پروپیگنڈا کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کو سمجھنے والے لوگ تو ایسے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوتے اور بھرپور ردعمل دیتے ہیں، مگر جس طرح دنیا کے سامنے اسلام کے شدت پسند مذہب ہونے کی لغویات ایک خاص ایجنڈے کے تحت پہنچائی جاتی ہیں اس کے خلاف او آئی سی کو مزید متحرک ہونا چاہیے اور عالمی سطح پر قانون سازی پر زور دینا چاہیے، بلکہ قانون سازی کرانی چاہیے۔ مگر آج تک اس حوالے سے پیش رفت نہیں ہوسکی۔ او آئی سی نے کوئی کردار ادا کیا اور نہ اس بارے میں کوئی ہوم ورک کیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ پاکستان او آئی سی کے اجلاس میں باضابطہ قانون سازی کے لیے کوئی مسودہ پیش کرتا، لیکن یہ اجلاس اس اہم پیش رفت سے بہت دور رہا۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان، ترکی اور ملائشیا ایک ٹی وی چینل لانچ کررہے تھے، لیکن او آئی سی کے ہی اہم ممالک کی جانب سے مزاحمت کے باعث یہ کام نہیں ہورہا، کچھ ممالک اس منصوبے کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، اور ان کی اَنا کام دکھا گئی ہے۔ دنیا بھر میں جب بھی کوئی عالمی سطح کی کانفرنس ہوتی ہے، بھارت ضرور پاکستان کے خلاف افواہیں پھیلانا اور لغو پروپیگنڈا شروع کردیتا ہے۔ ابھی بھی اُس کی جانب سے کہا گیا کہ او آئی سی اجلاس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر شامل نہیں ہوگا، لیکن آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان کے لیے او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت اس کے منہ پر طمانچہ تھا۔ وہ اجلاس میں شریک ہوئے اور خطاب بھی کیا۔ یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک ہے، مگر سوال یہ ہے کہ بھارت سے پانچ اگست کا حساب کیوں نہیں مانگا جارہا؟
مسلم دنیا میں ایک بہت بڑی پیش رفت ہوئی ہے کہ سعودی عرب نے ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن کے نام سے نئی تنظیم شروع کی ہے جس میں شمولیت کی بحرین، یو اے ای، اردن اور پاکستان کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ پاکستان نے اس دعوت کو قبول کرلیا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کو اس اہم پیش رفت سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ کشمیر پر پاکستانی عوام کے جذبات اس فورم تک پہنچ سکیں۔
پاکستان کے لیے مسلم دنیا کے ممالک ترکی، ایران اور ملائشیا کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے، یہ ممالک بھارت کو کشمیریوں کے خلاف مظالم بند کرنے کی وارننگ بھی دے چکے ہیں، ان ممالک نے سود و زیاں کا معاملہ ایک طرف رکھ کر ہی یہ مؤقف اختیار کیا ہے، اس سے ہم کیوں فائدہ نہیں اٹھا رہے؟ او آئی سی 57 مسلم ممالک کی تنظیم ہے۔ بھارت اور امریکہ سمیت سلامتی کونسل کے پانچ بڑے ممالک مسلم دنیا کی طاقت نظر انداز نہیں کرسکتے، لیکن ہم خود ہی اپنی قوت مصلحت کے قالین کے نیچے دبائے بیٹھے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے پر او آئی سو کومضبوطی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ جب تک او آئی سی کے رکن ممالک اپنی اپنی مصلحتوں کے لبادے نہیں اتارتے اور الحادی قوتوں کے خلاف یکجا نہیں ہوتے، او آئی سی کے اجلاس نشستند، گفتند، برخاستند پر ہی منتج ہوتے رہیں گے، اور عالمی برادری کو اپنے مؤقف پر قائل نہیں کرسکیں گے۔ یہ بات ہر کسی کے علم میں ہے کہ آئندہ جنگوں کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دفاعی پیداوار کے شعبے میں خودانحصاری بے حد ضروری ہے، اور اس کام کے لیے تکنیکی اَپ گریڈیشن، جدید کاری اور داخلی وسائل سے ترقی بہت اہم ہے۔ پاکستان تو مسلم دنیا کے دفاع کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلم دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عالمِ اسلام کے انتہائی اہم اور ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک پاکستان کو ایک مکار پڑوسی ملا ہے جو کم ظرف بھی ہے، بدنیت بھی، اور توسیع پسندانہ عزائم بھی رکھتا ہے، اس سے کبھی خیر کی توقع نہیں۔ اگر قیام پاکستان کے بعد بھارت کی ہندو برہمن قیادت نے پاکستان کو خلوصِ دل کے ساتھ ایک آزاد و خودمختار مملکت کی حیثیت سے تسلیم و قبول کرلیا ہوتا تو اس کے ساتھ کبھی سرحدی کشیدگی اور اس کے پیدا کردہ اندرونی و بیرونی خلفشار کی نوبت ہی نہ آتی، اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی آزادی و خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے پُرامن بقائے باہمی کے فلسفے کے تحت مختلف شعبوں میں باہمی تعاون سے اس خطے کو جنت نظیر بنا دیتے، اور یہاں خوشحالی و استحکام کا دور دورہ ہوتا، اور آج ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتے۔ مگر ہمارے کینہ پرور پڑوسی بھارت نے تشکیلِ پاکستان کو شروع دن سے ہی قبول نہ کیا۔ بھارتی لیڈروں نے پاکستان کو بادلِ نخواستہ قبول کرکے شروع دن سے ہی اس کی سالمیت کمزور کرنے کی سازشوں کی بنیاد رکھ دی، انہی سازشوں کے تحت بھارت نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں، کشمیر پر اپنا تسلط جمایا، پاکستان کو دولخت کیا، اسے آبی دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی سازشیں کیں اور سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا، جس کے لیے اس نے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور امریکہ، فرانس، برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے کرکے خود کو ہر قسم کے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرلیا۔ اس تناظر میں دفاعِ وطن کے لیے خود کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنا اور جنگی اور ایٹمی ہتھیار تیار کرنا ہماری مجبوری بن گیا۔ خدا کے فضل اور سیاسی و عسکری قیادتوں کے دفاعِ وطن کے بے پایاں جذبے اور پھر عساکرِ پاکستان کی مشّاقی و مہارت کے تحت آج پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، اور ملک کے اندر بھی ایٹمی میزائل، ٹیکٹیکل ہتھیار اور دوسرا جنگی سازوسامان تیار کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہوچکا ہے جن میں جدید ایٹمی اسلحہ بھی شامل ہے۔ اس کے لیے واہ آرڈی ننس فیکٹریز کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ ہمدم دیرینہ چین کی معاونت سے پاکستان نے تھنڈر جنگی جہاز اور دُور تک مار کرنے والے میزائل بھی تیار کیے ہیں۔ اس میں یقیناً ہماری جری و بہادر عساکرِ پاکستان کی مشاقی کا عمل دخل ہے۔ چنانچہ ملک کی عسکری قیادتوں کے ماتحت عساکرِ پاکستان آج دفاعِ وطن کے لیے عملاً سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دشمن کے عزائم کو بھانپ کر افواج پاکستان شروع دن سے ہی چوکنا نہ ہوئی ہوتیں اور اپنی مشّاقی و مہارت سے دشمن کی ہر سازش موقع پر ہی ناکام نہ بناتیں تو ہمارا یہ شاطر دشمن ہمیں کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا۔ اس وقت عساکرِ پاکستان دنیا کی منجھی ہوئی عسکری قوت کے طور پر اقوام عالم میں اپنی جنگی استعداد و مہارت کا لوہا منوا چکی ہیں۔ بھارت کو گزشتہ سال 27, 26 فروری کو اپنے جارحانہ عزائم پر پاک فوج کے ہاتھوں جو ہزیمت اٹھانا پڑی وہ اس کے لیے عبرت کا مقام ہے۔ اس کے باوجود بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف اُس کی سازشوں میں کمی نہیں آئی، جبکہ اُس کی سیاسی اور عسکری قیادتیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھی بڑھکیں مارتی ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فوجوں نے نہتے کشمیریوں پر مظالم کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس بنیاد پر ہمیں ہمہ وقت بھارتی سازشوں اور عزائم سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، جبکہ عساکر پاکستان دشمن کی ہر سازش اور جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے مکمل تیار ہیں اور کنٹرول لائن پر بھارت کو مسکت جواب دے بھی رہی ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں پر بات کی ہے۔ او آئی سی یہ ضرور سمجھے کہ بھارت اور کسی بھی مغربی ملک نے ان خاکوں کی مذمت نہیں کی۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے جان دار اور توانا آواز آنی چاہیے تھی تاکہ ایسے شرپسندوں کو لگام دی جاتی۔ او آئی سی، اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے، پوری مسلمان اُمہ اس کی رکن ہے، اِس لیے مسلمانوں کو جب کبھی اور جہاں کہیں مشکل صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے وہ رہنمائی کے لیے او آئی سی کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوتا ہے بھارت نے کشمیر کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر اپنا حصہ بنا لیا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ آج بھی کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہے اور سیکرٹری جنرل کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اِس مسئلے کا حل عالمی ادارے کی قراردادوں کی روشنی میں نکالا جانا چاہیے، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ بھارت کو اس اقدام سے باز رکھنے کے لیے عالمی ادارے اور دُنیا کی بڑی طاقتوں نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ بھارت نے کشمیر کو ضم کرنے کے بعد اب تک وہاں ظلم و ستم کا بازار گرم کررکھا ہے، انٹرنیٹ اور موبائل فون پر پابندیاں اب بھی عائد ہیں، انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، بھارت سے غیر کشمیریوں کو لالاکر ریاست میں آباد کیا جارہا ہے، سابق فوجیوں کے لیے خصوصی کالونیاں بنائی جارہی ہیں، غیر کشمیریوں کو جائدادیں خریدنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور اُنہیں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے جارہے ہیں۔ اِن تمام اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کی مسلم اکثریت کی واحد ریاست میں آبادی کا تناسب غیر مسلموں کے حق میں کردیا جائے۔ ریاست کی گھریلو صنعتوں اور زراعت کو برباد کردیا گیا ہے، مضبوط معیشت کی حامل اس ریاست کو دانستہ معاشی طور پر تباہ کیا جارہا ہے۔ یہ تمام حالات اور اقدامات اِس بات کے متقاضی ہیں کہ عالمی ادارے اور بڑی طاقتیں اس جانب توجہ کریں۔ پاکستان نے بجا طور پر او آئی سی سے امیدیں وابستہ کررکھی ہیں، وزیر خارجہ نے درست کہا تھاکہ قراردادوں میں پتا چل جائے گا کہ کشمیر کے مسئلے پر غور ہوا یا نہیں۔ اب پاکستان کی پارلیمنٹ اور پارلیمانی جماعتیں او آئی سی میں منظور ہونے والی قرارداد کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ یہ کشمیر پر ہماری قومی ضرورت کس حد تک پوری کررہی ہے۔
nn