ٹرمپ کی شکست کے باوجود ”افغان پالیسی“ برقرار رہےگی
18 نومبر کو امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع جناب کرسٹوفر ملر نے افغانستان اور عراق سے فوجیوں کی واپسی کا اعلان کردیا۔ جناب ملر نے کہا کہ اگلے سال 15 جنوری تک افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی تعداد 2500 کردی جائے گی۔ صدر ٹرمپ اپنی 2016ء کی انتخابی مہم کے وقت سے افغانستان کو امریکی فوج کے لیے دلدل اور ٹیکس دہندگان کے لیے بھاری بوجھ قرار دے رہے ہیں۔ اپنے رفقا کی مجلس میں انھوں نے کئی بار کہاکہ کرپشن، سفارش اور اقرباپروری میں لتھڑی کابل انتظامیہ کے لیے تیزوطرار اور سخت جان ملائوں کو شکست دینا ناممکن ہے اور اپنی اَنا کے گنبد میں بند کابل کے ڈاکٹر (ڈاکٹر عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف غنی) صاحبان کو زمینی حقائق کا بالکل بھی ادراک نہیں۔ امریکہ کے زیرانتظام تعمیرنو کے کام پر نظر رکھنے والی مقتدرہ ’’اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیرنو‘‘ یا CIGARنے تخمینہ لگایا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام اور حکومت کی اعانت پر واشنگٹن ہر سال 70 ارب ڈالر خرچ کررہا ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ حکومتی اہلکاروں، جنرل عبدالرشید دوستم، اسماعیل خان اور دوسرے قبائلی سرداروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ افغان فوج میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ چرس و بھنگ خریدنے اور نشے کا شوق پورا کرنے کے لیے سرکاری سپاہی شہریوں کو لوٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ امریکی سراغ رساں اداروں نے شک ظاہر کیا ہے کہ افغان حکومت کے اہلکار اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے طالبان کو اسلحہ فروخت کررہے ہیں۔ کئی وارداتوں میں طالبان نے امریکی ساختہ ہموی بکتربند گاڑیاں استعمال کی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو مالِ غنیمت ہیں یعنی امریکی و نیٹو افواج سے چھینی گئی ہیں، لیکن شمالی افغانستان میں استعمال ہونے والا زیادہ تر اسلحہ سرکاری فوج نے طالبان کو فروخت کیا ہے۔
اپنی تقریروں میں صدر ٹرمپ نے افغانستان پر امریکی حملے کو غیر ضروری اور سابق صدر بش کی بہت بڑی غلطی قرار دیا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 11 ستمبر2001ء کو جب دہشت گردی کے واقعے المعروف نائن الیون کا ظہور ہوا تو اس کے صرف 24 گھنٹے بعد ابتدائی تحقیق سے بھی پہلے امریکہ نے افغانستان پر حملے کا اعلان کردیا۔ اُس وقت تک حملہ آوروں کی شناخت تو دور کی بات اُن کی تعداد کا تعین بھی نہیں ہوا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جو 19 دہشت گرد اس خون آشامی کے ذمہ دار ٹھیرائے گئے، اُن میں سے ایک بھی افغانی نہ تھا۔ صدر ٹرمپ اپنی تقریروں کے دوران اشاروں کنایوں میں اس حقیقت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ عراق کے بارے میں تو صدر ٹرمپ بہت کھل کر کہتے ہیں کہ صدام حسین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار یا WMDکا حصول سابق صدر بش کا تصنیف کردہ سفید جھوٹ تھا۔
صدر ٹرمپ کو افغانستان میں امریکی فوج کے کردار پر بھی سخت اعتراض ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ دشمن کا سر توڑنے کے لیے دلاوروں کو دوسرے ملک بھیجا جاتا ہے۔ ان کا یہ کام نہیں کہ بیرکوں میں بیٹھ کر میزبان ملک کے فوجیوں کو تربیت دیں اور حکومتی عمّال کو کرپشن سے پرہیز کے لیکچر اور اچھی طرزِ حکمرانی کے گر سکھائیں۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوج پولیس کا کردار ادا کررہی ہے جو ہمارے جوانوں کے شایانِ شان نہیں۔ ایک بار جوشِ خطابت میں موصوف کہہ گئے کہ طالبان کو کچلنا ناممکن نہیں لیکن اس کے لیے جو کارروائی ضروری ہے اس میں ایک کروڑ افغان شہریوں کے مارے جانے کا امکان ہے۔
اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے امریکی فوج کو افغانستان ’’فتح‘‘ کرنے کا آخری موقع دیا۔ اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کے ساتھ اپنے جرنیلوں کی منہ مانگی شرائط پوری کردیں اور فوجی حکمتِ عملی کے معاملے میں مکمل آزادی بلکہ قتلِ عام کا لائسنس دے دیا گیا۔ 13 اپریل 2017ء کو ننگرہار کے ضلع آچن پر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم GBU-43گرایاگیا۔ اس دیوہیکل بم کا ٹیکنیکل نام Massive Ordnance Air Blast Bomb یا موب ہے، لیکن ہلاکت خیزی کی بنا پر اسے ’’بموں کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں تباہی پھیلانے والے اس منحوس و نامراد کو ماں کے بجائے ڈائن کہنا چاہیے۔ 10 ٹن وزنی اور 30 فٹ لمبے اس بم کا قطر 40 انچ ہے، جس کے پھٹنے پر دھماکے کی شدت 11 ٹن TNT کے مساوی ہے۔ ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کی تاثیر 15 ٹن TNTکے برابر تھی۔ غیر معمولی حجم اور وزن کی بنا پر اسے روایتی بمبار طیاروں میں نصب کرنا ممکن نہیں، لہٰذا اسے C-130مال بردار طیارے سے پھینکا گیا۔ امریکہ کے گوداموں میں ایسی 19 ’’ڈائنیں‘‘ اور موجود ہیں۔ دوسرے بموں کے برعکس GBU-43 سطح زمین سے 50 فٹ اوپر پھٹتا ہے اور 11 ٹن بارود کے قیامت خیز دھماکے سے انسانوں اور جانوروں کے کان کے پردے پھٹ جاتے ہیں اور دماغ مائوف ہوجاتے ہیں۔ زیر زمین سرنگیں زمیں بوس ہوجاتی ہیں اور انہدام کا عمل ایسی برق رفتاری سے ہوتا ہے کہ خندقوں میں پناہ لینے والوں کو فرار تو دورکی بات، سانس لینے کا موقع بھی نہیں ملتا، اور یہ زیرزمین پناہ گاہیں قبرستان بن جاتی ہیں۔ دھماکے سے اٹھنے والے شعلوں کی حدت ایک طرف تو 3 سے 5 کلومیٹر کے علاقے میں موجود ہر چیز کو جھلسا کر رکھ دیتی ہے، اور دوسری جانب یہ خوفناک آگ فضا میں موجود آکسیجن کو پھونک دیتی ہے جس سے ہر متنفس کا دم گھٹ جاتا ہے۔ آکسیجن کے فنا ہونے سے دھماکے کی جگہ پر ایک مہیب خلا پیدا ہوتا ہے اور قریب موجود لوگ کھنچ کر آگ کے الائو میں گر پڑتے ہیں۔ پینٹاگون (امریکی وزارتِ دفاع) کا دعویٰ تھا کہ اس حملے سے ایک بھی شہری متاثر نہیں ہوا۔ ’’بموں کی ماں‘‘ نے چن چن کر صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا اور شہریوں کو اپنے دامنِ رحمت میں چھپا لیا۔ ہندوستانی حکومت کے مطابق اس حملے میں بھارتی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 20 افراد بھی جاں بحق ہوئے جو مبینہ طور پر داعش کی نصرت کو افغانستان گئے تھے۔
کھلی اجازت کے بعد اس قسم کی وحشیانہ قوتِ قاہرہ کے آزادانہ استعمال سے شہری ہلاکتیں تو بڑھیں لیکن زمینی صورتِ حال میں کوئی فرق نہ آیا، اور طالبان کو اُن کے مورچوں سے ایک انچ بھی پیچھے نہ دھکیلا جاسکا، چنانچہ صدر ٹرمپ نے اپنی دکان بڑھا لینے کا فیصلہ کرلیا۔ طالبان سے براہ ِراست مذاکرات ہوئے اور امسال 29 فروری کو فوجی انخلا کا معاہدہ طے پاگیا، جس کے تحت طالبان کی جانب سے واپس ہوتی نیٹو افواج کے لیے پُرامن راستہ فراہم کرنے اور افغان سرزمین امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانیوں کے بدلے امریکہ نے نومبر تک اپنے فوجیوں کی تعداد 4 سے 5 ہزار تک کرلینے کا وعدہ کیا، جبکہ مکمل انخلا کے لیے مئی 2021ء کا ہدف طے ہوا۔
