سی پیک، گوادر اور بلوچستان کے ترقیاتی منصوبےچمن سرحدی گیٹ پر بدامنی کے واقعات

یقیناً چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کا محرک دراصل گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ ہے۔ گوادر آئندہ چند سال میں ایک جدید اور بین الاقوامی شہرت و اہمیت کا حامل تجارتی و اقتصادی شہر ہوگا۔ اس لحاظ سے اس کے اڑوس پڑوس کے اضلاع کے اندر بھی ترقی کی نئی صورت پیدا ہوگی۔ وفاقی حکومت اپنے وژن کے تحت بلوچستان کے جنوبی اضلاع کے لیے سردست 600 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کرچکی ہے، جس کے تحت وہ ان اضلاع کو صوبے اور ملک کے دیگر حصوں اور شہروں سے جوڑنے کی خاطر شاہراہوں کی تعمیر کے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے اور آئندہ کی ترجیحات کی دعویدار بھی ہے۔ چناں چہ اس تناظر میں بلوچستان اسمبلی کے اندر صوبے کے شمالی اضلاع پر توجہ اور پیکیج کے اعلان کے لیے آواز اٹھی ہے۔ عالم یہ ہے کہ شہر کوئٹہ صوبے کا دارالحکومت ہونے کے باوجود اب تک گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ ماضی اور حال میں مختلف مدات میں کثیر رقوم شہر کی ترقی، مسائل کے حل اور ضروریات کے لیے رکھی گئیں، مگر برسرِ زمین نتیجہ مایوس کن ہے۔ چند شاہراہوں پر بار بار مختلف ترقیاتی اور تزئین و آرائش کے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں، جبکہ باقی غالب شہر دن بہ دن بدتر و بدصورت ہوتا جارہا ہے۔
ترقیاتی پیکیج کے ضمن میں بلوچستان اسمبلی کے24نومبر کے اجلاس میں اراکین نے شمالی اضلاع کے لیے بھی خصوصی پیکیج دینے کا مطالبہ کیا۔ حزبِ اختلاف کے اراکین کے بقول رواں سال کے پی ایس ڈی پی تک کی تقسیم منصفانہ نہیں ہوئی ہے، جس کی وجہ سے بالخصوص حزبِ اختلاف کے اراکین کے علاقے ترقیاتی عمل سے محروم ہیں۔ البتہ حکومتی اراکین میر ظہور بلیدی اور انجینئر زمرک اچکزئی بتا چکے ہیں کہ اوّل تو وفاقی پی ایس ڈی پی میں ژوب، کچلاک، کوئٹہ، زیارت، چمالنگ سمیت مختلف منصوبوں کے لیے فنڈز رکھے گئے ہیں۔ نیز وزیراعظم نے شمالی اضلاع کے لیے بھی پیکیج دینے کا وعدہ کیا ہے۔
27 نومبر کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر حمل کلمتی، ملک نصیر شاہوانی، اختر حسین لانگو اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے نے ایوان میں مشترکہ قرارداد پیش کی، جس میں کہا گیا کہ بلوچستان بالخصوص ضلع گوادر کے لوگوں کی جدی پشتی زمینیں حکومت کی جانب سے سرکاری قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اس عمل سے وہاں کے لوگ اضطراب اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ حکومت سے فیصلے پر نظرثانی کا کہا گیا۔ حمل کلمتی نے قرارداد پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ گوادر میں لوگوں کی زمینیں سرکاری ملکیت ظاہر کی جارہی ہیں، جبکہ حقیقت میں وہاں سرکار کی ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔ یہ زمینیں مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ گوادر میں وہاں کے مقامی لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کیا جارہا ہے، اور مختلف سرکاری محکموں کو ہزاروں ایکڑ زمینیں الاٹ کی گئی ہیں۔ جو زمین فری زون کے لیے مختص کی گئی ہے، وہاں مقامی آبادی کو لینڈ ایکوزیشن کے تحت منتقل کرکے انتہائی قلیل معاوضے دیے گئے ہیں۔ قائد حزبِ اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ1978ء سے2000ء تک جو زمینیں سرکاری ہیں وہ سرکار کی ملکیت ہیں، اور جو مقامی قبائل کی ہیں وہ وہاں کے لوگوں کی ملکیت ہیں۔ 2002ء سے سیٹلمنٹ کا سلسلہ شروع ہو۔ لہٰذا اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کیا جائے۔ ایسے مسائل کوئٹہ کے مضافات کے قبائل کے افراد کو بھی درپیش ہیں۔ حزبِ اختلاف نے اسمبلی اجلاسوں میں وزرا کی عدم دلچسپی پر بھی اعتراض اٹھایا ہے۔ حکومت کی توجہ صوبے کے مسائل پر ہمہ وقت ہونی چاہیے۔
پاک افغان سرحدی شہر چمن میں29نومبر کو پھر ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہے۔ سرحدی گیٹ پر تعینات ایف سی اہلکاروں کے ساتھ چھوٹے اسمگلروں (لغڑیوں ) کی تلخ کلامی ہوئی،جس کے بعد پتھرائو شروع ہوا۔ پتھرائو کے جواب میں ایف سی اہلکاروں نے فائر کھول دیا، جس کی زد میں آکر 9افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں لغڑی اور عام راہگیر بھی شامل تھے۔ دو زخمی بعد ازاں دورانِ علاج چل بسے۔ جلائو گھیرائو بھی ہوا جس کے دوران سرحد پر زیر تعمیر بارڈرٹرمینل میں ہجوم نے گھس کر لوٹ مار کی۔ دوسرے روز بھی جلائو گھیرائو اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا جس میں مشتعل ہجوم اور ایف سی اہلکاروں کے درمیان جھڑپ میں مزید12افراد زخمی ہوئے۔ پیش ازیں روا ں سال 30جولائی کو بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا جس میں 6 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ جلائو گھیرائو کے دوران بھاری نقصان پہنچایا گیا، سرکاری املاک کو نذرِ آتش کیا گیا۔ افغان فورسز پاکستانی حدود میں گھس آئی تھیں۔ پاکستانی فورسز نے جوابی کارروائی شروع کی تو افغان فورسز پیچھے چلی گئیں۔ بعد ازاں رات کو دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں اطلاعات کے مطابق وہاں 15 افغان باشندے جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔یعنی پچھلے واقعے کے ہمہ پہلو تحقیقات نہ ہوسکیں۔ چناں چہ اب ضروری ہے کہ اس طرح کے واقعات کے تدارک کے لیے پچھلی اور حالیہ گڑبڑ کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہو، عوامل اور محرکات سامنے لا ئے جائیں۔ غفلت کے مرتکب وقصور وار افراد کو منظر عام پر لایا جائے خواہ وہ ایف سی حکام ہی ہوں۔یقینا ایسے عناصر موجود ہیں جو جان بوجھ کر اس اہم سرحدی شہر میں حالات خراب کرنے کے درپے ہیںاورپچھلی مرتبہ حالات کی خرابی میں ان عناصر کے ہاتھ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
حالیہ واقعے سے دو دن قبل یعنی 27 نومبر کو چمن میں پشتون تحفظ موومنٹ کا جلسہ ہوا جس میں انتہائی نامناسب،غیر شائستہ اوراشتعال انگیز تقاریر ہوئیں، اورتبرملا عوام کو فورسز کے خلاف اکسانے کی کوشش کی گئی۔
nn