ابو نثر
سب ہی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔منہ میں نہ رکھیں تو کہاں رکھیں؟ کہیں اور رکھ بیٹھیں توپھر سیمابؔ اکبر آبادی کی طرح بِلبِلا بِلبِلا کر تفتیش بھی کرتے پھریں کہ:
یہ کس نے شاخِ گُل لا کر قریبِ آشیاں رکھ دی؟
کہ میں نے شوقِ گُل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
پس احتیاط کا تقاضا ہے کہ زبان کو منہ ہی میں رکھنا چاہیے۔بعض لوگوں کی زبان گز بھر کی ہوتی ہے۔ منہ میں رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ اکثر منہ کی کھاتے ہیں۔
منہ میں زبان رکھنے والا ہر جان دار جانتا ہے کہ زبان اس عضو کو کہتے ہیں، جس سے ذائقہ چکھاجاتا ہے۔بقول خواجہ حیدر علی آتش:
کرے جس قدر شُکرِ نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے
مگر یہاں ذکر ہے اُس زبان کا جو ذکر کرنے کے لیے دی گئی ہے۔چوں کہ ہماری قومی زبان اُردو ہے، چناں چہ ان کالموں میں ہم اردو زبان ہی کا ذکر کیا کریں گے اور اخترؔ شیرانی کی اس دعا پر آمین کہتے رہا کریں گے کہ … ’’یارب رہے سلامت اُردو زباں ہماری‘‘۔
اس سے قبل انھی صفحات پر ہمارے اُستادِ محترم اطہر ہاشمی مرحوم اس قوم کے ہر اہلِ زبان کو متنبہ کیا کرتے تھے کہ ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘۔تنبیہ الغافلین کے ساتھ اپنی اُستادانہ مہارت سے زبان بگاڑنے والوں کی خبر بھی لیا کرتے تھے۔ہم میں اُن جیسی استادانہ صلاحیتیں تو نہیں ہیں، تاہم طالب علمانہ صلاحیتیں استادوں نے (ہمیں)کُوٹ کُوٹ کر ہم میں بھر دی ہیں۔ سو، ہم اپنی بساط بھر کوشش کریں گے کہ اپنا حاصل مطالعہ یہاں پیش کر دیا کریں۔کوئی سہو، کوئی تسامح، کوئی غلطی ہوئی تو الحمدﷲ ہمیں ٹوکنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ہمارا ذاتی خیال تو یہی ہے کہ جس کے منہ میں زبان ہو اُسے’’ اہلِ زبان‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ جو لوگ قوتِ گویائی سے محروم ہوتے ہیں، وہ بھی اہلِ زبان ہی ہوتے ہیں۔ علامہ اقبالؔ کبھی کبھی ایسے لوگوں کی زبان بھی بولنے لگتے تھے اور کہا کرتے تھے:
خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری
سو’’اشاروں کی زبان‘‘ کوغزلیہ شاعری ہی میں نہیں، اقوامِ متحدہ میں بھی ایک زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے۔
لفظ زبان کی ’’ز‘‘کو اہلِ لغت نے بالضمہ بھی تحریر کیا ہے اور بالفتحہ بھی۔ (یعنی ’’ز‘‘ پر پیش کے ساتھ بھی اور ’’ز‘‘ پر زَبرکے ساتھ بھی) لہٰذا دونوں تلفظ درست مانے جائیں گے۔ اس سے اہل زبان کو یہ سہولت مل گئی ہے کہ کسی کے ساتھ زبر دستی کرنا ہو تو ’’زَبان‘‘درازی کرلیں اور اگر پیش دستی مقصود ہو تو اپنی شیریں ’’زُبان‘‘ پیش کر دیں۔
