پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے پکڑ دھکڑ مقدمات اور کنٹینروں سمیت ہر طرح کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے پیر کے روز ملتان میں اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کر کے دکھا دیا… اس پہلے سے اعلان شدہ جلسہ سے قبل حکومت نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ عقل و شعور، فہم و فراست اور حکمت و تدبر نام کی کوئی چیز ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو چھو کر نہیں گزری، ایک ہفتہ سے ملتان جس طرح میدان جنگ بنا ہوا تھا، سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کی اندھا دھند گرفتاریوں، مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ کا جو بازار گرم تھا، کوئی بھی صاحب بصیرت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کا جواز آخر کیا تھا، حزب اختلاف کا اتحاد پی ڈی ایم اس سے قبل مختلف شہروں میں چار جلسے کر چکا تھا، پانچواں بھی ہو جاتا تو کیا فرق پڑتا، حکومت کی طرف سے کورونا کے تیز رفتاری سے پھیلائو کا بہانہ بنایا گیا جسے تسلیم کرنے سے حزب اختلاف کے قائدین نے انکار کر دیا جس کے بعد حکومت نے سرکاری طور پر جلسے کی اجازت نہ دینے اور جبراً اسے روکنے کی حکمت عملی کا اعلان کیا۔ حالانکہ حکومت کو ’کورونا‘ کعے خطرے کے انتباہ کے بعد فیصلہ عوام اور قائدین حزب اختلاف پر چھوڑ دینا چاہئے تھا مگر فریقین نے اس معاملہ کو انا کا مسئلہ بنا لیا حکومت اگر کسی صورت جلسہ نہیں کرنے دیں گے، کے اعلانات کر رہی تھی تو حزب اختلاف کی قیادت ’’جلسہ ہر صورت‘‘ ہو گا، پر بضد تھی، حالانکہ ان کے پاس بھی جلسہ کو ملتوی کرنے کا معقول جواز موجود تھا، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خود کورونا کے شکار ہو کر قرنطینہ میں وقت گزار رہے ہیں اور اس سبب سے اپنی بہن بختاور زرداری کی منگنی کی تقریب تک میں براہ راست شرکت نہیں کر سکے اسی طرح پیپلز پارٹی کے کئی دیگر رہنما بھی ’کورونا‘ کے شکار بتائے گئے دوسری جانب مریم نواز کی دادی کے انتقال اور تدفین کا غم بھی ابھی بالکل تازہ تھا مگر انہوں نے اپنے والد سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی ہدایت پر جلسے میں شرکت کو اپنی دادی کی مجلس غم میں تعزیت کے لیے آنے والوں سے ملاقات پر ترجیح دی۔ پیپلز پارٹی نے بھی بلاول کی عدم دستیابی کے سبب ان کی چھوٹی بہن آصفہ کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی سیاسی مخاصمت کی تمام حدوں کو عبور کرتے ہوئے حکومتی اقدامات کو دہشت گردی قرار دے کر کارکنوں کو تمام رکاوٹیں توڑ کر جلسہ گاہ پہنچنے کا حکم دیا اور اس حد تک چلے گئے کہ کارکنوں کو ڈنڈے اٹھانے کی ہدایت اور اجازت بھی دے دی۔
اس شدید کشیدگی کے عالم میں پیر کے روز جلسے کو روکنے کے لیے ملتان میں صبح سویرے ہی انتظامات شروع کر دیئے تھے۔ پولیس کے تین ہزار سے زائد جوانوں نے شہر میں اپنی پوزیشنیں سنبھالے رکھیں، پولیس کو ربڑ کی گولیاں آنسو گیس کے شیل اور واٹر کین کے ساتھ چوک گھنٹہ گھر کو چاروں طرف سے گھیرے رکھا کہ اچانک آئی جی پنجاب کی جانب سے صبح گیارہ بجے کے بعد وائرلیس پر پیغام دیا گیا کہ پی ڈی ایم کے مرکزی رہنمائوں کو ریلی نکالنے دی جائے ان کے تمام راستوں میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں جس کے بعد جلسہ میں شرکت کے لیے آنے والے مرکزی رہنمائوںآصفہ بھٹو زرداری، سید یوسف رضا گیلانی، مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کے قافلے کو نہ روکا گیا اور یوں جس جلسہ کو حکومت کئی روز سے کسی صورت نہ کرنے دینے کے اعلانات کر رہی تھی وہ خود حکومت کی پسپائی کے نتیجے میں حزب اختلاف منعقد کرنے میں کامیاب رہی…!
سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کو آخری وقت پر ہتھیار ڈال کر پی ڈی ایم کو جلسہ کرنے کی اجازت دے ہی دینا تھی تو سیاسی فضا میں اس قدر کشیدگی پیدا کرنے اور جلسہ سے کئی روز پہلے سے عام آدمی کو پریشان اور اذیت میں مبتلا کرنے اور بدنامی مول لینے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ صورت حال حکمرانوں اور انتظامیہ کی نا اہلی، بدانتظامی اور حالات کا درست ادراک نہ کرنے کا واضح ثبوت ہے… حکومت ذرا سی سیاسی دانش کا مظاہرہ کرتی، اور سیاسی تنائو کی اس شدید کیفیت سے بآسانی بچا جا سکتا تھا…!
جلسہ میں پی ڈی ایم کے رہنمائوں کی تقریریں اور ان کا لب و لہجہ یقینا بہت سخت تھا پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے جو منجھے ہوئے سیاست دان ہیں کی زبان سب سے زیادہ سخت تھی، انہوں نے کارکنوں کو ڈنڈا اٹھانے کی سراسر غیر سیاسی اور متشددانہ ہدایت پر کسی قسم کی معذرت کی بجائے اسے اپنی کامیابی کا راز قرار دیا اور کہا کہ ہم نے ڈنڈا دکھایا تو حکمران دم دبا کر بھاگ گئے۔ یہ ان کی اوقات ہے، شرم ہو تو چلو بھر پانی میں ڈوب مریں۔ ہم نے ڈکٹیٹروں کا براہ راست مقابلہ کیا ہے، عمران کیا اور اس پدی کا شوربا کیا، ہم نے ملک کے ہر مسئلہ سے اسے لا تعلق
کر دیا ہے جب تک یہ گیدڑ دم دبا کر ملک نہیں چھوڑے گا ہم اس کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے تاج اچھالنے اور تخت گرانے کا دعویٰ کرتے ہوئے تیرہ دسمبر کو لاہور میں اعلان کردہ پی ڈی ایم کے جلسہ کو عمرانی اقتدار کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا۔ ملتان میں حکومت کے طرز عمل کے خلاف جمعہ اور اتوار کو ملک بھر میں مظاہروں کا اعلان بھی کیا۔ جلسے میں میں مریم نواز، آصفہ بھٹو زرداری، اختر مینگل، یوسف رضا گیلانی، میاں افتخار ، محمود خاں اچکزئی پروفیسر ساجد میر اور آفتاب شیر پائو سمیت دیگر تمام رہنمائوں کی تقریروں کا لب و لہجہ بھی خاصا تلخ اور جارحانہ رہا۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاست میں اس طرح کے تصادم، تلخی اور شدت کا فائدہ کبھی عوام اور جمہوریت کو نہیں پہنچا۔ سیاست دانوں کے ایسے باہمی تصادم کے نتیجے میں ماضی میں ملک میں چار بار براہ راست فوجی مارشل لاء مسلط ہوا جب کہ اتنی ہی بار سول حکومتوں کی جانب سے جزوی مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ اس لیے ہمارے سیاست دانوں خواہ وہ حکومت میں ہیں یا حزب اختلاف، ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہوش کے ناخن لینا چاہئیں، ملک کو تصادم اور تشدد کی راہ پر لے جانے سے گریز کرنا چاہئے… اولاً تو حزب اختلاف کو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کورونا کے شدید خطرے کا احساس کر کے اپنی احتجاجی سیاست کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دینی چاہئے اور اگر حزب اختلاف کسی طور اس پر آمادہ نہ ہو تو برسراقتدار طبقہ کو حکمت اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظامی طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے کہ ملک کو عدم استحکام سے دو چار ہونے سے بچانا بہرحال زیادہ ضروری ہے۔
nn