تصنیف وتالیف: محمد ناصر
انتخاب، تدوین و تلخیص: محمود عالم صدیقی
آزادی کے عظیم مجاہدین میں سے ایک عظیم مجاہد حاجی صاحب ترنگ زئی ہیں۔ آپ ایک داعیِ حق، عالمِ باعمل، صوفی اور روحانی پیشوا، معلمِ اخلاق، مصلحِ قوم اور تحریکِ آزادی کے عظیم مجاہد تھے۔ آپ نے برسوں انگریز جیسی بڑی قوت کو سرحد، قبائلی علاقوں اور افغانستان میں عملاً جہاد کے ذریعے ناکوں چنے چبوا دیے اور خطے میں ان کے قدم نہ جمنے دیے۔
حاجی صاحب ترنگ زئی مرحوم کی شخصیت اور ان کی جدوجہدِ آزادی، اصلاحِ معاشرہ اور احیائے اسلام کے لیے کوششوں کا ’’حاجی صاحب ترنگ زئی‘‘ نامی کتاب میں بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب سرِدست دستیاب نہیں۔ نئی نسل کو اپنے تاریخی ورثے سے روشناس کرانے کے لیے اسے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
حاجی صاحب ترنگ زئی، عزیز جاوید پبلشر: ادارۂ تحقیق و تصنیف پاکستان، پوسٹ بکس نمبر388، جی پی او پشاور۔ صفحات: 560، اشاعت فروری 1982ء)۔
اس کے مطالعے سے جہاں ان کی عظیم شخصیت اور تاریخ ساز کردار سامنے آتا ہے، وہیں آج امتِ مسلمہ بالخصوص مسلمانانِ پاکستان و افغانستان کو ’’دہشت گردی‘‘ کی جنگ کے نام پر جس امریکی جارحیت اور سفاکی کا سامنا ہے، ایک نیا عزم اور ولولہ ملتا ہے کہ اگر کل بے سروسامانی کے ساتھ جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا جاسکتا ہے تو آج جب کہ ہم آزاد ہیں یقیناً اس جدوجہد کو زیادہ مؤثر انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں۔ امریکہ کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ملت جو حاجی صاحب ترنگ زئی جیسے تاریخ ساز کردار کی حامل ہو، اسے غلام بنانا کوئی آسان کام نہیں۔
…………
برعظیم پاک و ہند کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ مسلمانانِ ہند نے انگریز کی غلامی کو ذہنی طور پر کبھی قبول نہیں کیا، اور آزادی، اسلامی حکومت کے قیام اور احیائے اسلام کے لیے بڑی سے بڑی قربانیاں دینے سے دریغ نہیں کیا۔ بنگال کا سراج الدولہ وہ پہلا عظیم مجاہد ہے جس نے جنگِ پلاسی سے جنگِ آزادی، انگریز جارحیت اور سامراجی عزائم کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس کے بعد ٹیپو سلطان، بخت خان، احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہؒ، سید احمد شہیدؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، 1857ء کی جنگِ آزادی، علمائے دیوبند کا کردار اور مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد، مجاہدینِ آزادی کی ایک اور لازوال داستان ہے قربانیوں کی۔ دوسری طرف ہر جارح قوت کی طرح انگریز کے مظالم، ظالمانہ قوانین، قید و بند، جائداد کی ضبطی، سولی پہ لٹکانا، دولت کا لالچ دے کر ضمیر خریدنا، غداری پر آمادہ کرنا، جنگ مسلط کرنا، قتل و غارت اور خونریزی، بمباری اور فضائی حملے ہیں۔ آج بھی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی آڑ میں افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ایک بار پھر ایسی ہی جارحیت اور سفاکی کا سامنا ہے۔
