جماعت اسلامی کی خیبرپختون خو امیں بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت
ضلع دیر پائین کے ہیڈ کوارٹر تیمر گرہ ریسٹ ہاؤس گراؤنڈ میں مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، حکومتی ناقص کارکردگی اور عوام دشمن اقدامات کے خلاف عوامی تحریک کے چوتھے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں کوئی فرق نہیں ہے، ان کی محاذ آرائی کا مقصد عوام کوکوئی ریلیف دینا نہیں ہے، بلکہ ان کی لڑائی کا مقصد قومی خزانے کے چوروں اور ڈاکوئوں کو تحفظ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کے نام پر باہر سے آنے والا 87 فیصد پیسہ حکومت نے اپنے اخراجات پر خرچ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، لیکن ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے میں کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں اور آئندہ دو ہفتوں کے لیے تمام سیاسی جلسوں کو مؤخر کرتا ہوں۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ لاکھوں نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والی اسمارٹ حکومت نے اسٹیل ملز کراچی کے ساڑھے 4 ہزار سے زائد غریب ملازمین کو فارغ کردیا اور وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی اسلام اور قرآن کا نظام لائے گی۔ پنجاب اور بلوچستان میں جو ظلم ہورہا ہے وہی زیادتی سندھ میں بھی ہورہی ہے۔ پی ڈی ایم والے کہتے ہیں کہ ملک میں بہتری لائیں گے، سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، یہ لوگ پہلے وہاں تو بہتری لاکر دکھائیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ حکومت اعلانات اور وعدوں کے سہارے چلنے کی کوشش کررہی ہے، وزیراعظم نے عوام کو سبزباغ دکھانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ حکومت کو ووٹ اورسپورٹ دینے والے بھی مایوس ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔ قوم کو نااہل اورنالائق حکومتی ٹولے سے نجات دلا کر دم لیں گے۔ کراچی سے چترال تک ملک بھر میں مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، جماعت اسلامی مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کے خلاف تحریک چلا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ حکومت نے این ایف سی ایوارڈ میں قبائل کو 3 فیصد رقم دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن حکومت نے سابق قبائلی علاقوں سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے، قبائلی علاقوں کا خیبرپختون خوا میں انضمام ہوا، لیکن وہاں ابھی تک کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوا، جس کی وجہ سے لاکھوں قبائل جو انضمام سے بہتری کی امید لگائے ہوئے تھے ان میں دن بدن مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ جماعت اسلامی کا تیمرگرہ میں جلسہ ایک ایسے موقع پر منعقد ہوا جب چند دن پہلے تک ضلع دیر پائین سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے سابق صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید کے جماعت اسلامی سے مستعفی ہونے کی نہ صرف افواہیں گرم تھیں بلکہ ان کے جماعت اسلامی کو خیر باد کہنے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جماعتی اور مخالف سیاسی حلقوں کے درمیان زبردست بحث بھی جاری تھی۔ اسی طرح مظفر سید کے جماعت اسلامی چھوڑنے کے حوالے سے متضاد خبریں بھی آرہی تھیں، اور ایک موقع پر ان کی جانب سے یہ وضاحت بھی سامنے آئی کہ وہ ایک تحریکی گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں اور بعض اندرونی سیاسی اختلافات کے باوجود وہ کہیں بھی نہیں جارہے ہیں، اور ان کا اوڑھنا بچھونا جماعت اسلامی ہی رہے گی، لیکن تیمرگرہ کے جلسہ عام سے چند روز قبل میڈیا کی اچانک زینت بننے والی اس خبر نے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ وہ جماعت اسلامی کو داغِ مفارقت دے کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ مظفر سید کے اس اقدام پر اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا۔ بعض صارفین نے اُن کی جانب سے جماعت اسلامی سے راہیں جدا کرنے کو سیاسی خودکشی قرار دیتے ہوئے اپنا سیاسی کیریئر تباہ کرنے سے بھی تشبیہ دی۔ بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق اُن کے جماعت اسلامی کو خیرباد کہنے کے متعلق تاحال کم ازکم دیر پائین کی حد تک ایک نہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔
یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ مظفر سید جماعت اسلامی خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے پہلے رہنما نہیں ہیں جنھوں نے جماعت اسلامی سے اپنی راہیں جدا کی ہیں۔ یاد رہے کہ ان سے پہلے دیر پائین سے سابق رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر ذاکر اللہ، صاحبزادہ صبغت اللہ، اور صاحبزادہ ثناء اللہ جماعت اسلامی کو خیرباد کہہ کر بالترتیب پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں۔ آخرالذکر دونوں راہنمائوں میں صبغت اللہ 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، جبکہ صاحبزادہ ثنا ء اللہ ان دنوں بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں، تاہم ڈاکٹر ذاکر اللہ جو 2008ء میں جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے وہ لوٹ کر نہ صرف واپس جماعت اسلامی میں شامل ہوچکے ہیں بلکہ جماعت کے ٹکٹ پر 2018ء کے انتخابات میں حصہ بھی لے چکے ہیں۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں کچھ عرصہ قبل پشاور سے جماعت اسلامی کے تین راہنما اسرار اللہ ایڈووکیٹ اور ان کے چھوٹے بھائی فضل اللہ دائود زئی اور سیاسی امور کے لیے مرکزی امیر جماعت کے مشیر انتخاب خان چمکنی ایڈووکیٹ بھی جماعت اسلامی کو خیرباد کہہ کر مسلم لیگ(ن) کو جوائن کرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ اسرار اللہ ایڈووکیٹ طویل عرصے تک جماعت اسلامی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اور ٹائون ناظم رہ چکے ہیں، جب کہ ان کے بھائی فضل اللہ دائودزئی دو مرتبہ جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے علاوہ ڈسٹرکٹ اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ یہ دونوں بھائی زمانۂ طالب علمی سے اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے تحریک اسلامی سے وابستہ رہے تھے، البتہ انتخاب خان چمکنی ایڈووکیٹ مسلم لیگ(ق) کی صوبائی صدارت سے مستعفی ہوکر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے اور بعدازاں اپنی مرضی کا ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ہوکر چند ماہ پہلے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ مندرجہ بالا افراد جماعت اسلامی سے کیوں علیحدہ ہوئے اور آیا اُن کے ان فیصلوں کا اُن کی سیاست اور جماعت اسلامی پر کتنا اور کیا اثر پڑا ہے، اس حقیقت کو جماعت اسلامی کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے جانے سے جماعت اسلامی کی سیاسی مقبولیت اور سیاسی وزن پر یقیناً کوئی فرق نہیں پڑا، البتہ یہ لوگ جن جماعتوں میں گئے ہیں وہاں ان کی ایڈجسٹمنٹ میں تاحال مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، اور شاید اس کی بھاری قیمت انہیں آئندہ بھی چکانی پڑتی رہے گی، کیونکہ یہ جماعتیں سیاسی جماعتیں کم اور پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں زیادہ ہیں جن پر موروثی سیاست کے ساتھ ساتھ خان، خوانین، سرمایہ دار اور جاگیردار قابض ہیں، ایسے میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ان راہنمائوں کی ایڈجسٹمنٹ یقیناً ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔ یہاں ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جماعت نے موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی، مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کے خاتمے اور ظلم و زیادتی پرمبنی سماجی نظام کی اصلاح کے لیے جو ہمہ گیر مہم شروع کررکھی ہے اور اس ضمن میں باجوڑ، بونیر، سوات اور تیمرگرہ میں جو چار بڑے جلسے ہوئے ہیں ان میں مقامی سطح پر بڑی تعداد میں عام لوگوں کی شرکت اور جماعت اسلامی کے کارکنان کے جوش وخروش نے یہ بات ثابت کی ہے کہ وطنِ عزیز میں اگر کوئی سیاسی جماعت سیاست کی مروجہ تعریف پر پوری اترتی ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے، جس نے اپنے نصب العین اور مقاصد کے حصول کے لیے جو لائحہ عمل اپنے دستور کی روشنی میں اختیار کیا ہے اس کے اپنے تو کیا پرائے بھی معترف ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے اپنی صفوں میں شخصیت پرستی کے بجائے رضائے الٰہی کے لیے مخلصانہ جدوجہد کو جس طرح ایک اصول اور معیار بنایا ہے یہ اسی سوچ اور تربیت کا نتیجہ ہے کہ بڑی بڑی شخصیات کے جماعت میں آنے جانے کا بحیثیتِ مجموعی جماعت کی صحت، ساخت اور شناخت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا، بلکہ اپنے قیام کے 80سال بعد بھی جماعت اسلامی نہ صرف آج بھی ملکی سیاست میں ایک توانا اور بھاری آواز ہے، بلکہ اگر بدنیتی اور حسد سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ملک کو موجودہ گمبھیر صورت حال اور بھنور سے صرف جماعت اسلامی جیسی مخلص اور نظریاتی جماعت ہی نکال سکتی ہے، جس پر عوامی اعتماد میں ہرگزرتے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کا ثبوت باجوڑ، بونیر، سوات کے بعدگزشتہ اتوار کو تیمرگرہ دیر پائین میں منعقدہونے والا بڑا جلسہ عام ہے جو جماعت اسلامی کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کی واضح علامت اور دلیل ہے۔
nn