معاہدے پر دستخط ہوتے ہی امریکی سپاہیوں کی واپسی شروع ہوئی۔ اس دوران کو رونا کی بناپر امریکی وزیردفاع نے فوجیوں کی نقل وحرکت روک دی تھی، لیکن صدر ٹرمپ نے ایک خصوصی حکم کے تحت افغانستان سے انخلا کو استثنیٰ دے دیا۔ 24 جولائی کو امریکی مرکزِ دانش یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس یا USIPکی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قطر امن بات چیت میں امریکی وفد کے قائد زلمے خلیل زاد نے انخلا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 15000 سے کم کرکے 8600 کردی گئی ہے، اور بقیہ امریکی فوج کا انخلا جولائی 2021ء تک مکمل کرلیا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ امریکہ اپنے پانچ فوجی اڈے خالی کرچکا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے خالی کیے جانے والے اڈوں کے نام نہیں بتائے، لیکن عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ ہرات میں شین ڈنڈ، قندھار ائرپورٹ، ہلمند میں گرم سیر اور کیمپ لیدرنیک اور صوبہ نمروز کے شہر دلارام کے اڈے خالی کردیے گئے ہیں، اور تمام نفری سمیٹ کرکابل کے قریب بگرام اڈے پر جمع کردی گئی ہے۔
8 اکتوبر کی صبح ایک مختصر ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہمیں افغانستان میں خدمات سرانجام دینے والے اپنے بہادر مردو خواتین کو کرسمس تک واپس امریکہ بلا لینا چاہیے‘‘۔ اس سے چند گھنٹے پہلے امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ اوبرائن نے جامعہ نواڈا، لاس ویگاس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 2500 کردی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان دھڑوں کی امن معاہدے پر رضامندی طویل اور کٹھن ہے لیکن افغانوں کے لیے امن کا کوئی متبادل نہیں۔
چند دن بعد فاکس ٹیلی ویژن سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ طالبان سمیت تمام افغان دھڑے امن کے لیے مخلص ہیں اور کچھ ہی عرصے میں امن معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ طالبان جنگ و جدل پر آمادہ، بہادر، مضبوط اور بہت تیز تو ہیں لیکن امن کے لیے اُن کے اخلاص پر شک کی کوئی وجہ نہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنا مؤقف دہرایا کہ دوسروں کے جھگڑے میں اپنے بہادر جوانوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دینا سراسر حماقت ہے۔
امریکی انتخابات کی گہماگہمی میں افغانستان کا معاملہ کچھ پیچھے ہوتا نظر آیا، لیکن زلمے خلیل زاد اور وزیرخارجہ مائیک پومپیو قطر میں موجود طالبان قیادت سے رابطے میں رہے، بلکہ خود صدرٹرمپ نے فون پر طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے بات کی۔
انتخابات کے بعد جہاں صدر ٹرمپ نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالتی و عوامی جدوجہد کے آغاز کا عندیہ دیا، وہیں فوجوں کی واپسی تیز کرنے کے لیے پینٹاگون کو ہدایت جاری کردی۔ شنید ہے کہ وزیردفاع مارک ایسپر افغانستان اور عراق سے فوجوں کی واپسی کے کام کو معطل کرکے مزید کارروائی نئی انتظامیہ کے قیام تک مؤخر کردینا چاہتے تھے، جس پر صدر ٹرمپ نے انھیں بصد سامانِ رسوائی برطرف کردیا۔
اسی کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ملر نے قائم مقام وزیر دفاع کا منصب سنبھال لیا۔ قائم مقام اس لیے کہ امریکہ میں کابینہ کے ارکان کا تقرر سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہے۔ نئی سینیٹ جنوری میں حلف اٹھائے گی، جس کے بعد ہی توثیق کی کارروائی کا آغاز ہوگا۔ صدر ٹرمپ کی مدتِ صدارت 20 جنوری کو ختم ہورہی ہے، چنانچہ لگتا ہے کہ جناب ملر قائم مقام کی حیثیت سے ہی سبکدوش ہوجائیں گے۔ 55 سالہ سابق کرنل کرسٹوفر ملر ایک عسکری دانشور ہیں کہ موصوف افغانستان اور عراق میں کمپنی کمانڈر رہ چکے ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے امریکہ کی موقر جامعہ جارج واشنگٹن سے امتیاز کے ساتھ بی اے بھی کیا ہے۔