آزادی کے عظیم مجاہدین میں سے ایک عظیم مجاہد حاجی صاحب ترنگ زئی ہیں۔ آپ ایک داعیِ حق، عالمِ باعمل، صوفی اور روحانی پیشوا، معلمِ اخلاق، مصلحِ قوم اور تحریکِ آزادی کے عظیم مجاہد تھے۔ آپ نے برسوں انگریز جیسی بڑی قوت کو سرحد، قبائلی علاقوں اور افغانستان میں عملاً جہاد کے ذریعے ناکوں چنے چبوا دیے اور خطے میں ان کے قدم نہ جمنے دیے۔
حاجی صاحب ترنگ زئی کا اصل نام فضل واحد اور والدِ ماجد کا نام فضل احمد تھا۔ آپ کی پیدائش 1846ء میں بمقام ترنگ زئی ضلع چارسدہ صوبہ سرحد میں ہوئی۔ سکھ غلبے کے دوران علاقے کے عوام نے حاجی صاحب کے جدِّ اعلیٰ پیر سید رستم شاہ کی معیت میں سید احمد شہیدؒ کی قیادت میں سرحد میں اسلامی سلطنت کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ آپ کے والدِ محترم پیر فضل احمد شاہ نے 1857ء میں انگریزی اقتدار کے خلاف سخت مزاحمت کی، اور لوگوں کو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اخلاقی و روحانی تعلیم کا درس دیتے رہے۔
حاجی صاحب ترنگ زئی نے ابتدائی تعلیم ترنگ زئی میں اُس وقت کے مشہور عالمِ دین مولانا ابوبکر اخوندزادہ اور مولانا محمد اسماعیل سے حاصل کی۔ اس کے بعد تہکال کے ایک مدرسے میں داخلہ لیا اور باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ یہیں انہیں برعظیم کے معروف علماء سے رابطے کا موقع بھی میسر آیا۔ اس مدرسے کے مہتمم کا تعلق بھی ولی اللّٰہی تحریک سے تھا جو ہندوستان میں احیائے اسلام اور انگریزوں سے آزادی کے لیے جدوجہد کررہی تھی۔ ان کی تربیت کے نتیجے میں حاجی صاحب میں خودداری، حریتِ فکر، جذبۂ ہمدردی و ایثار اور قربانی کے جوہر نمایاں ہوئے اور احیائے اسلام کی تحریکِ ولی اللّٰہی سے روشناس ہوئے۔ 6 سال تک زیر تعلیم رہنے کے بعد آپ اپنے گائوں ترنگ زئی چلے گئے، جہاں عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کا کام کرنے لگے۔
ابتدا ہی سے ان کی طبیعت تصوف کی طرف مائل تھی۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد عبادت و ریاضت میں بہت زیادہ منہمک ہوگئے، چلّہ کشی بھی کی اور کسی مرشد کی تلاش میں بھی رہے۔ چنانچہ آپ نے جلال آباد افغانستان کے مشہور روحانی رہنما حضرت نجم الدین عرف ہڈہ ملّا کے ہاتھ پر ہڈہ نامی گائوں میں جاکر بیعت کی۔ وہ سلوک اور تصوف کے بلند مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ انگریز کے خلاف طویل جہاد کی شہرت کے حامل بھی تھے۔ حاجی صاحب ترنگ زئی کے نام سے شہرت پانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ شاید ترنگ زئی میں آپ پہلے شخص تھے جسے حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اُس زمانے میں حج انتہائی دشوار گزار عمل تھا اور حاجی ہونا ایک اعزاز تھا، جبکہ حاجی صاحب خود عالمِ دین اور ترنگ زئی سلسلہ قادریہ نقشبندیہ کے روحانی پیشوا بھی تھے۔
سید احمد شہید کی تحریکِ جہاد کا تسلسل
دارالعلوم دیوبند کی شہرت سنی تو تحصیلِ علم کے شوق میں دیوبند پہنچ گئے، جہاں ان کی ملاقات شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ہوئی۔ اسی سال ان علمائے کرام کے ساتھ آپ فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ دورانِ حج ان کی ملاقات مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے رہی۔ اس دوران بشمول مولانا عبدالرشید گنگوہیؒ ان تمام حضرات نے ہندوستان واپس جانے کے بعد انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے ناظم مولانا محمود حسن صاحب بنائے گئے، جبکہ حاجی صاحب ترنگ زئی کو اس منصوبے کے تحت امیرِ جہاد مقرر کیا گیا اور ان کو صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ یہ منصوبہ بھی دراصل سید احمد شہید کی تحریکِ جہاد کا تسلسل تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایک طرف ہندوستان میں وعظ و نصیحت کے ذریعے انگریزوں کے خلاف فضا ہموار کرنا تھی اور اسلامی مدارس کا اجرا، انگریزی عدالتوں اور انگریزی تعلیم کا خفیہ طور پر بائیکاٹ کرنے کی ترغیب دلانا تھی، دوسری طرف انگریزوں کے خلاف عملی جہاد کا آغاز کرنا تھا، اور اس کے لیے سید احمد شہیدؒ کی تحریکِ جہاد کی طرح صوبہ سرحد کو ہی منتخب کیا گیا۔ امیرِ جہاد کی حیثیت سے حاجی صاحب کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ سرحدی علاقوں میں دورے کرکے عوام کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تبلیغ کریں، اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو منظم کیا جائے تاکہ وہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے باہمی اختلافات مٹاکر مومنانہ شان سے متحدہ طاقت بن جائیں، تاکہ جہادِ آزادی کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔
اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ جہاد کی بنیاد پر حاجی صاحب ترنگ زئی نے اپنے مشن کا آغاز اپنے گائوں ترنگ زئی سے کیا۔ آپ نے غیر اسلامی رسوم و رواج ترک کرنے، للہیت پیدا کرنے اور معاشرتی برائیوں سے نجات حاصل کرنے پر زور دیا۔ قبائل میں چونکہ آپس کی دشمنیاں موجود تھیں جس کی وجہ سے وہ کسی بات پر متفق نہیں ہوپاتے تھے، لہٰذا آپ نے ان دشمنیوں کے خاتمے کے لیے محنت کی اور قبائل کی باہمی رنجشیں ختم کرکے ان میں اتحاد و یک جہتی پیدا کرنے کی سعی کی۔ ان کی محنت رنگ لاتی ہے، قبائلیوں کا انہیں اعتماد حاصل ہوجاتا ہے۔ لوگ خوشی خوشی باقاعدہ اقرار نامہ لکھ کر حاجی صاحب کی خدمت میں پیش کرتے کہ وہ غیراسلامی رسوم و رواج کو ترک کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ نیز اپنے تنازعات کے خاتمے کے لیے بھی ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
آپ نے یہ جدوجہد انتہائی کٹھن حالات میں کی۔ جابرانہ قوانین کے نفاذ اور انگریز حکمرانوں کے ظلم و ستم نے اہلِ سرحد کی زندگی اجیرن کردی تھی۔ مسلمانوں کو پستی کے گڑھے میں دھکیلا جارہا تھا۔ معاشرتی برائیوں کا ہر طرف زور تھا۔ مسلمانوں کو اخلاقی لحاظ سے تباہ و برباد کیا جارہا تھا۔ عیسائی مشنری ادارے متحرک نظر آرہے تھے جو غریب اور نادار مسلمانوں کو دولت کی لالچ میں عیسائی بنانے میں مصروفِ عمل ہوچکے تھے۔ انگریز حکمرانوں کے خلاف کوئی بات منہ سے نکالنے والے کو سخت ترین سزا دی جاتی تھی۔ قدم قدم پر انگریزوں نے مخبر مقرر کررکھے تھے، جن کی جھوٹی سچی مخبری پر ہزاروں افراد ظلم کا نشانہ بنتے جارہے تھے۔
اسلامی مدارس کا قیام
