’’میثاق جمہوریت‘‘ کے بعد ’’میثاق پاکستان‘‘ کی تیاری
میاں منیر احمد
اگر محمد خان جونیجو سے لے کر نوازشریف کی حکومت تک ماضی کی حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو ہر حکومت نے کچھ نہ کچھ کارکردگی دکھائی۔ جونیجو حکومت سادگی لائی، بیوروکریٹس کو بھی چھوٹی گاڑیوں تک لے آئی۔ پانچ مرلہ گھروں کی اسکیم دی، نتائج کی پروا کیے بغیر کمزور ترین وزیراعظم نے بھی پہلے سال ہی اعلان کردیا کہ اگلے سال ملک میں مارشل لا نہیں ہوگا۔ جنرل ضیا الحق کو مارشل لا ختم کرنا پڑا۔ جونیجو کے بعد بے نظیر بھٹو آئیں اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو جیلوں سے باہر نکالا اور خوب نوازا، ملک کو میزائل ٹیکنالوجی دی۔ اس کے بعد نوازشریف آئے، اپنے ادوار میں وہ پیلی ٹیکسیوں کی اسکیم لائے، موٹر وے کی بنیاد رکھی، سی پیک لائے، ایٹمی دھماکا کیا۔ تاریخ کے کمزور ترین وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے بھی مزاحمت کی۔ جنرل پرویزمشرف نے خواہش بھی ظاہر کی مگر وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور نواب اکبر بگٹی کے خلاف کارروائی کا حصہ نہیں بنے۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کی حکومت کو مکمل حمایت حاصل ہے، مگر اِس حکومت کے دامن میں کوئی ایک کارنامہ نہیں ہے جس پر یہ فخر کرسکے۔ پہلے دو سال احتساب کے نام پر گزار دیے، اور اب پرانے دور کے منظور شدہ منصوبوں کے فیتے کاٹ رہی ہے۔ ڈھائی سال گزر گئے یہ حکومت فیصلہ ہی نہیں کر پارہی کہ ملک میں کون سا نظام لایا جائے۔ پہلے کہا کہ ریاست مدینہ بنے گی، پھر کہا کہ چین کا ماڈل لایا جائے گا، اور اس کے بعد دعویٰ کیا کہ ویلفیئر حکومت بنائیں گے۔ حکومت کے اس طرزعمل اور بے بنیاد ترجیحات پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ پہلے کشمیر پر بھارت کے اقدام پر خاموشی اختیار کرکے جغرافیہ تبدیل کرنے کی کوشش کے خلاف مزاحمت نہیں کی، اور اب ریاست مدینہ کے بعد یورپی ممالک کے فلاحی نظام کی بات کرکے نظریے پر حملہ آور ہوئی۔ حالانکہ سماجی انصاف سے لے کر معاشی انصاف تک سب کچھ ریاست مدینہ میں ہے، پھر نہ جانے کیوں یورپی ممالک کی طرز کے فلاحی نظام کی بات کی گئی! جس طرح حکومت چل رہی ہے یہ تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ پانچ سال مکمل ہوجانے کے بعد بھی حکومت کوئی فیصلہ نہیں کرپائے گی کہ وہ یہاں کس طرح کا نظام چاہتی ہے۔ ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود ریاست مدینہ کے نعرے کی عملی تکمیل کے لیے سرے سے کسی قانون سازی کا آغاز ہی نہیں کیا جاسکا۔ وفاق میں حکومت بنانے کے ڈھائی سال بعد حکومت کو گلگت بلتستان میں انتخابی معرکے میں اترنا پڑا، مگر یہاں بھی اسے الیکٹ ایبلز کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑی، جوڑ توڑ کرکے امیدوار اکٹھے کیے گئے اور اب دعویٰ کررہی ہے کہ عوام نے اسے پذیرائی بخشی ہے۔ وہاں تو یک طرفہ مقابلے کی فضا تھی، اس کے باوجود تحریک انصاف کو واجبی کامیابی ملی ہے، وہ تنہا حکومت نہیں بنا سکتی۔ یہ انتخابی نتائج تحریک انصاف کے لیے نیک شگون نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی انتخابی نتائج کے خلاف مزاحمت کررہی ہے، اس احتجاج میں اپوزیشن کی دیگر جماعتیں شامل ہوگئیں تو تحریک انصاف کے لیے مشکل ہوجائے گی۔
پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے’’میثاقِ پاکستان‘‘ کے 12 نکات پر مشتمل خدوخال تیار کرلیے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اجلاس میں ’’میثاقِ پاکستان‘‘ کو حتمی شکل دینے کے لیے احسن اقبال، خرم دستگیر، شیری رحمان، میاں رضاربانی اور کامران مرتضیٰ پر مشتمل پانچ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ یہ کمیٹی 13دسمبر تک اپنی سفارشات مرتب کرے گی۔ یہ سفارشات لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے میں بیان کی جائیں گی۔ میثاقِ پاکستان کے خدوخال یہ ہوسکتے ہیں کہ وفاقی، اسلامی، جمہوری، پارلیمانی آئین پاکستان کی بالادستی اور عمل داری یقینی بنانا، پارلیمنٹ کی خودمختاری، سیاست سے اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس اداروں کے کردار کا خاتمہ، آزاد عدلیہ کا قیام، آزادانہ، غیرجانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے اصلاحات، عوام کے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کا تحفظ، صوبوں کے حقوق اور اٹھارہویں ترمیم کا تحفظ، مقامی حکومتوں کا مؤثر نظام، اظہارِ رائے اور میڈیا کی آزادی کا دفاع، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ، اور مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کے لیے ہنگامی معاشی پلان، آئین کی اسلامی شقوں کا تحفظ اور عمل درآمد۔ یہ وہی نکات ہیں جو اس سے قبل کسی نہ کسی شکل میں میثاقِ جمہوریت میں طے ہوئے ہیں، مگر میثاقِ جمہوریت کو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے مل کر ہی ’’مذاقِ جمہوریت‘‘ بنایا تھا۔ اب یہی جماعتیں اسے میثاق جمہوریت کے معاہدے میں پرو رہی ہیں۔ پی ڈی ایم نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کے التوا اور حکومت کی جانب سے شوگر مافیا کو400 ارب کا فائدہ پہنچانے پر حکومت کی گرفت کی جائے گی۔ پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ جلسے شیڈول کے مطابق ہوں گے، کورونا وائرس کی آڑ میں پابندی قبول نہیں کی جائے گی۔
تاہم جوابی بیانیہ کے ساتھ حکومت اپوزیشن پر حملہ آور ہے اورخود بھی جلسے کررہی ہے اور اپوزیشن کے جلسوں کے خلاف پروپیگنڈا کررہی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر میں تیزی آچکی ہے تاہم وزیراعظم کی اپنی ترجیح واضح نہیں ہے۔ وہ اصرار کررہے ہیں کہ صنعتیں اور کاروبار بند نہیں کیے جائیں گے۔ تعلیمی ادارے آن لائن کلاسز کے نام پر بند کردیے گئے ہیں، متعدد شہروں میں اسمارٹ لاک ڈائون نافذ کردیا گیا ہے، شادی ہال بند کردیے گئے ہیں۔ مارکیٹوں کی حالت یہ ہے کہ بند ہیں نہ کھلی ہیں۔ اپوزیشن اپنا بیانیہ دے رہی ہے۔ اگر یہ بیانیہ غلط بھی تسلیم کرلیا جائے تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھے، اپنا بیانیہ دے، اپوزیشن کے بیانیے کے خلاف بند باندھے۔ مگر حکومت اپوزیشن کو مذاکرات میں مصروف کرنے کے بجائے یک طرفہ ٹریفک چلارہی ہے، جب کہ اسے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ حکومتِ پنجاب اور حکومتِ خیبرپختون خوا کی جانب سے وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا تھا کہ کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے حوالے سے اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جائے، لیکن وزیراعظم نے اس رائے کو ویٹو کردیا اور اپوزیشن سے بات کرنے سے انکار کردیا۔ کسی بھی پارلیمانی اور جمہوری نظام میں اپوزیشن نظرانداز نہیں کی جاسکتی، مگر حکومت یک طرفہ طور پر سخت مزاجی سے کام لے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا ہر شہری اور کاروباری طبقہ عمران خان اور اُن کی ٹیم کو بھگت رہا ہے۔ ڈھائی سال کی مدت جس طرح حکومت نے مکمل کی ہے، اگلے ڈھائی سال کے لیے اسے اپنی خو بدلنا ہوگی۔ فیصلہ اب تحریک انصاف کو کرنا ہے اسے چاہیے کہ اگلے ڈھائی برسوں میں ایسے کام کر جائے جس کے نتیجے میں عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ واقعی بہتر تبدیلی آئی ہے۔ تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کو یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انتخابات میں انہیں جس طرح حمایت ملی یا دلائی گئی اُس کی وجہ یہی تھی کہ سابق حکمران جماعتیں ناکام تھیں۔ وزیراعظم اور ان کے مشیروں کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ اپوزیشن میں جو تھوڑی بہت جان پڑی ہے، اس کی وجہ صرف حکومت کی ناقص کارکردگی ہے، وگرنہ سب جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک تو اپوزیشن کے لیے ڈھنگ کا جلسہ تک کرنا مشکل تھا۔ معاشی محاذ پر پے در پے نااہلیوں، اور مہنگائی پر قابو پانے میں حد درجہ ہزیمتوں کی وجہ سے عوام کا حکومت پر سے اعتبار ختم ہونا شروع ہوچکا ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک میں کوئی کشش نہیں ہے، تاہم عوام مہنگائی کے خلاف ردعمل میں اس کے ساتھ کھڑے ہورہے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس اور کوئی ایسا مقناطیس نہیں جو لوگوں کو حکومت کے خلاف گھروں سے نکال سکے۔ لیکن تحریک کے دنوں میں بھی حکومت کبھی بجلی کی قیمت بڑھا دیتی ہے اور کبھی چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس نہیں لیتی۔ حکومتی وزرا چونکہ اس حوالے سے تو حکومت کا دفاع کر نہیں سکتے، اِس لیے وہ اپوزیشن پر کرپشن بچاؤ مہم کا الزام لگاکر سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی باتوں سے عوام کوکیا ریلیف مل رہا ہے؟احتساب کا ڈھنڈورا پیٹنا بھی حکومت کا کام نہیں، یہ نیب کا کام ہے اور اُسے ہی کرنے دیا جائے۔ وزیراعظم کے اس جملے میں بھی عوام کے لیے کوئی کشش نہیں رہی کہ یہ سب این آر او مانگ رہے ہیں، آج انہیں دے دوں تو کل یہ تحریک ختم کردیں گے۔ ایک طرف وزیراعظم اور وزرا کا یہ دعویٰ کہ ملک کے تمام معاشی اشاریے مثبت جا رہے ہیں اور معیشت بہتر ہورہی ہے، دوسری طرف عوام پر مہنگائی کا بوجھ ہر نئے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ ریلیف دینے کی باری آتی ہے تو پیٹرول ڈیڑھ روپیہ لیٹر بھی بڑی مشکل سے سستا ہوتا ہے، بڑھاتے وقت بے دریغ اضافہ کردیا جاتا ہے۔ چینی کے معاملے میں یہ خبریں تو آتی ہیں کہ مقدمات درج ہورہے ہیں، گرفتاریاں بھی متوقع ہیں، مگر حکومت چینی کے نرخ کم کرانے میں بالکل بے بس ہے۔ آٹے جیسی بنیادی جنس بھی عوام کے لیے جنس ِ نایاب بن جاتی ہے۔ یہ وہ حکومت ہے، جس نے کئی دہائیوں بعد پہلی بار ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا، الٹا انکم ٹیکس کا سلیب کم کرکے ٹیکس بڑھا دیئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب لوگوں کی آمدنی میں کوئی اضافہ ہی نہیں ہوا تو وہ بڑھی ہوئی قیمتوں کے مطابق وسائل کہاں سے لائیں گے؟ آئی ایم ایف کی کوئی شرط نہ ماننے کا دعویٰ لے کر آنے والی حکومت نے آئی ایم ایف کی ایسی شرائط بھی مان لیں جو وہ خود بھی ناممکن سمجھتے تھے۔ ہر چیز پر سبسڈی ختم کردی، تنخواہوں میں اضافہ روک دیا، بجلی مہنگی کردی، گیس کے نرخ بڑھا دیئے، ایسی اشیاء پر بھی ٹیکس لگا دیئے جو پہلے عوام کو ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے سستے داموں مل جاتی تھیں۔ حکومت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اپوزیشن مشکلات پیدا کرنے کے بجائے اس کے لیے سہارا بن رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کے اثرات پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک پر بھی مرتب ہوں گے، تاہم یہ وزیراعظم عمران خان کے لیے بھی ایک اہم موقع ہے کہ وہ عوام کی مشکلات کم کرنے پر توجہ دیں۔
محکمہ شماریات کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ہفتۂ رفتہ کے دوران مہنگائی مزید بڑھی ہے، انتظامیہ گرانی کنٹرول نہیں کر پارہی، اور نہ ہی حکومتی دعوے پورے ہورہے ہیں۔ تاجر برادری نے اس اضافے کی ذمہ داری موسم اور بار برداری کے بڑھے ہوئے اخراجات پر ڈالی کہ ٹرک مالکان نے کرائے بڑھادیئے ہیں۔
nn