معاشی بد حالی ، مھگائی، بے روزگاری اور پاکستان اسیل مل کے ملازمین کا معاشی قتل عام

کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ملک میں معاشی اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی‫ معاشی بدحالی، مہنگائی، بے روزگاری کا شکار ہے۔ جو برسرِ روزگار ہیں وہ بھی سخت حالات سے گزر رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مہنگائی نے عام آدمی کا جینا مشکل کردیا ہے۔ غریب تو کسمپرسی میں پہلے ہی زندگی بسر کررہا تھا، اب متوسط طبقہ بھی بدحال ہوگیا ہے۔ عمران خان کی حکومت کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ برس روزگار فراہم کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا ہے، لیکن روزگار تو کیا فراہم ہوتا جو پہلے سے برسر روزگار ہیں اُن سے بھی روزگار چھینا جارہا ہے، اور لگتا ہے یہ سال حکومت کا روزگار چھیننے کا ہوگا، اور پہلے مرحلے میں حکومت نے اسٹیل ملز کے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو بذریعہ ڈاک برطرفی کے خطوط ارسال کرکے انہیں بے روزگار کرکے اس کا آغاز کردیا ہے۔ اس برطرفی کی زد میں آنے والوں میں اساتذہ، لیکچررز، اسکولوں اور کالجوں کا غیر تدریسی عملہ، ڈرائیورز، فائرمین، آپریٹرز، صحت عامہ اور سیکورٹی اسٹاف، چوکیدار، مالی، پیرا میڈیکل اسٹاف، باورچی، آفس اسٹاف، فنانس ڈائریکٹوریٹ کا عملہ، اے اینڈ پی ڈائریکٹوریٹ اور اے اینڈ پی ڈپارٹمنٹ شامل ہے۔ ان ملازمین کے گھروں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ اس فیصلے سے قبل رواں سال 9 جون کو وفاقی کابینہ نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی تجویز کی منظوری دی تھی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 3 جون 2020ء کے اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز کے 9 ہزار سے زائد ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی سفارش کی تھی اور اس فیصلے کے موقع پر ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے فیصلے کی حمایت کی تھی۔ پاکستان اسٹیل ملز کو بھی اسی طرح تباہ و برباد کیا جارہا ہے جس طرح حکمرانوں نے عالمی کھیل کے مطابق دیگر ادارے تباہ کیے۔ المیہ یہ ہے کہ اس حوالے سے ہر حکومت کا ایک ہی کردار رہا ہے، کیوں کہ بدقسمتی سے برسرِاقتدار آنے والی ہر حکومت کے ملک کے لیے فیصلے اپنے نہیں ہوتے۔ اسٹیل ملز کے حوالے سے آئی ایم ایف کا واضح دبائو رہا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز اسٹیل کی مصنوعات اور خام لوہے سے خالص لوہا نکالنے کی صلاحیت رکھنے والا سب سے بڑا ادارہ تھا، جس کا شمار دنیا میں فولاد سازی کے بڑے اداروں میں ہوتا تھا۔ اس میں 1984ء میں پیداواری عمل شروع ہوا اور اپنے عروج کو پہنچا۔ ملکی معیشت اور ملکی اسٹرے ٹیجک ضرورت میں اس کا اہم کردار رہا۔
اس ادارے نے 2007ء میں 16ارب روپے کا منافع کمایا، لیکن اس کے بعد حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے ادارہ مقروض ہوگیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کی بربادی کا اصل آغاز اُس وقت سے ہوا جب جنرل پرویزمشرف کی حکومت میں یہ پابندی ختم کی گئی جس کے تحت ملک میں کسی بھی ادارے کو لوہا خریدنے کے لیے پہلے اسٹیل ملز کی اجازت کی ضرورت تھی۔ پھر اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں اس کی خرابی میں اضافہ ہوا اور حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ ڈی ڈبلیو جرمن نیوز کے ایک تجزیے کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کو بھٹو کی پہچان کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مگر کئی ماہرین کی رائے میں اسے سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ہی پہنچا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معین آفتاب شیخ اور ریاض لال جی کے آصف علی زرداری سے بہت دوستانہ تعلقات تھے اور ان کی اسٹیل ملز کے معاملات میں مداخلت بہت زیادہ تھی۔ معین آفتاب کو اسٹیل ملز کا چیئرمین مقرر کرنے پر زرداری خاموش رہے۔ اس کے بعد 26 ملین کا اسکینڈل سامنے آیا۔بتایا گیا کہ جب اس معاملے کی چھان بین کا سلسلہ شروع ہوا تو اُس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ نے کارروائی شروع کی۔ تاہم جونہی آصف علی زرداری کے قریبی لوگوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو طارق کھوسہ کو تبدیل کر دیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم نے بھی کوشش کی کہ اس کیک میں سے اپنا حصہ لے سکےٍ لیکن اسے بہت زیادہ کامیابی نہ مل سکی۔ بعد ازاں اسحاق ڈار نواز حکومت میں اس منظرنامے پر ابھرے۔ الزام ہے کہ انہوں نے پانچ سال تک کوئی پلان نہیں بنایا۔ واضح رہے کہ اسحاق ڈار نوازشریف کے سمدھی ہیں، تو ان سے یہی توقع کی جاسکتی تھی، اور اس حوالے سے نوازشریف پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اسٹیل کے اپنے ذاتی کاروبار کو تقویت دینے کے لیے پاکستان اسٹیل ملز کو بہتر کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دی، جب کہ نوازشریف نے بھی پُرجوش انداز میں 2013ء میں دعویٰ اور وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان اسٹیل ملز کو چلا کر دکھائیں گے۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ 2015ء میں پاکستان اسٹیل ملز کی پیداوار بند ہوگئی، جس کے بعد سے اسٹیل ملز میں خسارہ اور نقصان بڑھتا چلا گیا، اور اُن کے دور میں اسٹیل ملز کو ہر سال نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کو پیپلز پارٹی کے (2008ء…2013ء) دور میں 100 ارب روپے، مسلم لیگ (ن) کے دور (2013ء…2018) میں ایک سو چالیس ارب روپے اور عمران خان کے اب تک کے دور میں 55 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی انتخابی مہم کے دوران پاکستان اسٹیل ملز کے سلسلے میں بلند بانگ دعوے کیے تھے، ان میں ایک دعویٰ اسٹیل ملز کی بحالی کا بھی تھا۔ تحریک انصاف کے اسد عمر نے کئی بار اسٹیل ملز کی بحالی اور اسے دوبارہ چلا کر دکھانے کے عزائم کا اظہار بھی کیا تھا، انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’میری ویڈیو ریکارڈ کرلیں تاکہ اگر میں اپنے بیان سے پیچھے ہٹوں تو کل آپ مجھے یہ دکھاکر شرمندہ کرسکیں، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت آئی اور اسٹیل ملز کے مزدوروں کے خلاف کوئی فیصلہ کیا گیا تو میں تحریک انصاف کے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیل ملز کے مزدوروں کے ساتھ کھڑا رہوں گا‘‘۔ آج صرف اسد عمر ہی نہیں، پوری تحریک انصاف اپنے وعدوں اور دعووں کے حوالے سے کہاں پر کھڑی ہے، اس بارے میں کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے اور ہماری تاریخ کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ فولاد سازی کے حوالے سے ملک کے اس بڑے ادارے کو ہر فوجی و سیاسی حکومت نے تختہ مشق بنائے رکھا اور اس کی تباہی میں اپنا اپنا مجرمانہ کردار ادا کیا ہے، نوبت باایں جا رسید!!