ان حالات میں اسلامی شعور کو عام کرنے کے لیے آپ نے جگہ جگہ اسلامی مدارس قائم کیے اور ان کے انتظام کے لیے مقامی طور پر اساتذہ اور کمیٹیاں قائم کردیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان مدارس کی تعداد سو سے زیادہ تھی، اور یہ نہ صرف قبائلی علاقوں میں بلکہ انگریزوں کے زیرانتظام اضلاع میں بھی قائم کیے گئے۔ ان تعلیمی اداروں میں طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ جہادِ آزادی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ انگریزوں کو جب معلوم ہوا کہ عوام الناس کا رخ اسلامی مدارس کی جانب بڑھ رہا ہے تو انہوں نے بھی مشنری تعلیمی ادارے قائم کیے اور ان اداروں میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔
حاجی صاحب کو امیر المجاہدین منتخب کیا گیا
اس سلسلے میں صاحبزادہ عبدالقیوم خان ’’دارالعلوم سرحد‘‘ کے نام سے ایک عظیم تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لائے، جس کا مقصد مسلمانوں کو تعلیم کی روشنی سے منور کرنا تھا۔ بعد میں اس کا نام ’’اسلامیہ کالج پشاور‘‘ رکھا گیا۔ اس کالج کی مسجد کا افتتاح انہوں نے حاجی صاحب سے کرایا۔ اُن دنوں برطانیہ نے ترکی کی اسلامی سلطنت کا راستہ روکنے کے لیے مصر پر اور اٹلی نے طرابلس پر قبضہ کرلیا۔ افغانستان اور ایران کی حکومتوں کے خلاف بھی کام شروع کیا۔ لہٰذا صوبہ سرحد کے حریت پسند عوام اور قبائل کو جہاد کے لیے منظم کرنے کے لیے حاجی صاحب کو مسجد مہابت خان میں امیر المجاہدین منتخب کیا گیا۔ اس تقریب میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ان سے حلف لیا۔
1913ء کی بلقان جنگ میں زخمی ترکوں کی طبی امداد کے لیے کئی مراکز یہاں قائم ہوئے۔ مجاہدین کا خیال یہ بھی رہا کہ بعد میں ترکی افواج کو برعظیم کی آزادی کے لیے ہندوستان پر حملہ آور ہونے کے لیے کہا جائے گا۔ اس دوران مولانا عبیداللہ سندھیؒ کو افغانستان بھیج کر آزاد حکومت قائم کرنے کا فیصلہ ہوا، اور یہ کہ وہ افغانستان میں رہ کر وہاں کے لوگوں کے درمیان کام کریں گے۔
افغانستان کے حکمران امیر حبیب اللہ خان کو مجاہدین نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کے لیے بہت کہا، لیکن وہ انگریزوں کے مقابلے پر نہیں آنا چاہتا تھا، جبکہ افغانستان کے نائب امیر امان اللہ خان پوری طرح مجاہدین کے ہمراہ تھے۔ دوسری طرف اندرون ملک والیِ سوات، والیِ جندول اور والیِدیر مجاہدین کے مخالف اور انگریزوں کے حمایتی تھے۔
انگریزوں نے بعض علما کو رشوت کے ذریعے اپنے ساتھ ملایا اور ان سے یہ فتویٰ حاصل کیا کہ حکمرانِ وقت کے اعلان کے بغیر جہاد غیرشرعی ہے۔ اس فتوے کا اثر زائل کرنے کے لیے حاجی صاحب نے شیخ الہند مولانا محمود حسن سے رجوع کیا۔ مولانا محمود حسن یہ مسئلہ لے کر حجاز کے گورنر کے پاس پہنچے، انہوں نے اپنا خط سلطنتِ عثمانیہ کے خلیفۃ المسلمین کے نام دے کر مولانا صاحب کو وہاں بھیجا۔ اُس زمانے میں پہلی جنگ ِعظیم شروع ہوچکی تھی۔ اس لیے خلیفۃ المسلمین سے تو شیخ الہند کی ملاقات نہ ہوسکی، البتہ عثمانی افواج کے سپہ سالار نے انہیں خلیفہ کی جانب سے اپنی مہر کے ساتھ فتویٰ لکھ کر دیا کہ برعظیم کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ انگریز حکمرانوں کے خلاف مسلح جہاد کریں اور مولانا محمود حسن اور حاجی صاحب ترنگ زئی کا ساتھ دیں۔
