کیا درد بھی کوئی خاتون ہے؟

؎کچھ دن گزرتے ہیں کہ ہم علالت کا شکار ہوکرخانہ نشین ہوگئے۔ احباب کو تشویش ہوئی۔ بیمار کو ’’فونم فون‘‘ کردیا۔ ایک عزیز نے مزاج پُرسی کی: ’’حضرت! کہاں غائب ہیں؟ مزاج تو اچھے ہیں؟‘‘
عرض کیا: ’’حضور! مزاج تو واحد ہے۔ آپ نے جمع کا صیغہ استعمال کرکے مزاج ہی برہم کردیا۔ داغؔ سے دلیل لیجیے، وہ بھی اسی تشویش میں مبتلا تھے:
نہیں معلوم اِک مدّت سے قاصد حال کچھ واں کا
مزاج اچھا تو ہے، یادش بخیر، اُس آفتِ جاں کا
داغؔ ہی پر بس نہیں۔ ناسخؔ بھی یہی کہتے ہیں:
حضرتِ دل کیوں مزاج اچھا تو ہے؟
ہو گئی ہے کس ستم پرور سے لاگ؟
خیر، بُرا نہ مانیے گا، آپ ہی نہیں، اکثر لوگ یہ غلطی کر بیٹھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیسے مزاج ہیں جناب؟‘‘
بُرا نہ ماننے کی التجا کے باوجود بُرا مان گئے۔کہنے لگے:
’’صاحب! ہم نے تو مزاج پُرسی کے لیے فون کیا تھا، آپ ہمیں اُردو پڑھانے لگے‘‘۔
ویسے ’’مزاج پُرسی کرنا‘‘ یا ’’مزاج پوچھ لینا‘‘ طنزاً بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’’مزاج درست کردینے‘‘ کے معنوں میں۔ مزاج کا معروف مطلب تو انسان کی طبیعت، کیفیت یا صحت کا حال ہے، جس کی جمع ’’امزجہ‘‘ ہے۔ مگر اطبا کی اصطلاح میں ’’مزاج‘‘ وہ کیفیت ہے جو انسانی جسم میں مختلف چیزوں کے ملنے سے پیدا ہو (مختلف چیزوں کے ملنے ہی کو ’’امتزاج‘‘ کہتے ہیں)۔ وہ چیزیں جن کے ملنے سے انسانی مزاج بنتا ہے، طبِّ یونانی میں ’’خِلْط‘‘ کہلاتی ہیں، اور ان کی جمع ’’اَخْلاط‘‘ ہے۔ ملنے کے عمل کو ’’اختلاط‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کئی چیزیں بے ترتیبی سے باہم مل جائیں یا گڈمڈ ہوجائیں تو اس صورتِ حال کو ’’خلط ملط ہوجانا‘‘ کہتے ہیں۔ مثلاً:
’’تمام کاغذات خلط ملط ہوگئے‘‘۔
مزاج بنانے والے اجزا کا نام طبیب صاحبان صَفرا، سودا، بلغم اور خون بتاتے ہیں۔ ان کے توازن سے صحت قائم رہتی ہے۔ اور انھی کا توازن بگڑنے سے مزاج برہم ہوجاتا ہے۔ جس شخص کے جسم میں صَفرا (زرد رنگ کے مادّے) کا تناسب بڑھ جائے اُسے ’’صَفراوی مزاج‘‘ کا حامل کہا جاتا ہے۔ جس کے جسم میں سودا (سیاہ رنگ کے مادّے) کا تناسب زیادہ ہو وہ ’’سودائی مزاج‘‘ رکھتا ہے۔ اسی طرح ’’بلغمی مزاج‘‘کے اور سب سے خطرناک لوگ ’’خونیں مزاج‘‘ کے ہوتے ہیں۔ ان کی مزاج پُرسی ذرا فاصلے ہی سے کرنی چاہیے۔
دلچسپ قصہ تو یہ ہوا کہ اسی ضمن میں الاستاذ خلیل الرحمٰن چشتی صاحب کا فون بھی آگیا اور سچ پوچھیے تو سچی مزاج پُرسی آپ ہی نے کی۔ بعد سلامِ مسنون کے استفسار فرمایا: ’’حاطب بھائی! کیا ہوگیا؟‘‘
عرض کیا: ’’دو دن سے دردِ شقیقہ میں مبتلا ہوں‘‘۔
سنتے ہی برہم ہوگئے۔ کہنے لگے: ’’حاطب بھائی! کیا درد بھی کوئی خاتون ہے جو آپ نے اس عفیفہ کے ساتھ شقیقہ کی صفت لگا ڈالی؟ ’’تکلیفِ شقیقہ‘‘ تو ہوسکتی ہے، لیکن درد کو ’’شقیق‘‘ ہی ہونا چاہیے۔ ہوسکتا ہے میری بات کچھ غلط ہو، لیکن یہ عجیب سا لگا مجھے۔ والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘۔ یہ کہہ کر فون بند کردیا۔ ہمارے تو ہوش ہی اُڑ گئے۔ ہم اس پھیر میں پڑ گئے کہ ہمارا درد شقیق ہے یا شقیقہ؟
ہم نے مانا کہ تکلیف مؤنث ہے اور اگرچہ ہم نے سن رکھا تھا کہ خواتین ہی کے نہیں، کچھ حضرات کے بھی ’’درد ہوتی ہے‘‘، مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ درد کسی کے بھی ہو اور کہیں بھی ہو، فُصحا نے درد کو ہمیشہ مذکر ہی باندھا ہے (اگرچہ ہمیں آج تک یہ پتا نہ چل سکا کہ ادبا، شعرا اور فصحا حضرات ان موذی الفاظ کو کس چیز سے اور کہاں لے جاکر باندھتے ہیں)۔ شان الحق حقی کا شعر ہے:
