کتاب
:
عمرہ ڈائری
سفرنامۂ حرمین شریفین
مصنفہ
:
نسیم فیض
صفحات
:
272 قیمت:500 روپے
ناشر
:
جہانِ حمد پبلی کیشنز
رابطہ
:
03082516307
زیارتِ حرمین شریفین بڑے نصیب کی بات ہے۔ یہ سعادت جنھیں نصیب ہوجائے ان کی خوش نصیبی کا کیا کہنا! زادِ سفر، ظاہری اسباب اور وسائل نہ بھی ہوں لیکن طلب صادق ہو تو بلاوا آہی جاتا ہے۔
نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے
جسے چاہے جیسے چاہے نواز دے یہ درِ حبیب کی بات ہے
سفر سے لوٹنے والوں بالخصوص حرمین شریفین سے لوٹنے والوں سے اس مبارک سفر کے حالات و واقعات سننے کی روایت بہت پرانی ہے۔ حرمین شریفین کا سفر بذاتِ خود ایک بڑی سعادت اور مقدر کی بات ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اس مبارک سفر کی روداد ضبطِ تحریر میں آجائے تو قارئین بھی شریکِ سفر ہوجاتے ہیں اور خیرو برکت سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ زیارت ِ حرمین شریفین کے جتنے سفرنامے لکھے گئے ہیں کسی اور مقام کے سفر کے اتنے سفرنامے نہیں لکھے گئے۔ اس موضوع پر سیکڑوں سفرنامے لکھے جانے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور ان سفرناموں میں لوگوں کی دلچسپی بھی برقرار ہے۔
ہر زائرِ حرم اپنے سفر کی روداد ذاتی محسوسات کے حوالے سے مرتب کرتا ہے۔ لیکن زیارتِ حرمین شریفین کے سفرناموں میں بنیادی عنصر حرمین شریفین سے عقیدت و محبت کا تعلق ہے، جو ہر سفرنامے میں نمایاں نظر آتا ہے۔ زیارتِ حرمین شریفین کا ایک ایسا ہی خوبصورت سفرنامۂ عقیدت و محبت میرے پیش نظر ہے۔ ’’عمرہ ڈائری‘‘ کے نام سے محترمہ نسیم فیض صاحبہ (ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرکراچی) کا عقیدت و محبت اور ادب و احترام کے جذبات سے مملو یہ سفرنامہ ایک عمدہ کاوش ہے۔
’’عمرہ ڈائری‘‘ محترمہ نسیم فیض صاحبہ کے حرمین شریفین کے دو اسفارکی روداد ہے۔ مصنفہ نے پہلا سفر 2007ء میں کیا تھا، جب کہ دوسرا سفر 2014ء میں کیا۔ ان سفرناموں میں جہاں ایک جانب انھوں نے اپنے جذبات و محسوسات کو لفظوں میں ڈھالا ہے، وہیں زیارتِ حرمین شریفین اور عمرہ کی ادائیگی کے حوالے سے تمام تر ضروری معلومات بھی فراہم کی ہیں۔ عمرہ کی فضیلت، احرام کی پابندیاں، عمرہ کے فرائض و واجبات اور طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ طواف ِ بیت اللہ اور سعیِ مروہ وصفا کی تمام مسنون دعائیں بھی نقل کی ہیں۔ اس لیے اس ’’عمرہ ڈائری‘‘ کو ’’عمرہ گائیڈ‘‘ کی حیثیت بھی حاصل ہے۔
حرم شریف میں داخلے کے وقت مصنفہ کے جذبات اور اسلوبِ بیان ملاحظہ کیجیے:
’’ماحول کی گرفت نے مجھے اس بچے کی مانند کردیا ہے جس پر کمرۂ امتحان میں داخل ہوتے ہی تیاری کا شیرازہ بکھرنے کا خوف طاری ہوجاتا ہے۔ دعائے داخلہ کے بعد علماء کے بتائے ہوئے طریقے پر اعتکاف کی نیت کی: یااللہ جب تک میں حرم شریف میں ہوں اعتکاف کی نیت کرتی ہوں۔ باب فہد سے اترتے ہوئے نگاہیں جھکی ہوئی ہیں، اب ہم نیچے ہموار سطح کی راہداری سے ہوتے ہوئے تلبیہ پکارتے آگے بڑھ رہے ہیں۔ جیسے جیسے قدم بڑھتے گئے بیت اللہ کی عظمت و جلال کی کیفیت اعصاب پر طاری ہوتی گئی۔ رشک سے سرشار، قسمت پہ نازاں، شکرِ خدا میں ڈوبی ہوئی بخشش کی خواہاں، معافی کی طلب گار، نیم مدہوشی کی کیفیت میں چلتی رہی۔‘‘ (ص34)