جماعت اسلامی سمیت ملک، عوام اور ملازمین کا درد رکھنے والی ہر جماعت اور ہر طبقہ اس صورت حال پر تشویش میں مبتلا ہے۔ جماعت اسلامی نے اسٹیل ملز کی مخدوش صورت حال اور ملازمین کی برطرفی کو بجا طور پر قابلِ مذمت اور شرمناک عمل، اور ملازمین کا معاشی قتل عام قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ملازمین کو فارغ کرنے کے خلاف تحریک التواء سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دی ہے۔ تحریک التواء سینیٹ کے قواعد و ضوابط مجریہ 2012ء کے قاعدہ 85 کے تحت جمع کرائی گئی ہے۔ تحریک التواء میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کے چار ہزار پانچ سو سے زائد ملازمین کو اپنی ملازمتوں سے فارغ کردیا ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ ترجمان پاکستان اسٹیل ملز کی طرف سے برطرفی کی 27 نومبر 2020ء کو پریس ریلیز جاری کی گئی ہے۔ تحریک التواء میں مزید کہا گیا ہے کہ ترجمان پاکستان اسٹیل ملز کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق گروپ ii,iii,iv,jo,sکے ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے۔ اور اسی طرح AMاورDMکے ملازمین کو بھی فارغ کیا جارہا ہے۔ DCE,SE,DGM,Managersکو فارغ کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے پریس ریلیز کے مطابق برطرفی کے انفرادی خط تمام ملازمین کو محکمہ ڈاک کی رجسٹرڈ پوسٹ کے ذریعے بھیجے جارہے ہیں۔ تحریک التواء میں وفاقی وزیر حماد اظہر کے اسٹیل ملز کے حوالے سے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ95 فیصد ملازمین کو فارغ کردیا جائے گا۔ سینیٹر سراج الحق نے تحریک التواء میں کہا ہے کہ حکومت کا مذکورہ اقدام ہزاروں خاندانوں کا معاشی قتل اور ان کے لیے انتہائی صدمے کا پیغام ہے۔ تحریک التواء میں قومی اہمیت کے حامل اس انتہائی اہم اور فوری نوعیت کے معاملے کو زیربحث لانے کے لیے ایوان کی معمول کی کارروائی روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی ملازمین کی جبری برطرفی کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت قومی ادارے اسٹیل ملز کو چلانے کا روڈمیپ دے اور برطرف تمام ملازمین کو فوری بحال کیا جائے، جماعت اسلامی پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کے ساتھ کھڑی ہے، ملازمین کے حقوق کے لیے پہلے بھی قانونی و سیاسی جنگ لڑی ہے، آئندہ بھی ملازمین کے حقوق اور ادارے کی بحالی کی جدوجہد جاری رہے گی۔ یہ پریس کانفرنس پاسلو یونین کے عہدیداران کے ہمراہ تھی۔ اس موقع پر نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، امیر ضلع ملیر و اسٹیل ملز بحالی کمیٹی کے نگراں محمد اسلام، سابق صدر پاسلو یونین و سیکریٹری اطلاعات جماعت اسلامی کراچی زاہد عسکری، پاکستان اسٹیل لیبر یونین (پاسلو) کے صدر عاصم بھٹی، جنرل سیکریٹری پاسلو یونین علی حیدر گبول، دی آرگنائزیشن آف پاکستان اسٹیل آفیسرز (ٹاپس) کے جنرل سیکریٹری ملک جہانگیر و دیگر بھی موجود تھے۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی وزیر حماد اظہر کا ملازمین کو 23لاکھ روپے دینے کا اعلان مذاق کے مترادف ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً ڈھائی ہزار ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ اور ڈھائی سے تین لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اسٹیل ملز میں سیاسی بھرتیاں کرکے ادارے کو مالی خسارے میں مبتلا کیا اور نون لیگ نے گیس بند کرکے اسے تباہ کیا، اور اب پی ٹی آئی بھی اسٹیل ملز کی بحالی کے بجائے اس کے ملازمین کو فارغ کرکے ہزاروں خاندانوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز قومی ادارہ ہے، پاکستان اسٹیل کے قیام پر 25ارب روپے لاگت آئی تھی، یہ 2001ء سے 2008ء تک مسلسل منافع بخش ادارہ رہا، قومی خرانے میں اربوں روپے کی رقم ٹیکسوں کی مد میں جمع کرائی گئی۔ لیکن سیاسی بھرتیوں، حکمران پارٹیوں کی مداخلت اور بدعنوانی کے باعث ادارہ تباہ ہوگیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اسٹیلز مل کے دروازے پر ملازمین سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو ایک بار پھر سے نفع بخش ادارہ بنایا جائے گا، لیکن آج انہوں نے ہی ملازمین کو
(باقی صفحہ41پر)
برطرف کردیا اور ہزاروں خاندانوں کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا۔ جبری برطرفی ہزاروں ملازمین کا معاشی قتل اور سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے دیگر وعدوں اور دعووں کی طرح پاکستان اسٹیل ملز کو بحال کرنے، ملازمین کے روزگار کو تحفظ دینے اور ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کرنے کے وعدوں کو بھی پورا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہماری عدالت ِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس سنگین صورت حال کا نوٹس لیں اور غریبوں کو بے روزگار ہونے سے بچایا جائے، اور جن لوگوں کو فارغ کردیا گیا ہے، انہیں بحال کیا جائے، اس سے قبل بھی سپریم کورٹ نے نجکاری کو کالعدم قرار دیا تھا۔ عاصم بھٹی نے کہا کہ حکومت پہلے مرحلے میں 4544ملازمین اور اگلے مرحلے میں ساڑھے تین ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ان میں سے کئی ملازمین کی مدت ملازمت میں ابھی 30سے 40برس باقی ہیں، اسٹیل ملز کے حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں کیس چل رہا ہے، ایسے میں ملازمین کو نکالا نہیں جاسکتا، عدالت نوٹس لے، وفاقی حکومت نکالے گئے ملازمین اور پاکستان اسٹیل ملز کو فی الفور بحال کرے اور ہزاروں خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ ختم نہ کیا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملکی اثاثہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا سب سے بڑا اسٹرے ٹیجک ادارہ ہے، اس ادارے کو ٹھیک طور پر چلانے کے لیے سنجیدہ قدم اٹھانا ناگزیر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اسٹیل ملز کو تباہ کرنے والوں کا احتساب کرے، پُرفارمنس آڈٹ کروائے اور PF گریجویٹی کے 26ارب روپے لوٹنے والوں سے رقم وصول کرے، انتظامی اور ٹیکنیکل عہدوں پر ایڈہاک ازم کا خاتمہ کرکے مستقل بنیادوں پر قابل ماہرین اور غیر سیاسی افراد کا تقرر یقینی بنائے۔
عالمی حالات کے پس منظر میں بھی اگر دیکھا جائے تو پی آئی اے، پاکستان ریلوے اور پاکستان اسٹیل ملز ریاست کے اسٹرے ٹیجک نوعیت کے اہم قومی ادارے ہیں، انہیں کسی طور پر بھی نجی تحویل میں دینا ملک دشمنی سے کم نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا تھا کہ ”کراچی اور بلوچستان میں بجلی ممبئی سے کنٹرول ہوتی ہے“۔ اس لیے اس میں اب کیا شک رہ گیا ہے کہ باقی ادارے بھی انڈیا یا غیر ملکی کنٹرول میں ہیں! لہٰذا حکومت ہوش کے ناخن لے اور ان اداروں کو قومی تحویل میں رکھتے ہوئے ملازمین کا تحفظ کرے۔ یہی پاکستان اور اہلِ پاکستان کی ضرورت ہے، ورنہ اس حکومت کا بھی حکمرانی کرنے کا کوئی جواز باقی رہنا ہی نہیں چاہیے۔ ان اداروں کی نجکاری قومی مفاد میںنہیں ہو گی۔