انتخابی اصلاحات اور دھاندلی کا تنازع

دہرے معیارات اور تضاد ات پر مبنی سیاست کے ساتھ شفاف انتخابات کی منزل قریب نہیں آسکتی

پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جو بھی جماعت انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہےوہ یہ کہتی ہے کہ انتخابات بہت ہی آزادانہ اور شفاف تھے۔ جبکہ ہارنے والی جماعت کے بقول انتخابات دھاندلی پر مبنی تھے اور ہم نتائج کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ 1970ء سے 2018ء تک ہونے والے انتخابات کی تاریخ محاذ آرائی، سیاسی تلخیوں، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلتوں، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو قبول نہ کرنے جیسے امور سے جڑی نظر آتی ہے۔ انتخابات میں دھاندلی دو سطحوں پر ممکن ہوتی ہے۔ اوّل انفرادی یا جماعتی سطح پر، دوئم ادارہ جاتی سطح پر، جو زیادہ سنگین معاملہ ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کے خلاف ایک طویل دھرنا دیا۔ اس دھرنے کے نتیجے میں اہم سطح کے دو اقدامات ہوئے:
(1) انتخابی دھاندلی کو جانچنے کے لیے ایک عدالتی کمیشن بنا۔ اس کمیشن نے حتمی فیصلہ دیا کہ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئی تھیں، اور مستقبل کے انتخابات کے تناظر میں 42کے قریب تجاویز بھی دی گئیں۔ اس فیصلے کو تحریک انصاف نے من و عن تسلیم کرلیا۔
(2) ملک میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت اور حزبِ اختلاف پر مشتمل 35رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی، جسے انتخابی اصلاحات کو مؤثر اور شفاف بنانا تھا۔ اُس وقت حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ عدالتی کمیشن نے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے جو بھی تجاویز دی تھیں ان پر کام مکمل کرلیا گیا ہے اور نئے انتخابات ہر صورت منصفانہ اور شفاف ہوں گے۔
لیکن 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کو بھی حزبِ اختلاف نے اسٹیبلشمنٹ کی کامیابی اور دھاندلی زدہ انتخابات قرار دے کر عمران خان کی حکومت کو ’’سلیکٹڈ اور اسٹیبلشمنٹ کی حکومت‘‘ قرار دیا۔ اس وقت بھی حزبِ اختلاف کسی بھی صورت میں عمران خان حکومت کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ حزب اختلاف کا مطالبہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو، اور ملک میں نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں۔ حالیہ گلگت بلتستان کے انتخابات کو بھی حزبِ اختلاف جعلی انتخابات کا درجہ دے چکی ہے اور وہاں بھی تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو قبول نہیں کیا جارہا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہمارا مسئلہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں؟ یا بس ہماری جیت ہی عملاً شفاف انتخابات کی ضمانت ہوگی؟
حزب اختلاف کے بقول 2018ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے باہمی گٹھ جوڑ سے رزلٹ ٹرانسمیشن مینجمنٹ سسٹم یعنی آر ٹی ایس کو خراب کرکے مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے۔ اس سے قبل عمران خان کے بقول 2013ء میں ان کے سیاسی مینڈیٹ کو چرایا گیا تھا، اور اُن ہی انتخابات کو آصف علی زرداری نے آر اوزکا انتخاب قرار دیا تھا۔ ایک بنیاد یہ بنائی جاتی ہے کہ ہمارے سیاسی و انتخابی نظام میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت رہتی ہے اس لیے شفاف انتخابات کا عمل ممکن نظر نہیں آتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہوتی ہیں اُن کو انتخابی دھاندلی سے کوئی خاص تکلیف نہیں، اور جو اسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھی جاتی ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں اور اپنی ناکامی کو بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کے کھاتے میں ڈالتی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر انتخابی اصلاحات کے تناظر میں ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اوربائیو میٹرک تصدیق کے بعد ووٹ ڈالنے کے حق اور سینیٹ میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ کار اختیار کرنے کی بات کی ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو حقِ رائے دہی دینے کے لیے ای ووٹنگ سسٹم کی سہولت فراہم کرنے کی بات بھی کی ہے۔ حکومت کے بقول حزبِ اختلاف ان معاملات پر ہم سے تعاون کرے تاکہ شفاف انتخابات کی طرف پیش رفت کی جاسکے۔ وزیراعظم عمران خان بار بار سینیٹ کے موجودہ طریقہ انتخاب پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں، اور ان کے بقول خفیہ رائے شماری کرپشن کی سیاست پیدا کرتی ہے۔ تحریک انصاف نے ماضی میں اپنے اُن 20 ارکان کو بھی پارٹی سے نکال دیا تھا جو پارٹی سے غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔
وزیراعظم کی انتخابی اصلاحات کی یہ تجویز ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حزبِ اختلاف نے حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے حکومت گرائو مہم شروع کی ہوئی ہے۔ حزبِ اختلاف کے بقول دسمبر اور جنوری تک حکومت کو ہر صورت میں گھر بھیج دیا جائے گا۔ اِس وقت حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان سیاسی تلخی اور بداعتمادی یا سیاسی تقسیم بھی عروج پر ہے۔ کوئی بھی فریق دوسرے کے سیاسی وجود یا مینڈیٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، ایسے میں انتخابی اصلاحات پر کیسے بات ہوگی اورکیوں حزبِ اختلاف حکومت کی جانب دستِ تعاون بڑھائے گی؟ حزبِ اختلاف کا خیال ہے کہ حکومت ہمیں مذاکرات یا اصلاحات کے نام پر گھیرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی تاکہ اپنی حکومت کو بچایا جاسکے۔ اس لیے حزبِ اختلاف اسے ایک سیاسی چال ہی سمجھتی ہے۔
ایک مسئلہ جہاں انتخابی اصلاحات کا ہے، وہیں عمومی طور پر ہمارے سیاسی کلچر، سیاسی جماعتوں کے کمزور داخلی نظام اور عدم شفافیت پر مبنی اہم مسائل ہیں۔ کیونکہ انتخابی دھاندلی صرف وہ نہیں ہوتی جو انتخابات کے دن ہوتی ہے، یا یہ کام صرف سرکاری مشینری ہی کرتی ہے۔ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں مقامی سطح پر نہ صرف خود دھاندلی کرتی ہیں بلکہ دھونس، دھاندلی، بدمعاشی، خوف، جبر، تشدد اور ووٹ کی خرید و فروخت جیسے معاملات میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادتوں نے اس کام کے لیے باقاعدہ مافیاز پالے ہوتے ہیں جو سیاسی قیادت کی مدد سے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار پیسوں کی بنیاد پر سرکاری مشینری کو اپنے حق میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جب خود اپنی اصلاح نہیں کریں گی تو کیسے شفاف انتخابات کا کلچر نمایاں ہوگا؟
اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو خود منظم ہونا ہوگا، اور ہر وہ برا عمل جو وہ کرتی ہیں اس سے کنارہ کشی اختیارکرنا ہوگی۔ سیاسی جماعتیں خود اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے لیے اپنے ہی سیاسی اور جمہوری نظام کی مخالف بن جاتی ہیں۔ اسی طرح اپنی شکست کو قبول کرنے کا کلچر بھی عام کرنا ہوگا۔ محض انتخابی دھاندلی کا نعرہ بلند کرکے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا بھی کوئی بہتر طور طریقہ نہیں۔ یہی سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو پوری سرکاری مشینری کا ضمنی یا دیگر انتخابات میں بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ضرور مزاحمت ہونی چاہیے کہ وہ بھی انتخابی عمل پر اثرانداز نہ ہو، ا ور نہ اپنی مرضی کے فیصلے کرکے جمہوری عمل کو کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ بنے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب خود سیاسی جماعتیں اور جمہوری حکومتیں اپنا بھی احتساب کریں کہ شفاف اورمنصفانہ انتخابات کے انعقاد میں ان کا اپنا سیاسی اور جمہوری مقدمہ کیا ہے، اور وہ خود کس حد تک شفافیت پر مبنی نظام پر یقین رکھتی ہیں۔کیونکہ دہرے معیارات اور تضاد ات پر مبنی سیاست کے ساتھ شفاف انتخابات کی منزل قریب نہیں آسکتی۔
nn