نواب بگٹی کے ساتھ گزرے لمحات کو قلمبند کررہا ہوں تو اس کو اب 47 سال ہوچکے ہیں، لیکن لگتا ہے ابھی کل کی بات ہے۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ یادداشت بہتر ہے۔ نواب بگٹی سے چوتھی ملاقات سے قبل انتہائی اختصار کے ساتھ کچھ اہم واقعات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ان واقعات کے اثرات اتنے ہمہ گیر تھے کہ نواب تک ان سے نکل نہیں سکا۔ اور بعض گھائو اتنے گہرے کہ ان کے زخم ابھی بھی ہرے ہیں اور ان سے خون ٹپکتا ہوا لگتا ہے۔ نواب بگٹی اور نیپ کی کشمکش اندرون خانہ بڑی تیز تھی لیکن باہر اس کے اثرات ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ ان کے تعلقات میں پہلی دراڑ اُس وقت پڑی جب نواب بگٹی نیپ کے بعض اہم سرداروں سے مل کر مشرقی پاکستان جارہے تھے تاکہ شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات کریں۔ نواب بگٹی ابھی ڈھاکا نہیں پہنچے تھے کہ نیپ کا اعلامیہ جاری ہوگیا کہ نواب بگٹی اپنی ذاتی حیثیت میں گئے ہیں، وہ نیپ کے نمائندہ نہیں ہیں۔ یہ ایک سیاسی دھماکا تھا جس کی گونج پورے بلوچستان میں سنی گئی۔ اس دھماکا خیز بیان نے بگٹی اور نیپ کی اندرونی کشمکش اور خلیج کو ظاہر کردیا۔ اندرونی کشمکش اور تضادات دلچسپ اور خوفناک تھے، ان کا ذکر نواب بگٹی نے اُس وقت مجھ سے کیا جب اُن سے تعلقات بہت گہرے ہوگئے تھے۔ میں ان کا رازداں بن گیا تھا۔ جب ان سے قربت گہری ہوگئی تو وہ اپنے دل کی بات مجھ سے کھل کر کرتے تھے۔ ڈھاکا سے واپسی پر نواب بگٹی اور نیپ کشمکش بڑی تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی۔ بھٹو نے بھانپ لیا کہ نیپ کے اندر دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں اور نواب ان کے کام آسکتا ہے۔ بھٹو اور نواب کے تعلقات پرانے تھے۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں نیپ کے 3 ممبر تھے، ایک خاتون کی نشست تھی اور 8 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کے 3 ممبر منتخب ہوئے تھے، مسلم لیگ کے جام غلام قادر منتخب ہوئے تھے۔ آزاد امیدواروں کی اکثریت نیپ میں شامل ہوگئی اور وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل بن گئے، اور جمعیت ان کے ساتھ حکومت میں شامل ہوگئی۔ بھٹو کا دورئہ سوویت یونین تھا، نواب بگٹی نیپ سے ناراض ہوگئے تھے اور وہ نیپ کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔ نواب کو بھٹو نے سوویت یونین کے دورے کی دعوت دی۔ اس طرح نواب کو سنہری موقع ہاتھ آگیا اور وہ بھٹو کے ساتھ دورے پر چلے گئے۔ واپسی پر نواب بگٹی نے برطانیہ میں ٹھیرنے کا فیصلہ کرلیا۔ نواب صاحب کے تمام اخراجات نبی بخش زہری کے ذمے تھے۔ نیپ کی حکومت 2 مئی 1972ء کو بنی اور فروری 1973ء میں بھٹو نے اسے ختم کردیا اور جام غلام قادر وزیراعلیٰ بنادیے گئے۔ نیپ کے قائدین اقتدار سے جیل میں پہنچادیے گئے۔ نیپ کے گورنر غوث بخش بزنجو تھیٍ ان کا دورِ گورنری 30 مارچ 1972ء سے شروع ہوکر 14 فروری 1973ء کو ختم ہوگیا۔ نیپ اور بھٹو کی کشمکش ابتدا ہی سے شروع ہوگئی تھی اور اس کا اختتام نیپ کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں ہوا۔ نواب بگٹی لندن میں تھے، ان کو کہا گیا کہ بلوچستان لوٹ آئیں۔ اور وہ واپس آکر گورنر بن گئے۔ اب بلوچستان میں ایک نئی کشمکش شروع ہوگئی۔ نواب بگٹی کا دورِ گورنری 15 فروری 1973ء کو شروع ہوا اور 31 دسمبر 1973ء کو ختم ہوگیا۔ نواب کی گورنری کے خلاف پہلا احتجاج ہم چند دوستوں نے کیا تھا، ہم میدان میں کھڑے تھے اور نیپ کے بعض مہربان افغانستان جارہے تھے، جبکہ کچھ سندھ کی طرف چلے گئے اور زیر زمین سیاست شروع کردی۔ میری تقریر کے نتیجے میں مجھ پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا اور کوئٹہ جیل سے مچھ جیل تک قید کا زمانہ رہا۔ میں نومبر میں رہا ہوگیا اور بگٹی صاحب 31 دسمبر کو ایوانِ گورنری سے بگٹی ہائوس لوٹ آئے۔ نیپ پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوگئے، حیدر آباد جیل میں مقدمہ چلتا رہا۔ دسمبر میں حکومت نے نواب خیر بخش خان کی قومی اسمبلی کی نشست خالی قرار دے دی۔ یہ نشست مقدمہ بغاوت کی وجہ سے ختم ہوئی۔ 1970ء میں قومی اسمبلی کی اس نشست پر نواب خیر بخش خان کھڑے تھے، ان کے مدمقابل تاج محمد جمالی تھے۔ نواب نے یہ نشست جیت لی۔ جماعت اسلامی کے امیدوار جناب عبدالجید خان (مرحوم) تھے۔ بعد میں وہ تاج محمد جمالی کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ اب مقدمے کے بعد خالی نشست پر نواب بگٹی نے کوئٹہ، چاغی کی قومی اسمبلی کی نشست پر لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ خبر اخبارات میں شائع ہوگئی۔