حیف وہ وقت کہ احساس کے قابل نہ رہوں
درد اُٹھتا ہے تو کچھ جان میں جاں آتی ہے
امیرؔ مینائی بھی فر یاد کرگئے ہیں کہ:
ناوکِ ناز سے مشکل ہے بچانا دل کا
درد اُٹھ اُٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانا دل کا
(ناوک تیر کو کہتے ہیں اور ’’ناوکِ ناز‘‘ اداؤں کے تیر کو) مگر چشتی صاحب کی اس ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ہم اپنا ’’آدھے سر کا درد‘‘ بھول بھال کر ایک نئے دردِ سر میں مبتلا ہو گئے۔
بستر علالت پر لغات کے ڈھیر لگ گئے۔ محترم خلیل الرحمٰن چشتی صاحب نہ صرف قواعد و انشا کے ماہر ہیں، شاعرِ نغز گوئے خوش گفتار ہیں اور اللّغۃ العربیہ کے شناور ہیں، بلکہ قرآنی عربی (لغات القرآن) کے معلّم بھی ہیں۔ ہمارے لیے یہ بات انتہائی درد انگیز تھی کہ ہم دو دِن سے جس درد میں مبتلا ہیں، وہ درد سرے سے صَرف و نحو اور قواعد و انشا ہی کے خلاف ہے (شکر ہے کہ شیخ نے اسے شرع کے خلاف نہیں قرار دیا)۔
چھان بین سے معلوم ہوا کہ تمام عربی اور اردو لغات میں اس مرض کو صرف ’’شقیقہ‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ اصطلاح ’’شق‘‘ سے نکلی ہے، جس کے معنی پھاڑنے، چیرنے، دراڑ ڈالنے یا دو حصوں میں جدا کردینے کے ہیں۔ سگے بھائی بہن بھی چوں کہ ایک ہی ماں باپ کے جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں، چناں چہ وہ بھی باہم شقیق اور شقیقہ کہے جاتے ہیں۔ اس دردِشقی کو اس وجہ سے شقیقہ کہا گیا کہ یہ بھی سر کو دو حصوں میں بانٹ کر صرف ایک حصے میں ہوتا ہے۔ البتہ اِس ’’صنفی امتیاز‘‘ کا سبب کسی لغت میں نہیں بتایا گیا کہ اس درد کو ’’شقیقہ‘‘ کیوں کہا جاتا ہے، ’’شقیق‘‘ کیوں نہیں؟
تاہم مقتدرہ قومی زبان پاکستان کی شائع کردہ اور شان الحق حقی کی مرتب کردہ ’’فرہنگِ تلفظ‘‘ میں ’’شقیقہ‘‘ کے معنی کنپٹی اور ’’دردِ شقیقہ‘‘ کے معنی آدھے سر کا درد دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ہم کسی غلط درد میں مبتلا نہیں تھے۔ حکما اور اطبا کے علاوہ اہلِ لغت کے ہاں بھی ’’دردِ شقیقہ‘‘ مستعمل ہے اور اس میں مبتلا ہونے کی گنجایش ہے۔
ہمارے مطبوعہ ذرائع ابلاغ پر لکھی جانے والی اور ہمارے برقی ذرائع ابلاغ سے بولی جانے والی قومی زبان میں جو آدھے سے زیادہ بدیسی زبان استعمال کی جاتی ہے، اس کو سہنا بھی آدھے سر کا درد سہنے سے کم نہیں۔ ایک اُردو اخبار میں ایک خبر کی سُرخی میں یہ فقرہ پڑھا:
’’ہائی کورٹ نے کیس ڈسمس کردیا‘‘۔
اس فقرے میں صرف ’’نے‘‘ اور ’’کردیا‘‘ مجبوراً استعمال کیا گیا ہے، باقی ’’دردِ شقیقہ‘‘ ہے۔ اگر یہی جملہ یوں تحریر کیا گیا ہوتا کہ:
’’عدالتِ عالیہ نے مقدمہ خارج کردیا‘‘۔
تو شاید مقدمے کے انجام پر تو کوئی فرق نہ پڑتا، البتہ خبر نگار اور مدیر اخبار کی اردو زبان سے واقفیت جس انجام کو پہنچ رہی ہے، اُس کا رونا رونے سے بچا جا سکتا تھا اور جملے میں اُردو کا حُسن بھی آ جاتا۔
اُردو زبان کا رونا رونے کا کام تو الحمدللہ اب بہت سے لوگ کررہے ہیں، مگر ہم نے یہ دردناک کام ہنس ہنس کر کرنے کا بِیڑا اُٹھا لیا ہے۔ صرف آہ و فغاں سے تو حالات بدلتے ہیں نہ لوگ۔ اوپر ہم نے’’درد‘‘ کے موضوع پر شان الحق حقی مرحوم کا ایک شعرنقل کیا ہے۔ محولہ شعر جس غزل کا ہے، جی چاہتا ہے کہ اُس کا شان دار مطلع بھی یہاں درج کردیا جائے کہ حسبِ حال ہے۔ حقی صاحب مرحوم کا دعویٰ بلکہ دعوتِ عام ہے کہ:
کس طرح لب پہ ہنسی بن کے، فغاں آتی ہے
مجھ سے پوچھو، مجھے پُھولوں کی زباں آتی ہے
nn