مریم نواز نے سوات میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب میں کہا ہے کہ شہیدوں نے قربانیاں دے کر پاکستان اور خیبر پختون خوا کا امن بحال کیا تھا لیکن نالائق اور سلیکٹڈ نے امن کو بھی دائو پر لگا دیا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ آج سے چند سال پہلے جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تھا، اُس وقت پاکستان کی گلی گلی میں روز دھماکے ہوا کرتے تھے، دہشت گردی پر بھی پاکستان تقسیم تھا، لیکن نوازشریف نے اپنے سیاسی اختلافات اور دشمنیاں بھلا کر ملک کی خاطر دہشت گردی کی جنگ میں قوم کو یکجا کیا اور دہشت گردی کی لعنت سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قوم کو نجات دلائی۔ ہمارے سر پر ایسا نالائق اور ایسا نااہل سلیکٹڈ مسلط ہے جو حسد اور انتقام کا مارا ہوا ہے اور اسے احساس نہیں کہ 22کروڑ عوام کی ذمے داری سلیکٹڈ ہی سہی لیکن اس کے کندھوں پر ہے۔ آج جب پاکستان میں دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے تو اس کا وزیر داخلہ دھمکیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہارا بھی وہی حال کروں گا جو عوامی نیشنل پارٹی والوں کا کیا۔ سوچو ذرا وزیر داخلہ کے اس بیان سے اُن شہیدوں کے گھر والوں پر کیا گزری ہوگی جنہوں نے قربانیاں دیں۔ کیا تم سیاسی انتقام میں اتنے اندھے ہوگئے ہو کہ انسانیت بھی بھول گئے ہو! الفاظ سے دہشت گردی کرنے والے وزیر داخلہ کو شرم آنی چاہیے۔ انہوں نے خیبر پختون خوا کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 2سال سے آپ پر ایک نااہل حکومت مسلط ہے، بتائیںکیا اس صوبے میں کوئی تبدیلی آئی؟ کیا یہاں ایک بھی نیا اسپتال بنا؟ یہاں ایک ٹیسٹ بھی نہیں کرسکتے، اور کوئی حادثہ ہوتا ہے تو پنجاب کی فرانزک لیب میں ٹیسٹ کے لیے بھیجتے ہیں۔ کیا یہاں نظام تعلیم میں تبدیلی آئی؟ کوئی ایک نیا اسکول، کالج یا یونیورسٹی بنی؟ یہ کہتا تھا کہ احتساب مجھ سے شروع کرو۔ جب احتساب شروع ہوا تو تم احتساب کمیشن کو تالا لگاکر بھاگ جاتے ہو۔ احتساب کا سامنا کرنے کے لیے نوازشریف جیسا جگر چاہیے۔ مالم جبہ اسکینڈل کو جانتے ہو ناں۔ کہاں ہے وہ بلین ٹری سونامی؟ کیا اس کے 10 درخت بھی کہیں لگے نظر آتے ہیں؟ وہ درخت یہاں کے آڈیٹر جنرل کو نظر آئے اور اس نے لکھا کہ ان درختوں اور پودوں میں یہ اربوں روپے کھا گئے۔ انہوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ مجھے آپ سے یہ بھی پوچھنا تھا کہ کیا بی آر ٹی بس چل رہی ہے؟ کسی نئی بس میں آگ تو نہیں لگ گئی؟ کہتا تھا کہ میں جنگلا بس نہیں بنائوں گا، اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ اس نے نوازشریف اورشہبازشریف کی نقل کرتے ہوئے بس بنائی جو نجانے کتنے سال سے بن رہی ہے اور آج تک بھی نہیں بنی۔ پاکستان کی ساری بیماری کا ایک ہی علاج ہے، اور وہ ہے جعلی حکومت کو گھر بھیجو۔ ملک کو اس کے حقیقی نمائندوں کے حوالے کرو۔ ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کرائے جائیں۔ تم اپنے مخالف پر جھوٹے الزامات لگاتے ہو۔ نوازشریف کا بیانیہ وہ ہے جس کی دو تقریروں نے تمہیں برباد کردیا ہے۔ میری ایک تقریر پر 24 گھنٹے ان کے مشیر ٹی وی پر ہلکان ہوتے ہیں۔ مہنگائی کنٹرول سے باہر ہے۔ عوام کے مسائل پر ان کا بس نہیں چلتا۔ ایک ہی منصوبہ بنتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور شیروں کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ آئی ایم ایف روز منہ پر تھپڑ لگا رہا ہے۔ وہ کون تھا جو کہتا تھا 200 ارب آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں گے؟ حکمرانوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔
نوازشریف نے سوات میں جلسے سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ کچھ عرصے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف تعمیر و ترقی کا سلسلہ رک گیا ہے جس کی بنیاد مسلم لیگ (ن) نے ڈالی تھی، دوسری طرف مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت نے جینا محال کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ ہماری حکومت نے عوام کے لیے بہت کچھ کیا۔ جب ترقی کے کام ہوتے ہیں تو روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، خوش حالی آتی ہے، کسان کی حالت بہتر ہوتی ہے جو ہم نے کرکے دکھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم حکومت میں آئے تھے تو لوگ 20 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کررہے تھے اور ہر طرف دہشت گردی ہی دہشت گردی تھی، لیکن اللہ کا شکر ہے جب ہماری حکومت ختم ہوئی تو ہم نے ان بحرانوں پر قابو پا لیا تھا۔ موجودہ حکومت نے ہر اعتبار سے ملک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، لوگ سبزی اور دال بھی نہیں کھا سکتے، آج روٹی 20 روپے تک جا پہنچی ہے جبکہ ہمارے دور میں 5 روپے کی تھی۔ چینی اب 110 روپے کلو ہوگئی ہے جو ہمارے دور میں لگ بھگ 50 روپے کلو تھی۔ دوائیاں بھی لوگوں کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں اور لوگوں کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ روٹی خریدیں یا دوا خریدیں! یا پھر بچوں کے اسکول کی فیس ادا کریں یا ان کے کتابیں خریدیں! بجلی اور گیس کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھ گئی ہیں اور روپیہ خطے میں سب سے کمزور ہوگیا ہے۔ افغانستان میں 40 سال کی جنگی تباہ کاریوں کے باوجود اُن کی کرنسی روپیہ سے بہتر ہے۔
مسلم لیگ (ن) ماضی میں خیبر پختون خوا کی حد تک اکثر و بیشتر ہزارہ ڈویژن میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے، لیکن جب سے اس کی صوبائی قیادت ہزارہ سے نکل کر ملاکنڈ ڈویژن کے دو اضلاع سوات اور شانگلہ میں سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ق) کے سابق صوبائی صدر امیر مقام کے ہاتھ میں آئی ہے تب سے اس کی سرگرمیوں کا مرکز ملاکنڈ ڈویژن، خاص کر سوات رہا ہے، جبکہ ماضی کے برعکس اس کی سرگرمیاں پشاور سمیت بعض دیگر وسطی اضلاع میں بھی نوٹ کی گئی ہیں۔ اس میں شاید کوئی دو آرا نہیں ہوں گی کہ امیرمقام نے پچھلے دو ڈھائی سال سے صوبے میں پارٹی کو جس اعتماد کے ساتھ متحد اور متحرک رکھا ہے یہ اسی کا اثر ہے کہ وہ پچھلے دنوں سوات میں پارٹی کا ایک بڑا شو کرنے میں کامیاب رہے ہیں، حالانکہ مسلم لیگ(ن) کے متذکرہ جلسہ عام سے محض ایک ہفتہ قبل سوات میں پی ٹی آئی اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرچکی تھی اور پی ٹی آئی کا جلسہ حاضری کے لحاظ سے ایک بڑا جلسہ تھااورعام لوگوں کا خیال تھا کہ محض ایک ہفتے کے فرق سے مسلم لیگ(ن) کا سوات میں اپنی قوت کے مظاہرے کا فیصلہ جذباتی لحاظ سے تو ٹھیک ہے لیکن سیاسی لحاظ سے اس فیصلے کو سیاسی خودکشی پر مبنی فیصلے سے تعبیر کیا جارہا تھا۔ اسی طرح سوات کے جلسہ عام نے اس جلسے سے محض ایک روز قبل مریم نواز کے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو کے تناظر میں بھی خاصی اہمیت حاصل کرلی تھی، جس میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کے اردگرد کے لوگوں سے رابطے کرنے، اسٹیبلشمنٹ سے عمران خان کو گھر بھیجنے اور مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت پر رضامندی کا اظہار کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ لہٰذا مریم نواز کا یہ انٹرویو سامنے آنے کے بعد عام تاثر یہ تھاکہ ان کے لیے سوات کے اگلے روز کے جلسہ عام میں گوجرانوالہ،کراچی اور کوئٹہ کے اسٹیبلشمنٹ مخالف ٹیمپو کو برقرار رکھنا مشکل ہوگا، یا پھر انہیں اپنے گزشتہ روز کے انٹرویو میں اپنائے جانے والے مؤقف کی عوامی سطح پر وضاحت کرنی پڑے گی، لیکن انہوں نے ان دونوں انتہائوں کے درمیان بات کرکے جہاں ایک کہنہ مشق سیاست دان ہونے کا ثبوت دیا، وہیں وہ اپنے اس نئے مؤقف کے ذریعے مقتدر قوتوں کو ایک واضح پیغام دینے میں بھی کامیاب رہی ہیں۔ دریں اثنا گلگت بلتستان کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی عبرت ناک شکست اور پیپلز پارٹی کے لیے غیر متوقع نتائج نے وطنِ عزیز کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا کے سیاسی منظرنامے میں بھی خاصی ہلچل پیدا کردی ہے، لہٰذا اس صورتِ حال کے تناظر میں پی ڈی ایم کا پشاور میں منعقد ہونے والا 22نومبر کا جلسہ اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پی ڈی ایم اس نئی صورت حال میں آگے بڑھتی ہے یا پھر اسے خود کو سیاسی پسپائی کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