مختلف لوگ مختلف زبانوں کے’’ اہلِ ‘‘ ہوتے ہیں۔مگر ان کالموں میں ’’اہلِ زبان‘‘ سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو اُردو زبان درستی سے لکھنے اور بولنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔کوئی بھی زبان بولی جائے، اگر وہ اس قابل ہے کہ بولی جائے تو یقینا اس قابل بھی ہوگی کہ بالکل درست بولی جائے۔زبان بگاڑنا تو غالباً کسی بھی زبان میں خوبی اور خوش اُسلوبی کا گُن نہیںسمجھا جاتا۔ اہلِ زبان کے نزدیک ’’زبان بگڑنا‘‘صرف زبان خراب ہوجانے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔بد زبانی اور گالی گلوچ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔مثلاً:
لگے منہ بھی چِڑانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا
(آتش)
اُستاد مرحوم نے اسی شعر کے دوسرے مصرعے کے دوسرے ٹکڑے کو بگاڑ کر اپنے کالم کا عنوان بنالیا تھا: ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘۔
وطن عزیز پاکستان ہی میںنہیں، برصغیر کے اکثر گوشوں میں عوامی رابطے کی زبان اردو ہے۔اسی وجہ سے عوامی ذرائع ابلاغ کی زبان بھی اردو ہے۔ بھارتی فلموں کے گانے آج بھی اردو ہی میں گائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاںانگریزی اخبارات کی خواندگی اردو اخبارات کے مقابلے میں کم ہے اور ہمارے ملک کے نجی انگریزی چینل تو شروع ہوتے ہی بندہو گئے کہ ان کے ناظرین کم تھے۔ بعض انگریزی اخبارات بھی اپنے چینل اُردو زبان ہی میں چلا رہے ہیں۔ امریکی امدادی ادارہ U. S. Aid بھی جو ہمارے بچوں کوپالنے ہی میں سے انگریزی پڑھانا شروع کر دینے کے لیے امداد دیتا ہے کہ پیدا ہوتے ہی اُن کی زبان بندی کر دی جائے، جب عوامی اشتہارات شائع یا نشر کرتا ہے تو اردو میں کرتا ہے، کیوں کہ انگریزی میں ہونے سے اشتہاری پیغام کے ابلاغ کا دائرہ محدود رہ جائے گا۔غالباً اس ادارے نے بھی دلاور فگار کایہ شعر پڑھ لیا ہوگا:
دی پیپل ٹاک اِن اُرڈو، دی پبلک فائٹ اِن اُرڈو
ڈیئر ریڈرز دَیٹ اِز وھائی آئی رائٹ اِن اُرڈو
لندن کے کچھ علاقوں، نیویارک کے کچھ محلّوں، خلیج کے کچھ شہروں اور سعودی عرب کے کچھ منطقوں میں غیر اہلِ زبان بھی اردو زبان بولنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔راستہ بتاتے ہوئے عربوں کو ’’سِیدا‘‘ (سیدھا) کہتے توہم نے خود سنا ہے۔یوں بھی پاکستانی اردو پر قرآنی عربی کے بہت گہرے اثرات ہیں۔عربی کے کئی الفاظ اب ہمیں اُردو ہی لگتے ہیں۔اگر آپ فہرست بنائیں تو سورۂ فاتحہ کے شاید چند ہی الفاظ ایسے ملیں گے جو اردو میں کسی نہ کسی طرح استعمال نہ ہورہے ہوں۔ ہمارے ایک دوست جو نوکری کی غرض سے نئے نئے جدہ گئے تھے، اُردو ہی کے الفاظ میں ’’اَل‘‘ لگا لگا کرعرب دُکان داروں سے اچھا خاصا سودا سُلف خرید لائے۔ قصہ مختصر یہ کہ بقول اختر شیرانی:
افریقا ہو، عرب ہو، امریکا ہو کہ یورپ
پہنچی کہاں نہیں ہے اُردو زباں ہماری
گوگل، یو ٹیوب اور مائیکروسافٹ جیسے متعدد عالمی تجارتی اداروں نے اُردو کو اپنی لسانی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ بین الاقوامی زبانوں میں اب اردو کا شماربھی ہونے لگا ہے۔نیٹ پر اردو کے وسیع علمی و ادبی ذخائر موجود ہیں، جنھیں آپ اردو رسم الخط ہی میں لکھ کر تلاش کر سکتے ہیں۔ خطِ نسخ ہی نہیں، خطِ نستعلیق بھی برقی ذرائع ابلاغ پرزیب رقم ہے اور شانِ ادب آگیں دکھا رہا ہے۔ داغؔ کی زبان سے نکلی ہوئی بات پوری ہوئی کہ… ’’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘…گوکہ ابھی اردو کم عمر ہے۔ اختر شیرانی ایک بار پھر یاد آگئے:
