گلگت بلتستان انتخابات

نتائج کیوں تسلیم نہیں کیے جارہے؟

گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات میں آزاد امیدوار تقریباً ایک تہائی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئے، اور اب اسٹرے ٹیجک اہمیت کے حامل اس خطے میں حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گے۔ تمام حلقوں کے غیر سرکاری نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، جس کے بعد 7 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے، پاکستان پیپلز پارٹی 3 نشستوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) 2، جبکہ مجلس وحدت المسلمین جس نے پی ٹی آئی کے ساتھ ایک نشست پر ایڈجسٹمنٹ کی تھی، ایک نشست پر کامیاب ہوئی۔ خواتین کے لیے مخصوص 6 نشستوں میں سے ممکنہ 4 اور ٹیکنوکریٹس کی 3 میں سے 2 نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی33 رکنی گلگت بلتستان اسمبلی میں 16 مجموعی نشستیں ہوجائیں گی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حکومت بنانے کے لیے ایک اور امیدوار کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ پی ٹی آئی نے گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کے لیے کسی امیدوار کو نامزد نہیں کیا، جبکہ پی ٹی آئی گلگت بلتستان کے صدر جسٹس (ر) جعفر شاہ انتخابات سے چند ہفتے پہلے ہی کورونا وائرس کے سبب انتقال کرگئے تھے، جس کے باعث جی بی ایل اے-3 گلگت-3 کی نشست پر انتخاب ملتوی ہوگیا، اور اب اس نشست پر 22 نومبر کو ضمنی انتخاب ہوگا۔
ایک جانب پی ٹی آئی کے کارکنان اور حامی خطے میں اپنی اوّلین جیت کا جشن منا رہے ہیں، تو دوسری جانب ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ پیپلزپارٹی جو گلگت بلتستان اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں صرف ایک ہی نشست پر کامیابی حاصل کرسکی تھی اب گلگت، نگر اور گھانچے سے ایک ایک کرکے 3 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ ’’گلگت بلتستان کے عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا بیانیہ مسترد کردیا۔ گلگت بلتستان کے عوام نے جمہوری سوچ کے ساتھ اپنی ترقی، خوشحالی اور روشن مستقبل کے لیے ووٹ دیا۔ یہ بہت شفاف انتخابات تھے، اگر پی ٹی آئی دھاندلی کرنا چاہتی تو وہ 23 میں سے کم از 14سے 15 نشستیں حاصل کرتی‘‘۔ وفاقی وزیر کا دعویٰ اپنی جگہ، مگر وفاق کو ثابت کرنا ہوگا کہ دھاندلی نہیں ہوئی، ورنہ یہی نتائج اسے لے ڈوبیں گے، اسے بتانا ہوگا کہ فافن مبصرین کیوں نکالے گئے؟
گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے لیے پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، جمعیت علمائے اسلام(ف)، جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم)، ایم کیو ایم پاکستان، آل پاکستان مسلم لیگ سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے 23 حلقوں پر ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا۔ گلگت بلتستان میں 1160 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے جن میں سے 418 کو انتہائی حساس، جبکہ 311 کو حساس قرار دیا گیا تھا۔ 23 نشستوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں 330 امیدواران نے حصہ لیا۔ گلگت بلتستان میں وزیراعلیٰ بنانے کے لیے کسی بھی پارٹی کو کم از کم 13 نشستوں کی ضرورت ہوگی، جس پارٹی کے اتنے یا اس سے زیادہ امیدوار کامیاب ہوئے، قانون ساز اسمبلی اور صوبے میں اگلا وزیراعلیٰ اُس کا ہوگا۔
گلگت بلتستان میں عام انتخابات کے لیے ووٹنگ میں عوام کا جوش و خروش دیکھنے کو ملا، لوگ برف باری اور منفی 6 سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بھی ووٹ ڈالنے نکل آئے۔ گلگت بلتستان انتخابات کے عین آخری لمحات میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ مفاہمتی یادداشت کے تحت ایم کیو ایم نے 2 نشستوں پر اپنے امیدوار تحریک انصاف کے امیدواروں کے حق میں دست بردار کرائے۔ معاہدے پر دستخط ایم کیو ایم کے امین الحق اور تحریک انصاف کے زلفی بخاری کی جانب سے کیے گئے۔ ایم کیو ایم نے مذکورہ دونوں نشستوں (اسکردو 1 اور دیامیر1) پر تحریک انصاف کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ ایم کیو ایم کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام سے تحریک انصاف کے امیدواروں کی مکمل حمایت اور ووٹ ڈالنے کی اپیل بھی کی گئی تھی۔ ایم کیو ایم نے9 نکاتی ایجنڈے پر پی ٹی آئی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ اس مفاہمتی یادداشت میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو جلد آئینی صوبہ بنایا جائے گا، جی بی کے لیے جلد میڈیکل اور انجینئرنگ یونی ورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا، کھیلوں اور سیاحت کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں گے، دیامر بھاشا ڈیم کے ذریعے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع پر پہلا حق گلگت بلتستان کا ہوگا، فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں گے جن سے عوام کو 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل سکے، سست ڈرائی پورٹ کو پورا سال کھلا رکھتے ہوئے ٹیکس کی خصوصی چھوٹ دی جائے گی، گلگت بلتستان کو سی پیک سے پہلا مستفید ہونے والا صوبہ قرار دیتے ہوئے ترقیاتی منصوبے دیے جائیں گے۔ یادداشت کے مطابق اگر گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوتی ہے تو وہ ایم کیو ایم کو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی مشاورتی ٹیم کا حصہ بناتے ہوئے حکومت میں شریک کرے گی۔
گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ء کے نفاذ کے بعد ہونے والے یہ مسلسل تیسرے انتخابات ہیں۔ یہ انتخابات 18 اگست کو ہونے تھے، تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے انھیں تین ماہ کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔گلگت بلتستان اسمبلی 33 ارکان پر مشتمل ہے، جن میں سے 24 ارکان کا براہِ راست انتخاب ہوتا ہے، جبکہ خواتین کے لیے 6 اور ٹیکنوکریٹس کی 3 مخصوص نشستیں ہیں۔ گیارہ برس قبل 12 نومبر 2009ء کو یہاں پہلے انتخابات ہوئے تھے، اُس وقت گلگت بلتستان کی کُل آبادی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق11 لاکھ 4 ہزار 190 نفوس پر مشتمل تھی، اور رجسٹرڈ ووٹرز کی کُل تعداد7لاکھ17ہزار286 تھی، جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 84 ہزار 909، جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 32 ہزار 377 تھی۔ پہلے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی اور 14 نشستوں پر جیتی تھی۔ 11 دسمبر 2009ء کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے مہدی شاہ پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر بیگ اسپیکر اور جمیل احمد ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔ یہ تینوں بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ 8 جون 2015ء کو گلگت بلتستان کے دوسرے انتخابات ہوئے۔ سات اضلاع میں 24 نشستوں پر 268 امیدوار مدمقابل تھے۔ ان انتخابات میں نواز لیگ نے 24، تحریک انصاف نے 24، پیپلز پارٹی نے 22، مجلس وحدت المسلین نے 15، آل پاکستان مسلم لیگ نے 13، تحریک اسلامی نے 12، جے یو آئی (ف) نے 10، ایم کیو ایم نے 9، عوامی تحریک نے 7، اور جماعت اسلامی نے 6 نشستوں پر انتخاب لڑا۔ گلگت بلتستان قومی موومنٹ نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے15 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی، وحدت المسلمین اور اسلامی تحریک نے دو، دو، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جے یوآئی کو ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی تھی، دو آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے تھے۔ پی پی کے سابق وزیراعلیٰ مہدی شاہ بھی ان انتخابات میں ناکام ہوئے تھے۔ 26 جون 2015ء کو مسلم لیگ (ن) کے حفیظ الرحمٰن گلگت بلتستان کے دوسرے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے، جبکہ فدا محمد خان نوشاد اور جعفراللہ خان اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے، ان تمام کا انتخاب بھی بلامقابلہ تھا۔ اب گلگت بلتستان میں اسمبلی کے تیسرے انتخابات ہوئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے مبصرین کو پولنگ اسٹیشن سے ہٹادیا گیا، فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے مبصرین کو ووٹوں کی گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشن میں ہونا چاہیے تھا۔ گنتی کے وقت مبصرین کا نہ ہونا دھاندلی کے مترادف ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مبصرین کا پولنگ اسٹیشن میں نہ ہونا الیکشن کی شفافیت پر سوالات کھڑے کر رہا ہے، الیکشن کمیشن اس کا نوٹس لے۔شیری رحمان کا کہنا تھا کہ خواتین کی ووٹنگ پر دانستہ پابندیوں پر گہری تشویش ہے، چیف الیکشن کمشنر فوری مداخلت کریں اور مسئلہ حل کریں۔ خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش ناقابلِ قبول ہے، یہ واقعات انتخابات کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں انتخابی خلاف ورزیوں پر الیکشن کمیشن کی خاموشی افسوس ناک ہے۔ترجمان پی پی نے کہا کہ بہت سے پولنگ اسٹیشنوں پر تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔انہوں نے شکوہ کیا کہ پی پی پی امیدواروں کی شکایات پر بھی الیکشن کمیشن کارروائی نہیں کر رہا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے مشکل موسمی حالات میں گلگت بلتستان کے عوام کے ووٹ ڈالنے پر انہیں سلام پیش کیا۔