حرمین شریفین کا سفر دراصل ایک روحانی سفر ہوتا ہے، جو انسان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ خالق کے ساتھ تعلق اور مضبوط ہوجاتا ہے، اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میں فزوں تر ہوجاتی ہے۔ انسان حرمین شریفین سے واپس نہیں آنا چاہتا۔ آجائے تو بس یہی دعا ہوتی ہے:
طیبہ جائوں اور آئوں پھر جائوں
عمر کٹ جائے آنے جانے میں
روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے وقت مصنفہ کی کیا کیفیات تھیں، ملاحظہ کیجیے:
’’زہے نصیب! آج خاتم النبیین، شفیع المذنبین، رحمت للعالمین، راحت العاشقین اور مراد المشتاقین کے دربار میں حاضر۔ میرا دامن شرمندگی، ندامت اور گناہوں سے لتھڑا ہوا۔ اپنے عیبوں کو آنسوئوں میں چھپائے ضبط کیے کھڑی ہوں۔ ایسا لگا میں تحفظ میں آگئی ہوں۔ ضبط کے سارے بندھن ٹوٹے، آنسوئوں کا سیل ِ رواں جاری، اک بچے کی مانند جلدی جلدی روتے روتے کہہ گئی: بخشش و مرادیں پاکے جائوں گی، مرادیں لے کے جائوں گی۔ میں ایسی ہلکی ہوئی کہ لگا میری درماندگی کا مداوا ہوگیا۔‘‘(ص110)
مصنفہ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس مقامات کی تاریخ اور فضیلت پر بھی روشنی ڈالی ہے اور مستند معلومات فراہم کی ہیں۔ حرمین شریفین کا ادب و احترام اور محبت و عقیدت اس سفرنامے کی سطر سطر سے نمایا ں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حرمین شریفین پہنچ کر انسان خود کو فراموش کردیتا ہے۔ روشنی و نور کے جلووں میں اس طرح گم ہوتا ہے کہ اپنا آپ بھول جاتا ہے۔ اعزہ و اقربا، دوست احباب، اپنا گھر، اپنا کاروبار، ملازمت، مسائل و مشکلات، روزمرہ کی مصروفیات، کچھ یاد نہیں رہتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں تو انسان سراپا سوال بن جاتا ہے۔ دوست احباب، اعزہ اقرباء سب یاد آنے لگتے ہیں۔ مصنفہ کی کیفیت بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ ہر ہر مبارک مقام پر انھوں نے خالق ِ کائنات کی بارگاہ میں دست ِ سوال دراز کیا اور اپنے لیے، اہلِ خانہ، اعزہ و اقربا اور اپنے اساتذہ تلامذہ کے لیے رب تعالیٰ کی رحمت اور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت طلب کی۔
حرمین شریفین میں بیتے لمحات و کیفیات انسان کا سرمایہ حیات اور ذخیرۂ آخرت بن جاتے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محترمہ نسیم فیض صاحبہ کی اس کاوش کو اپنی بارگاہِ عالی میں قبول فرمائے۔ انھیں بھی اور قارئین کو بھی بار بار زیارتِ حرمین شریفین کی باادب حاضری نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم۔
nn