یہ نشست کوئٹہ چاغی 36 (2) تھی۔ ڈاکٹر عبدالحئی بی ایس او کے چیئرمین رہ چکے تھے، انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست 37 قلات (1) سے انتخاب لڑا۔ ان کے مدمقابل خان قلات میر احمد یار خان کے صاحبزادے شہزادہ محی الدین تھے۔ وہ ہار گئے۔
اب اپنی چوتھی ملاقات جو نواب بگٹی سے بگٹی ہائوس میں ہوئی، اُس کے ذکر سے شروع کرنا چاہتا ہوں۔ اپنے دوستوں رشید بیگ، عبدالماجد فوز، ضیاء الدین ضیائی، عبدالصمد خلجی سے بلدیہ ہوٹل میں ملاقات ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ اس انتخاب میں نواب بگٹی کی حمایت کرنا چاہتا ہوں۔ دوستوں کی رائے مختلف تھی، وہ آمادہ نہ تھے، صرف رشید بیگ آمادہ تھے اور وہ میری رائے سے متفق ہوگئے تھے۔ میرے بعض جماعت اسلامی کے ہمدرد میری رائے سے اختلاف رکھتے تھے، میری رائے پختہ ہوگئی اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ نواب بگٹی سے ملاقات کروں گا اور سلیم بگٹی کے انتخاب میں بھرپور حصہ لوں گااور نواب بگٹی کے اسٹیج سے بھٹو کے خلاف بھرپور مہم چلائوں گا تاکہ بگٹی اور بھٹو کے درمیان دوری پیدا ہو اور جیل کے دنوں کے تلخ لمحات کو عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ بعض دوستوں نے کہا کہ یار امان ابھی تک آپ کی روش ہماری سمجھ میں نہیں آئی، کل تک آپ نواب بگٹی کے قیدی تھے اور اب ان کی حمایت کریں گے؟ میرا جواب تھا کہ ہاں یہی میرا فیصلہ ہے۔ ضیاء الدین ضیائی (مرحوم) ایئرمارشل اصغر خان کے پرسنل سیکرٹری بن گئے تھے۔ انہوں نے ایک بڑا تلخ خط لکھا اور مجھ پر طنز کیا کہ آپ کے خیالات انقلابی ہیں اور اب آپ ایک شہزادے کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں! لیکن میں نے اس خط کو اور ایک مہربان دوست کی رائے کو نظرانداز کردیا۔ وہ میرے مہربان تھے، تعلقات طویل عرصے کے تھے۔ اب فیصلہ کیا کہ نواب سے ملنا ہے۔ خدائے نور اس وقت ایئرمارشل اصغر خان کی پارٹی کے صوبائی صدر تھے۔ نواب سے ان کے تعلقات پرانے تھے، ان کا بگٹی ہائوس آنا جانا تھا۔ دوسرے عثمان کاسی تھے، وہ بھی نواب کے قریبی دوستوں میں سے تھے، ان کا تعلق نیپ سے تھا۔ جب نواب گورنر بنے تو ملک عثمان کاسی (مرحوم) کو پیغام بھیجا کہ میں تمہیں اپنا مشیر بنانا چاہتا ہوں، تیار ہو یا نہیں؟ اور ملک عثمان کے سامنے دو راستے رکھے: جیل جانا چاہتے ہو یا مشیر بننا چاہتے
(باقی صفحہ 41پر)
ہو؟ ملک عثمان نے نواب کی محبت میں مشیر بننا قبول کرلیا۔ ملک عثمان ایوب خان کے دور میں جیل کاٹ چکے تھے، اب وہ دوبارہ جیل جانا نہیں چاہتے تھے۔ وہ شاہی قلعہ لاہور کے قیدی رہ چکے تھے۔ اس لیے انہوں نے نواب بگٹی سے دوستی نبھائی اور نیپ کو خیر باد کہہ دیا۔ ملک عثمان سے روزانہ خدائے نور کی ساتھ ملاقات ہوتی تھی۔ خدائے نور کا جنرل اسٹور تھا اس لیے وہاں سیاسی گپ شپ چلتی تھی۔ ان دونوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں، آپ کی ملاقات نواب بگٹی سے کرادیں گے۔ دونوں سے سیاسی یارانہ تھا، اس لیے فیصلہ کیا کہ ان دونوں کے ساتھ نہیں جائوں اور ان کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے ان سے پوچھا کہ نواب بگٹی اپنے مہمان خانہ میں کس وقت آتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مغرب کے وقت وہ آجاتے ہیں۔
ایک شام ڈھلے بگٹی ہائوس جانے کا فیصلہ کرلیا اور جب بگٹی ہائوس میں داخل ہوا تو مہمان خانہ بھرا ہوا تھا۔ میں نے نواب صاحب کو سلام کیا، انہوں نے میری طرف حیرت سے دیکھا تو ملک عثمان (مرحوم) اور خدائے نور نے کہا کہ یہ شادیزئی ہے جس نے آپ کے خلاف تقریر کی تھی، اب جیل سے رہا ہوئے ہیں۔ نواب نے غور سے دیکھا اور مجھے خوش آمدید کہا۔ یوں یہ چوتھی ملاقات تھی۔ اور ان کی زندگی کے آخری لمحے تک ملاقاتیں جاری رہیں۔
(جاری ہے)