آج کل کی جنگوں میں بلیک آئوٹ ایک لازمی ضرورت ہے، اس عمل کی ایک نظیر خود عہدِ رسالت میں بھی ملتی ہے۔
جمادی الثانیہ 8ھ میں جہاد کے لیے ایک لشکر مدینہ طیبہ سے دس منزل کے فاصلے پر لخم وجذام کے قبائل کے مقابلے کے لیے بھیجا گیا تھا، جس کے امیر حضرت عمرو بن العاصؓ تھے۔ اس غزوہ میں دشمن کے سپاہیوں نے پوری فوج کو حلقہ زنجیر میں جکڑ رکھا تھا تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے، اسی لیے یہ غزوہ ’’ذات السلاسل‘‘ کے نام سے موسوم ہے (یاد رہے کہ جنگِ ذات السلاسل کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی وہ دورِ صحابہ میں اس کے بعد ہوئی ہے)۔
اس غزوے میں حضرت عمرو بن العاصؓ نے اپنی فوج کو یہ حکم دیا کہ لشکرگاہ میں تین روز تک رات کے وقت کسی طرح کی روشنی نہ کریں اور نہ آگ جلائیں۔
تین دن کے بعد دشمن میدان سے بھاگ کھڑا ہوا۔ بھاگتے ہوئے دشمن کا صحابہ کرامؓ نے تعاقب کرنا چاہا، مگر حضرت عمروؓ نے تعاقب سے منع کردیا۔ لشکر کے جانبازوں کو روشنی بند کرنے کے حکم ہی سے ناگواری تھی کہ تعاقب نہ کرنے کا حکم اور بھی ناگوار گزرا، مگر اطاعت ِامیر کی بنا پر تعمیل لازمی تھی، اس لیے بے چوں و چرا پابندی کی گئی۔ البتہ جب لشکر مدینہ طیبہ واپس پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی گئی، آپؐ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو بلاکر وجہ دریافت فرمائی۔
حضرت عمروؓ نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ میرے لشکر کی تعداد دشمن کے مقابلے میں تھوڑی تھی، اس لیے میں نے رات کو روشنی کرنے سے منع کیا کہ مبادا دشمن ان کی قلت ِتعداد کا اندازہ لگا کر شیر نہ ہوجائے، اور تعاقب کرنے سے بھی اس لیے روکا کہ ان کی کم تعداد دشمن کے سامنے آجائے گی تو وہ کہیں لوٹ کر حملہ نہ کردے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس جنگی تدبیر کو پسند فرما کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
(تراشے۔ مفتی محمد تقی عثمانی)