اپنی تقرری کے فوراً بعد فوج کے نام ایک یادداشتِ عام یا Memo میں انھوں نے کہاکہ القاعدہ کی شکست نوشتۂ دیوار ہے، چنانچہ ہمارے جوانوں کے گھر واپس آنے کا وقت آچکا ہے۔ اپنے میمو میں کرنل ملر نے کہا کہ ہمارے بہت سے جوان طویل جنگ سے تھک گئے ہیں، ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ تاہم ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت ہے کہ اب ہمارا کردار قیادت سے اعانت میں تبدیل ہورہا ہے۔ میمو میں کہا گیا کہ جنگ کا خاتمہ معاہدے پر ہوتا ہے اور اس حوالے سے ہماری پیش رفت تسلی بخش ہے۔ واشنگٹن کے عسکری ماہرین نے میمو کو کرسمس سے پہلے افغانستان و عراق سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ قرار دیا تھا، جس کی تصدیق چند ہی دن بعد ہوگئی جب وزیرموصوف نے افغانستان میں امریکی سپاہیوں کو تعداد کو 2500 کرنے کا باضابطہ حکم جاری کردیا۔
خیال ہے کہ امریکی فوج کی یہ مختصر نفری اب کابل ائرپورٹ، امریکی سفارت خانے اور بگرام بیس کی حفاظت پر مامور ہوگی۔ اسی دوران امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو قطر پہنچے اور یہی پیغام افغان مذاکراتی ٹیم کو بھی پہنچا دیا گیا۔ پیغام بڑا سادہ اور واضح ہے کہ ’’میاں خوش رہو، ہم دعا کرچلے‘‘ یعنی اب تم جانو اور مُلاّ، بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا۔ فوجی انخلا کے اس دوٹوک اعلان کے بعد کابل میں سراسیمگی کے آثار واضح ہیں۔ افغان حکومت کو معلوم ہے کہ غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد منشیات کی لت میں مبتلا ان کے سپاہیوں کے لیے طالبان کا مقابلہ ناممکن حد تک مشکل ہے۔ معاملہ صرف عسکری اعانت کا نہیں بلکہ اب کابل پر ڈالروں کی بارش بھی تھمنے کو ہے، اور اگر ایسا ہوا تو کابل سرکار کے لیے اپنے ملازمین کے لیے تنخواہ دینا بھی ممکن نہ ہوگا۔ 19 سال سے برستے امریکی من و سلویٰ نے عادتیں بگاڑدی ہیں اور ان کے لیے نئی حقیقت کا سامنا اتنا آسان نہ ہوگا۔ یورپی یونین نے کابل انتظامیہ کی مالی و عسکری اعانت برقرار رکھنے کا وعدہ کیا ہے، تاہم کورونا وائرس کی وبا سے ان ملکوں کی معیشتیں شدید دبائو میں ہیں اور یورپ کے لیے بڑی رقم کی فراہمی ممکن نظر نہیں آتی۔ ازبک جنگجو رہنما عبدالرشید دوستم نے طالبان کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، لیکن کابل کے ڈاکٹر صاحبان کو دوستم کی صلاحیت اور نیت دونوں ہی مشکوک لگ رہی ہیں۔
قطر میں ہونے والی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کابل کا وفد طالبان کی شرائط پر مذاکرات کے لیے تیار ہوگیا ہے۔ 21 نومبر کو سرکاری وفد کی رکن محترمہ فوزیہ کوفی نے کہا کہ کئی ہفتوں کے تعطل کے بعد وفود کی شکل میں ہونے والے مذاکرات آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں اور ایجنڈے کے کچھ نکات پر اتفاق ہوگیا ہے۔ فوزیہ صاحبہ پُرامید ہیں کہ طالبان جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں گے۔
