شریف خاندان “ڈیل” کے لیے پھر اسٹیبلشمنٹ کے دَر پر

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

سیاسی جماعتوں کی اپنی کمزوریوں نے اسٹیبلشمنٹ کو طاقت ور بنایا ہے

گزشتہ دو تین ماہ سے میاں نوازشریف کے صحافتی وکیل خورشید ندیم اپنے کالموں میں ایک طوفان اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میاں نوازشریف اب انقلابی ہوگئے ہیں۔ اب قومی سیاست کو دو ادوار میں تقسیم کیا جائے گا، ایک وہ دور جب میاں نوازشریف نے ’’انقلابی تقریر‘‘ نہیں کی تھی، دوسرا دور وہ جب میاں صاحب انقلابی تقریر کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ پر بھرپور حملے کرچکے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اب ملک کی سیاست فیصلہ کن دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اب قوم کو میاں صاحب کا ساتھ دینا چاہیے اور ملک میں سول بالادستی کے خواب کو حقیقت میں ڈھال دینا چاہیے۔ لیکن ہم نے اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ میاں نوازشریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے لیے کوشاں ہیں۔ میاں نوازشریف کی ’’انقلابی تقریر‘‘ کے باوجود نواز لیگ کے رہنما رات کی تاریکی میں چھپ چھپ کر اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں سے مل رہے ہیں، اور اب مریم نواز کے انٹرویو نے شریف خاندان کی ساری سازباز طشت ازبام کردی ہے۔ روزنامہ جسارت کی شہ سرخی کے مطابق نواز لیگ نے بڑا یوٹرن لیتے ہوئے فوج سے مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کردی ہے۔ مریم نواز نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فوج سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اُن کے بقول اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے اردگرد موجود لوگوں سے رابطے کیے ہیں۔ تاہم انہوں نے شرط عاید کی کہ اسٹیبلشمنٹ مذاکرات سے قبل عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجے۔ مریم نواز کی باتیں پڑھ کر تین شعر یاد آگئے:۔

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
…٭…٭…
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
…٭…٭…
آخر گِل اپنی صرفِ درِ مے کدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