اس اہم فتوے کو ایک ریشمی رومال پر کاڑھا گیا تاکہ خراب نہ ہوجائے، اور بہ حفاظت اسے برعظیم لایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک افواج کے لیے افغانستان کے راستے برعظیم میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا تاکہ مجاہدین کے ساتھ مل کر انگریز کو یہاں سے نکالا جائے۔ اس ریشمی رومال کو بعد میں ایک نومسلم نوجوان نے جو ایم اے انگریزی بھی تھا، بہ حفاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا ذمہ لیا، لیکن درپردہ اس کی انگریزوں سے سازباز تھی، چنانچہ وہ رومال پکڑا گیا، اس کو ’’ریشمی رومال تحریک‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
حاجی صاحب کی ہجرت اور جہاد
انگریزوں کو جب ترک افواج کے منصوبے کا علم ہوا تو انہوں نے ترکی پر اپنا دبائو بڑھا دیا۔ گورنر حجاز کو برطرف کردیا اور نئے گورنر نے انگریزوں کی ہدایت پر مولانا محمود حسن کو گرفتار کرلیا۔ پھر انہیں وہاں سے برعظیم لایا گیا اور بعد ازاں مالٹا میں قید کردیا گیا۔ ان حالات میں حاجی صاحب ترنگ زئی پر دبائو بڑھ گیا اور انگریزوں نے ان کے خلاف لشکر کشی کی۔ ان کے رشتہ داروں کو گرفتار کیا گیا، جائدادیں ضبط کی گئیں اور عوام الناس کو ان سے تعاون کرنے پر دھمکیاں دی گئیں۔ جہادِ آزادی کو جاری رکھنے کے لیے آپ نے اپنی جائداد کو خیرباد کہا اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ آزاد قبائلی علاقے میں جاکر مقیم ہوگئے اور باقاعدہ ہجرت کی۔
ان حوصلہ شکن حالات میں بھی حاجی صاحب نے مہمند ایجنسی، ضلع بونیر، ضلع سوات، مردان، چارسدہ، صوابی کے تفصیلی دورے کیے، احیائے اسلام اور آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے لوگوں کو جان و مال کی قربانی پر آمادہ کیا۔ خود بھی انگریزوں کے خلاف کامیاب حملے کیے۔ انہوں نے چترال سے لے کر افغانستان تک لوگوں کو انگریز کے عزائم سے خبردار کیا اور وزیرستان ایجنسی، تیراہ اور باڑہ کے قبائل کو جہاد پر آمادہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
حاجی صاحب کی جدوجہد کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’حاجی صاحب کے عملی جہاد نے 22 سال تک انگریزوں کو اطمینان کے ساتھ پورے برصغیر میں حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ آپ کا قیام اگرچہ مہمند قبائلی علاقوں میں غازی آباد میں تھا مگر آپ کی تحریکِ جہاد میں تمام قبائلی علاقے کی مختلف قومیں شامل تھیں جو اپنے اپنے علاقوں میں انگریزوں کے خلاف برسرپیکار تھیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سیاسی پلیٹ فارم سے مطالبۂ پاکستان کو حاجی صاحب کے عملی جہاد نے تقویت بخشی‘‘۔
آپ مرتے دم تک انگریزوں
کے خلاف برسرپیکار رہے
اگر والیِ افغانستان اور والیانِ دیر، سوات، جندول اور باجوڑ حاجی صاحب کی حمایت کرتے تو مجاہدینِ اسلام کو بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل ہوسکتی تھیں۔ لیکن جس طرح آج کے مسلم حکمران خود اپنی اقوام اور ملت کے خلاف ہیں اور غیروں کے حامی…ایسی ہی صورتِ حال اُس وقت بھی تھی۔ اس سب کے باوجود حاجی صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ کہتے ہیں کہ آخری عمر میں اگرچہ آپ ضعیف اور نحیف ہوگئے تھے، مگر آپ محاذِ جنگ پر مجاہدوں کو خود دعا دے کر رخصت کرتے تھے اور پھر مورچے میں بیٹھ کر جہاد کی کمان کرتے تھے۔ عالم یہ تھا کہ آپ کے مرید آپ کو ڈولی میں بٹھا کر محاذِ جنگ پر لاتے تھے۔ یہ تھا آپ کا عزم اور ولولہ!