جیسا کہ ہم اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں، قطر مذاکرات کے دونوں فریق گفتگو کے ابتدائیہ پر ہی یکسو نہیں۔ طالبان کا اصرار ہے کہ فروری میں ہونے والے طالبان امریکہ معاہدے کو بین الافغان مذاکرات کی بنیاد بنایا جائے۔ اس کی تشریح کابل وفد کے خیال میں یہ ہے کہ قطر بات چیت، طالبان سے مراعات کے لیے کابل انتظامیہ کی منت سماجت ہے، چنانچہ ڈاکٹر صاحبان بین الافغان مذاکرات سوداکاری کے انداز میں کرنا چاہتے ہیں، یعنی طالبان کو شرکتِ اقتدار، قیدیوں کی رہائی اور پابندیوں کے خاتمے کے عوض ہتھیار رکھنے اور افغان دستور کی غیر مشروط وفاداری پر آمادہ کیا جائے۔ پچھلے ہفتے ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا کہ امریکی معاہدے کے بجائے قرآن و شریعت کو بات چیت کی بنیاد بنایا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت نہیں کی کہ اس سے اُن کی کیا مراد ہے؟
ادھر میدان میں طالبان کی عسکری سرگرمیاں جاری ہیں۔ تقریباً سارے افغانستان میں انھوں نے کابل فوجیوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے، اور ایک اندازے کے مطابق دو سے تین درجن سرکاری فوجی ہر روز مارے جارہے ہیں۔ حال ہی میں طالبان نے ڈرون کا استعمال بھی شروع کردیا ہے، جس سے ان کی کارروائیاں مزید مہلک ہوگئی ہیں۔ طالبان پہلے ہی بہت صراحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ امن معاہدے سے پہلے وہ اپنے ہتھیار نہیں رکھیں گے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بات چیت کے ساتھ حملے جاری رکھ کر طالبان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ امن بات چیت ڈاکٹر صاحبان کی مجبوری ہے۔ طالبان میز اور میدان دونوں جگہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔
فوجی انخلا اور اس کے نتیجے میں نئے زمینی حقائق افغان حکومت کے بدلتے تیور سے بھی عیاں ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورۂ کابل اور اس دوران اشرف غنی کی نرم و شیریں گفتگو کو سیاسی و سفارتی مبصرین بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کے قدامت پسند عناصر اپنی فوج کی واپسی کو شکست قرار دے رہے ہیں۔ سینیٹ کے قائدِ ایوان سینیٹر مچ مک کانل نے کہا کہ فوجی انخلا دہشت گرد انتہا پسندوں کے لیے اچھی خبر ہے۔ صدر ٹرمپ کے سابق مشیر قومی سلامتی جنرل مک ماسٹر نے بھی فوجی انخلا پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے افغانستان کے 5 فیصد طالبان کو خوشی اور 95 فیصد عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔ جنرل مک ماسٹر سے صدر ٹرمپ کی اس سے قبل بھی جھڑپ ہوچکی ہے۔ جب صدر ٹرمپ نے پہلی بار افغانستان سے فوجی واپس بلانے کی بات کی اُس وقت جنرل مک ماسٹر ان کے مشیرِ قومی سلامتی تھے۔ جب جنرل صاحب نے افغانستان میں امریکی فوج رکھنے کی تزویراتی اہمیت بیان کی تو صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر انھیں ڈانٹ پلادی۔ اس توہین پر جنرل مک ماسٹر نے استعفیٰ دے دیا۔ صدر ٹرمپ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل صاحب کو برطرف کیا گیاتھا۔
اَنا کے قتیل صدر ٹرمپ پہلے بھی اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے تھے، اور اب جبکہ ان کی رخصتی کو چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں وہ کیوں کسی کی سنیں گے؟ نومنتخب صدر جوبائیڈن مکمل فوجی انخلا سے پہلے افغانستان میں امن کو یقینی بنانا چاہتے ہیں، لیکن ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی وہاں امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 ہوچکی ہوگی۔ اس مختصر افرادی قوت کے ساتھ طالبان سے عسکری تصادم چچا سام کے حق میں نہ ہوگا، اور نئی انتظامیہ کے لیے ٹرمپ افغان پالیسیوں کا تسلسل ہی منظقی معلوم ہوتا ہے۔
nn
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔
nn