٭جو (بادشاہ) اپنی رعایا کے دل خراب کرتا ہے وہ پھر خواب ہی میں اپنی مملکت کو آباد دیکھتا ہے، (اُس کی مملکت ویرانی کا شکار ہو جاتی ہے)۔ ٭ظلم و ستم سے خرابی اور بدنامی حاصل ہوتی ہے، جو پیش بین و دور اندیش ہے وہ اس بات کو غور و فکر سے پوری طرح سمجھ لیتا (اور اس سے بچتا) ہے۔ ٭رعایا کو بیداد (ظلم و ستم) سے مارنا اچھی بات نہیں، کیونکہ وہ تو سلطنت کے لیے پناہ اور سہارا ہے۔ ٭تُو اپنے دہقان کا خاص دھیان رکھ، کیونکہ خوش دل مزدور کام زیادہ کرتا ہے۔ ٭کسی ایسے شخص کے ساتھ برائی کرنا اچھی بات نہیں جس سے تُو نے بہت بھلائیاں دیکھی ہوں گی۔ ٭میں نے سنا ہے کہ خسرو (پرویز) نے، جب اس کی آنکھیں دیکھنے سے رہ گئیں (غالباً مراد ہے نزع کی حالت) شیرویہ سے کہا کہ تُو جو بھی نیت کرے اس پر قائم رہ، اور رعایا کی فلاح و بہبود پر توجہ رکھ۔ ٭خبردار! کہیں عدل و انصاف اور رائے (دوسروں کے مشورے) سے سر نہ موڑنا، تاکہ رعایا تیرے ہاتھوں سے پائوں نہ موڑلے (یعنی باغی نہ ہوجائے)۔ ٭رعایا ایک ظالم حکمراں سے دور بھاگتی ہے اور اس کا برا نام زمانے میں افسانہ بن جاتا یعنی پھیل جاتا ہے۔ ٭زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ایسا آدمی (حکمراں)، جس نے برائی پر اپنی بنیاد رکھی ہو، اپنی بنیاد اکھیڑ ڈالتا ہے (ظالم حکمراں زیادہ عرصہ حکومت نہیں کرسکتا)۔ ٭ایک شمشیر زن مرد اتنی خرابی پیدا نہیں کرتا جتنی بچے اور عورت (کمزوروں) کے دل کی آہیں کرتی ہیں (کمزوروں کی آہیں ظالم حکمراں کو لے ڈوبتی ہیں)۔ ٭تُو نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ایک بیوہ عورت نے جو چراغ جلایا اس نے ایک شہر ہی کو جلا ڈالا۔ ٭بھلا دنیا میں اس سے بڑھ کر بہرہ ور اور خوش بخت کون ہے یا کون ہوسکتا ہے جس نے حکمرانی میں انصاف کی زندگی بسر کی۔ ٭جب تیرا وقت اس دنیا سے کوچ کرنے کا آئے گا تو (تیرے انصاف کی بنا پر) لوگ تیری قبر پر ترس کھایا کریں گے (انہیں تیرے مرنے پر بہت افسوس ہوا کرے گا)۔ ٭جب برے اور اچھے لوگ دنیا سے گزر جاتے ہیں یعنی سب کو مر جانا ہے تو یہی بہتر ہے کہ تیرے مرنے کے بعد لوگ تیرا نام اچھائی سے لیا کریں۔ ٭تُو کسی خدا ترس (خدا کا خوف رکھنے والے) کو رعایا پر مقرر کر (جو رعایا کے معاملات انصاف سے طے کیا کرے) اس لیے کہ ایک پرہیزگار، متقی آدمی ملک کا معمار ہوتا ہے (ملک کی اچھی تعمیر کرتا ہے اپنے عدل و انصاف سے)۔ ٭وہ جو تیرا فائدہ عوام کو دکھ پہنچانے میں تلاش کرتا ہے، وہ تیرا برا چاہنے والا اور عوام کا خون پی جانے والا ہے۔ ٭مملکت و سلطنت کسی ایسے انسان کے ہاتھ میں ہونا خطا ہے یا بجا نہیں، اس لیے کہ ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں لوگ خدا کے حضور گڑگڑانے لگتے ہیں (ان کی تباہی کی دعا کرتے ہیں)۔ ٭ایک اچھی تربیت پانے والا نیکوکار برائی سے دور رہتا ہے۔ تو جب تُو کسی کی بری تربیت کرے گا تو تُو اپنی جان کا دشمن ہوگا۔ ٭موذی کی مکافات اس کی دلجوئی سے نہ کر، اس لیے کہ (ایسے موذی کی) جڑ تو باغ سے نکال دینی چاہیے (اسے خلق آزادی کا بالکل موقع نہ دینا چاہیے، اسے آغاز ہی میں ختم کردینا چاہیے)۔ ٭تُو کسی ظلم کے رسیا حاکم (گورنر) پر صبر نہ کر (اسے ظلم کی مہلت نہ دے)،اس کے تو موٹاپے کی کھال ادھیڑ دینی چاہیے (اس کے غرور و تکبر اور ظلم کا شروع ہی میں خاتمہ کردینا ضروری ہے)۔ ٭(اس لیے کہ) بھیڑیے کا سر شروع ہی میں کاٹ دینا ضروری ہے، نہ کہ اُس وقت جب اس نے لوگوں کی بھیڑیں پھاڑ کھائیں۔ ٭ایک اسیر تاجر نے کیا خوب بات کہی جب چوروں نے تِیر سے اس کی گردن پکڑلی: جب لٹیرے دلیری و مردانگی کرتے ہیں تو (ان کے مقابلے میں) لشکر کے دلیر اور عورتوں کے گروہ کیا ہیں (دلیری میں ان کی کوئی حیثیت نہیں)۔ ٭جس بادشاہ نے تاجروں کو زخمی کیا اس نے شہر اور فوج پر خیر کا دروازہ بند کردیا۔ ٭دانا لوگ جب رسم بد (یا ظلم و جور کے طور طریقوں) کا شہرہ سنیں گے تو وہ پھر اس طرف ملک میں کیوں جائیں گے؟ (نہیں جائیں گے)۔ ٭تجھے نیک نامی حاصل کرنی اور نیکی قبول کرنی چاہیے تو تاجروں اور قاصدوں و نامہ بروں کا بڑا دھیان رکھ (ان سے اچھا سلوک کر)۔ ٭بزرگ لوگ مسافر کا دل و جان سے دھیان رکھتے ہیں تاکہ وہ دنیا میں ان کی نیک نامی کا شہرہ کریں۔ ٭وہ مملکت بہت جلد تباہ ہو جاتی ہے جس سے کوئی مسافر دل آزردہ ہوکر آئے۔ ٭تو مسافر و پردیسی کا آشنا اور سیاح کا دوست بن، اس لیے کہ سیاح نیک نامی کو دوسروں تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔ ٭تُو مہمان سے اچھا سلوک کر اور مسافر کو عزیز رکھ، تاہم ان کے آسیب سے بھی بچ کر رہ۔ ٭کسی اجنبی سے بچ کے رہنا اچھی بات ہے، اس لیے کہ وہ دوست کے لباس میں دشمن ہوسکتا ہے۔ ٭ایسا پردیسی و مسافر جس کا سر فتنے پر ہو (فتنے کا ارادہ کرنے والا ہو) اسے تُو تکلیف نہ پہنچا بلکہ اسے اپنے ملک سے نکال دے۔ ٭اگر تُو اس پر ناراض نہیں ہوتا تو یہ عین مناسب ہے، اس لیے کہ خود اس کی بدفطرتی دشمن کے طور پر اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ ٭اور اگر اس کا مولد (جائے ولادت) پارس ہو تو پھر اسے صنعا یا سقلاب اور روم (دوسرے ملکوں میں) نہ بھیج۔ ٭وہاں (پارس میں) بھی اسے چاشت تک امن میں نہ رہنے دے تاکہ وہ کسی اور پر مصیبت کھڑی نہ کرے۔٭کیونکہ کہا جاتا ہے کہ وہ سرزمین برگشتہ ہوجائے جہاں سے لوگ اس طرح باہر آتے ہیں (مراد یہ کہ جس دیارمیں اس قسم کے فتنہ پرور ہوں اس کا ختم ہوجانا ہی بہتر ہے)۔ ٭اپنے ندیموں کی قدر میں اضافہ کر، اس لیے کہ اپنے پروردہ سے عذر ممکن نہیں ہوتا۔ ٭جب کوئی خدمت گزار پرانا یا بوڑھا ہوجائے تو اس کے سالانہ حق کو فراموش نہ کر (یہی مراد ہوسکتی ہے کہ اسے باقاعدہ تنخواہ یا پنشن دیتا رہ)۔
(ڈاکٹر قدیر خان۔ جنگ، 28نومبر،2020ء)