آپ مرتے دم تک انگریز کے خلاف برسرِپیکار رہے۔ جہادِ آزادی کو ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے آپ نے وفات سے قبل اپنے بڑے بیٹے کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔ تحریکِ آزادی کا یہ عظیم مجاہد دسمبر 1937ء میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملا۔
جہادِ کشمیر میں حاجی صاحب
کے جانشینوں کا حصہ
ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں نے 1947ء میں قبائل کے لشکر تیار کرکے کشمیر کے آدھے علاقے کو آزاد کروایا۔ اس طرح حاجی صاحب کی یہ جدوجہد رنگ لاتی ہے، ان کی تحریک، تحریکِ آزادی سے تحریکِ پاکستان اور پھر قیامِ پاکستان پر جاکر منتج ہوتی ہے۔ انگریز کو بالآخر برعظیم کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے اور مسلمانوں کو مملکتِ اسلامیہ پاکستان کی صورت میں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے بھی حاجی صاحب کی خدمات اور جدوجہدِ آزادی کے پیش نظر خود ان سے ملاقات کی۔ ان کی شاعری میں ’’محراب گل افغان‘‘ کا جو تذکرہ ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے حاجی صاحب ترنگ زئی ہی مراد ہیں۔
حاجی صاحب کو سرحد میں سید احمد
شہید کے مقابلے میں زیادہ پذیرائی ملی
حاجی صاحب ترنگ زئی کی جدوجہد کا ایک اور اہم پہلو جو احیائے اسلام کے لیے کوشاں داعیانِ دین کے لیے قابلِ غور ہے، وہ یہ ہے کہ سرحد میں سید احمد شہیدؒ کے مقابلے میں انہیں زیادہ پذیرائی ملی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سید احمد شہیدؒ اور ان کے ساتھ آنے والے ہندوستانی مجاہدین سرحد میں بولی جانے والی زبان پشتو سے واقف نہ تھے۔ اس وجہ سے وہ غیراسلامی رسومات کی خرابیوں اور اصلاحِ معاشرہ کے متعلق اسلامی احکامات کے متعلق یہاں کے لوگوں کے دلوں کو بخوبی متوجہ نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس حاجی صاحب نے جب اس تحریک کو تکمیل کے مرحلے میں داخل کیا تو وہ چونکہ یہاں کے رہنے والے تھے، اس لیے ہر فرد کے دل میں ان کا احترام تھا۔ اپنی بزرگی، علم و فضل اور روحانی حیثیت کی وجہ سے وہ سرحد کے مقامی اور قبائلی لوگوں میں انتہائی ہردل عزیز تھے۔ انہی کی زبان میں کسی قسم کی خرابی اور اچھائی انہیں ذہن نشین کراتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں نے حاجی صاحب کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو ولی اللّٰہی تحریک کے مشہور مجاہد سید احمد شہیدؒ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔
nn