دنیا کی کُل زبانیں بوڑھی سی ہو چکی ہیں
لیکن ابھی جواں ہے اُردو زباں ہماری
پاکستان کے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ پر اردو لکھنا اور اردو بولنااہلِ ابلاغ کی ضرورت ہے۔ تو کیوں نہ لکھنے والے اچھی اردو لکھیں اور بولنے والے درست اردو بولیں۔ اس سے ان کی مہارت و قابلیت میں بھی اضافہ ہوگا اور ابلاغ کا حق بھی ادا ہوگا۔ یہ امر سب تسلیم کر چکے ہیں کہ اردو زبان ہی پاکستان میں مؤثر ترین ذریعۂ ابلاغ ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ ہمارے وہ سیاسی رہنما جن کی معاشرت و معیشت زبانِ غیر کی محتاج ہے اور جن کی تعلیم و تربیت بھی اغیار ہی نے کی ہے، جب وطن عزیز کے عوام سے کرسی ٔ اقتدار کی خاطر ووٹ کی بھیک مانگنے آتے ہیں تو اُردو آئے یانہ آئے انھیں مجبوراً اُردو میں بولنا پڑتا ہے،اور جب تالیوں کا ’’زیادہ بارش ہوتا ہے تو‘‘ مارے خوشی کے آنکھوں میں ’’زیادہ پانی آتا ہے‘‘ ۔ورنہ پاکستانی عوام تک اپنا مدعا پہنچانے کے لیے وہ:
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے؟
ہماری آرزو یہی ہے کہ اگر مطبوعہ ذرائع ابلاغ پر خبریں، سرخیاں، اداریے، مضامین اور کالم تحریر کرنے والے زبان و بیان کی درستی کی طرف متوجہ ہو جائیں اور برقی ذرائع ابلاغ سے رُودادیں پیش کرنے والے،خبریں پڑھنے والے، مذاکراتی تبادلۂ خیال کی میزبانی کرنے والے اور تفریحات پیش کرنے والے اپنا تلفظ درست کرنے اور طرزِ اظہار شائستہ بنانے کی طرف توجہ دینے پر آمادہ ہو جائیں تو محنت سُوارت ہو جائے۔ اَکارت نہ جائے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی تقلید میں ہمارے برقی ذرائع ابلاغ پر چیخم دھاڑ کرنے کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے، جو ہماری تہذیب اورہمارے معیارِ شائستگی کے منافی ہے۔ شایدہمارے ماہرینِ ابلاغیات یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اتنی چیخم چاخ نہیں کریں گے اور اس زور سے نہیں چنگھاڑیں گے تو ہماری دی ہوئی خبروں پر لوگ اندھا اعتماد نہیں کریں گے۔ انھیں کون سمجھائے کہ اعتماد اندھا تو ہوتا ہے، مگر بہرا نہیں ہوتا۔ کارندگانِ نشر و اشاعت کا انتخاب بھی اب ’’حُسنِ صورت‘‘ کی بنیاد پر کیا جانے لگا ہے ’’حُسنِ کلام‘‘ کی بنیاد پر نہیں۔لہٰذا انھیں اپنا طرزِ کلام بہتر بنانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے نہ الفاظ کا درست تلفظ معلوم کرنے اورخوش بیانی کا سلیقہ جاننے کی۔ ابھی پچھلے ہی دنوں ایک ٹی وی چینل کی ایک ’’خبرخواں حسینہ‘‘ نے گلا پھاڑپھاڑ کر چلّاتے ہوئے یہ لرزہ خیز انکشاف کیا کہ میاں والی کے ایک پولیس آفیسر کو کورونا ہو جانے کے باعث اُنھیںگھر ہی میں’’ کُر تُن تُنیا‘‘ کر دیا گیا۔
nn