اہلِ عرب میں اشعب نامی ایک صاحب (متوفی 154ھ) لالچی ہونے میں بہت مشہور تھے، یہاں تک کہ ان کا لقب ’’طامع‘‘ (لالچی) مشہور ہوگیا اور وہ حرص و طمع کے معاملے میں ضرب المثل بن گئے ہیں۔ جب کسی شخص کے بارے میں یہ کہنا ہو کہ وہ بہت لالچی ہے تو کہتے ہیں کہ ’’وہ تو اپنے وقت کا اشعب ہے‘‘۔ یا ’’یہ تو اشعب سے بھی بڑھ گیا‘‘۔ عربی زبان کے یہ جملے بہت سنے تھے۔ آج خطیبؒ کی تاریخِ بغداد میں ان کے کچھ واقعات نظر پڑ گئے، ضیافتِ طبع کے لیے حاضر ہیں۔
(1) اصمعیؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ بچے اشعب کے پیچھے لگ گئے اور اسے طرح طرح سے ستانے لگے، اشعب عاجز آگیا تو اس نے بچوں سے کہا:
’’ارے جائو، سالم بن عبداللہ کھجوریں بانٹ رہے ہیں‘‘۔
بچے یہ سن کر حضرت سالمؒ کے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ اشعب نے یہ دیکھا تو خود بھی بچوں کے پیچھے دوڑنا شروع کردیا کہ ”کیا خبر یہ بات سچ ہی ہو اور سالمؒ واقعی کھجوریں بانٹ رہے ہوں‘‘۔
(2) ضخاک کہتے ہیں کہ اشعب طماع کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جو (فروخت کرنے کے لیے) تھال بنارہے تھے۔ اشعب نے ان سے کہا:
’’ذرا بڑے بڑے بنائو‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ہوسکتا ہے کوئی شخص کبھی انہی تھالوں میں سے میرے واسطے کوئی تحفہ ہدیہ لے کر آئے‘‘۔
(3) اشعب خود کہتے ہیں کہ ’’جب بھی میں کسی جنازے میں شریک ہوا اور وہاں دو آدمیوں کو سرگوشی کرتے دیکھا تو ہمیشہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید مرنے والا میرے لیے کوئی وصیت کرکے گیا ہے اور اسی کے سلسلے میں بات کررہے ہیں۔
(مفتی محمد تقی عثمانی۔ ”تراشے“)