میاں نوازشریف دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ ’’نظریاتی شخصیت‘‘ بن گئے ہیں۔ ہم انہی کالموں میں عرض کرتے رہے ہیں کہ وہ ’’نظریاتی شخصیت‘‘ نہیں، صرف ’’نظر آتی شخصیت‘‘ ہیں۔ میاں صاحب دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ ’’انقلابی‘‘ ہوگئے ہیں، لیکن انقلابی لوگ بار بار حریف کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتے۔ وہ کشتیاں جلا دیتے ہیں تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔ مگر میاں صاحب چار کشتیاں جلاتے ہیں تو دس کشتیوں کا آرڈر دے دیتے ہیں۔ چنانچہ میاں صاحب کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’’انقلابی‘‘ سے ’’گلابی‘‘ ضرور ہو گئے ہیں۔
میاں نوازشریف کا اصولی مؤقف یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سیاست میں کوئی ’’فریق‘‘ ہی نہیں۔ اور یہ بات درست ہے۔ فوج کا نہ تحریکِ پاکستان میں کوئی کردار تھا، نہ قیامِ پاکستان میں اس کا کوئی رول تھا۔ اس کے سیاسی کردار کو نہ آئینی تحفظ حاصل ہے، نہ قوم کی عظیم اکثریت اسے کوئی سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔ مگر مریم نوازشریف نے فوج کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرکے فوج کو پاکستانی سیاست کا جائز اور غالب فریق تسلیم کرلیا ہے۔ یہ میاں نوازشریف کے اصولی مؤقف کی کھلی تردید ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ مریم نواز نے یہ کام میاں نوازشریف کو اعتماد میں لے کر ہی کیا ہوگا۔ اس تناظر میں شریف خاندان کی تصویر یہ بنی کہ وہ ایک جانب انقلابی بنتا ہے اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے آگے گڑگڑاتا ہوا پایا جاتا ہے۔ پیر پگارا میاں صاحب کے بارے میں بالکل درست کہا کرتے تھے کہ وہ جب طاقتور ہوتے ہیں تو حریف کے گریبان پر ہاتھ ڈالتے ہیں، اور وہ جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو حریف کے پائوں پکڑ لیتے ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نوازشریف جرنیلوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈال رہے تھے، اور اب یہ منظر ہمارے سامنے ہے کہ وہ جرنیلوں سے مذاکرات کے لیے تیار بلکہ بے تاب نظر آتے ہیں۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مریم نواز نے جن مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے وہ مذاکرات نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی تمنا کا اظہار ہیں۔ مکالمہ مساوی حیثیت کے فریقوں کے درمیان ہوتا ہے۔ مکالمے میں دونوں فریق دینے والے بھی ہوتے ہیں اور لینے والے بھی۔ لیکن ڈیل میں ایک دینے والا ہوتا ہے اور ایک لینے والا ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف نے ایک موقع پر ’’خلائی مخلوق، خلائی مخلوق‘‘ کا شور مچایا، مگر پھر ڈیل کرکے خاموش ہوگئے۔ پھر میاں صاحب اچانک انقلابی ہوگئے، لیکن کچھ ہی دنوں بعد وہ بیماری کی آڑ میں ایک اور ڈیل کرکے ملک سے فرار ہوگئے۔ ڈیل کے حساب سے مریم نواز کو بھی لندن میں ہونا چاہتے تھا، مگر عمران خان بیچ میں کود پڑے اور مریم نواز لندن نہ جا سکیں۔ چنانچہ میاں نوازشریف کو ایک بار پھر ’’نظریاتی‘‘ اور ’’انقلابی‘‘ شخص کی اداکاری کرنی پڑی، اور اب مریم نواز نے قوم کو اطلاع دی ہے کہ شریف خاندان ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے مکالمے اور مذاکرات کی آڑ میں ’’ڈیل‘‘ کے لیے تیار ہے۔
مریم نواز نے انٹرویو میں یہ بھی کہا ہے کہ شریف خاندان فوج سے مذاکرات کے لیے تیار ہے مگر فوج کو پہلے عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کئی باتوں کی نشاندہی ضروری ہے۔ ان میں سے ایک بات تو یہ ہے کہ شریف خاندان کے لیے اسٹیبلشمنٹ اس لیے بری ہوگئی ہے کہ گزشتہ انتخابات میں وہ نوازشریف کے بجائے عمران خان کو اقتدار میں لے آئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح کوئی عورت سوتن کی موجودگی پر آگ بگولہ ہوتی ہے، اسی طرح نواز لیگ تحریک انصاف کو سوتن کی طرح دیکھ رہی ہے، اور اقتدار میں اُس کی موجودگی اور اسٹیبلشمنٹ سے اُس کی قربت پر آگ بگولہ ہے، اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے کہہ رہی ہے کہ پہلے تحریک انصاف کو طلاق دو، پھر نواز لیگ کے قریب آئو۔ تیسری بات یہ ہے کہ شریف خاندان کو اسٹیبلشمنٹ سے کوئی اصولی اختلاف نہیں۔ سارا جھگڑا اقتدار میں ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ آج میاں نوازشریف کو اقتدار میں حصہ دینے پر آمادہ ہوجائے تو میاں صاحب کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ وہ کبھی ’’انقلابی‘‘ ہوگئے تھے، وہ کبھی ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے تھے، وہ کبھی ’’اصولی‘‘ ہوگئے تھے، وہ کبھی ’’جمہوری‘‘ ہوگئے تھے، وہ کبھی ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ ہوگئے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی کوئی بھی طاقت نہیں۔ اس کی ساری طاقت سیاسی جماعتوں کی کمزوری سے برآمد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں نہ نظریاتی ہیں، نہ جمہوری ہیں۔ ان کے لیے شخصی، خاندانی اور گروہی مفاد ہی سب کچھ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ذہین بھی تھے اور مقبولِ عوام بھی، مگر پیپلزپارٹی انہیں نہ پھانسی سے بچا سکی اور نہ پھانسی پر کوئی بڑا ردعمل پیش کرسکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیپلزپارٹی شخصی اور خاندانی جماعت تھی۔ عوام بھٹو کے لیے نعرے لگا سکتے تھے، ان کو ووٹ اور نوٹ دے سکتے تھے، مگر ان کے لیے جان نہیں دے سکتے تھے۔ چنانچہ جنرل ضیاالحق نے کسی خوف سے بے نیاز ہوکر بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی۔ پیپلزپارٹی اگر نظریاتی، اصولی اور جمہوری پارٹی ہوتی تو جنرل ضیا الحق چاہ کر بھی بھٹو کو پھانسی پر نہیں لٹکا سکتے تھے۔ میاں نوازشریف پنجاب میں بہت مقبول ہیں، مگر ان کی جماعت نہ نظریاتی ہے، نہ جمہوری ہے۔ چنانچہ لوگ انہیں ووٹ دے سکتے ہیں، انہیں نوٹ دے سکتے ہیں، مگر ان کے لیے گلیوں اور شاہراہوں میں ڈنڈے نہیں کھا سکتے، ان کے لیے جیل نہیں جا سکتے، ان کے لیے جان نہیں دے سکتے۔ الطاف حسین کی مقبولیت بے پناہ تھی۔ ان کی ایک آواز پر لاکھوں کا ہجوم خاموش ہوجاتا تھا، مگر ان کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو کہیں عوامی مزاحمت نہ ہوئی۔ الطاف حسین بار بار فون کرکے پوچھ رہے تھے کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے؟ انہیں ہر بار بتایا گیا کہ کراچی میں کچھ بھی نہیں ہورہا ہے۔ پانچ چھے ہزار لوگ نائن زیرو اور اس کے آس پاس موجود تھے، فوج آگئی تو وہ بھی اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ الطاف حسین کی کوئی اخلاقی ساکھ ہوتی اور ایم کیو ایم جمہوری تنظیم ہوتی تو بہت بڑی عوامی مزاحمت منظم کرسکتی تھی۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی کمزوریوں نے اسٹیبلشمنٹ کو طاقت ور بنایا ہے۔ میاں نوازشریف کے پاس بے پناہ شہرت ہے، مگر اُن کی اور اُن کے خاندان کی کوئی اخلاقی ساکھ نہیں۔ وہ مشہور تو ہیں، مقبول اور محبوب نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ دوچار ماہ انقلابی رہنما کی اداکاری کرکے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرتے نظر آتے ہیں۔
مریم نواز نے اپنے انٹرویو میں ایک بات درست کہی ہے اور وہ یہ کہ میاں نوازشریف کی طاقت سے عمران خان کی حکومت ہی نہیں، اسٹیبلشمنٹ بھی ہراساں ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان سے کیسے نمٹے۔ سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا یہ حال کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور میاں نوازشریف کی طاقت کا مرکز ایک ہے۔ پنجاب۔ اسٹیبلشمنٹ کو کسی بنگالی، سندھی، مہاجر، پشتون اور بلوچ رہنما سے مقابلے میں کبھی کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے شیخ مجیب الرحمٰن کی اکثریت کو آسانی کے ساتھ کچل دیا۔ بھٹو کو آنکھ بند کرکے پھانسی دے دی۔ نواب اکبر بگٹی کو دن دہاڑے اور اعلان کرکے مار ڈالا۔ اس لیے کہ ان میں سے کسی کی طاقت کا مرکز پنجاب نہیں تھا۔ مگر میاں صاحب کی طاقت کا مرکز پنجاب ہے۔ چنانچہ ان کی تمام تر بدعنوانیوں، ریشہ دوانیوں اور غداریوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ان پر سخت ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اندیشہ ہے کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کو کچھ بھی ہوا تو اسٹیبلشمنٹ پنجاب میں عوامی ردعمل کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔ چنانچہ وہ میاں نوازشریف کے خلاف سیاسی اور ابلاغی مہم تو چلاتی اور چلواتی ہے مگر اس کی خواہش یہ ہے کہ میاں صاحب اور مریم ملک سے باہر چلے جائیں تو اچھا ہے۔ ان کے ساتھ کوئی ڈیل ہوجائے تو مناسب ہے۔ پوری قوم کو یاد ہے کہ آصف علی زرداری نے صرف اتنا کہا تھا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، لیکن اس بیان کے اگلے روز ہی انہیں دبئی سدھارنا پڑا۔ البتہ میاں نوازشریف اسٹیبلشمنٹ پر بڑے بڑے الزامات لگا چکے ہیں، تاہم اسٹیبلشمنٹ اب بھی ان کے ساتھ ڈیل کی تمنائی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پنجاب کا مقبول رہنما ہونا کتنی بڑی بات ہے۔