عالمی ذرائع ابلاغ کی منظر کشی
مشرقی تیمور کا تاریخی پس منظر
انڈونیشیا کی حکومت نے کیوں یہ فیصلہ کیا، اسے سمجھنے کے لیے مشرقی تیمور کا تاریخی پس منظر دیکھنا ہوگا۔ مشرقی تیمور انڈونیشیا کے ہزاروں جزائر میں سے ایک جزیرہ ہے جو پہاڑی علاقے پر مشتمل اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ یہ جکارتا سے 2500 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں واقع ہے۔ اس کے دارالحکومت دلی (Dilli) کا رقبہ 14 ہزار 6 سو 15 مربع کلومیٹر اور آبادی سوا آٹھ لاکھ ہے۔ غالب اکثریت عیسائی مذہب کی پیروکار ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عالمِ عیسائیت کی پشت پناہی کی بدولت ہی مشرقی تیمور کو آزادی نصیب ہوسکی ہے۔
ماضی میں ملایا اور جزائر شرق الہند کا تذکرہ ساتھ ساتھ ملتا ہے۔ ملایا دورِ جدید میں انڈونیشیا اور ملائشیا جیسی مسلم ریاستوں میں تبدیل ہوچکا ہے، جب کہ جزائر شرق الہند تیمور کے نام سے مشہور ہوا۔ نوآبادیاتی دور میں جب ہندوستان، مصر، سوڈان اور افریقی ممالک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا گیا تو ہالینڈ نے ان سیکڑوں جزائر پر قبضہ کرلیا جو آج انڈونیشیا کی ریاست کا حصہ ہیں۔ جزیرہ تیمور کے مغربی حصے پر ہالینڈ ہی کا قبضہ رہا، لیکن مشرقی تیمور پرتگال کے زیرنگیں آیا اور پرتگال نے چار سو سال تک گندم، چاول، ناریل، صندل، قہوہ، تیل، گیس اور قدرتی وسائل سے مالامال اس علاقے پر حکومت کی، اور استحصال کیا۔ انڈونیشیا کے آزاد اسلامی مملکت بن جانے کے باوجود مشرقی تیمور پر پرتگال کا پرچم لہراتا رہا۔ 1974ء میں پرتگال کے اندر سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں تو ستمبر 1975ء میں اس علاقے کی آزادی کا اعلان کردیا گیا اور پرتگال نے یہاں سے اپنی فوجیں نکال لیں۔ چونکہ پرتگال نے انڈونیشیا سے یہ علاقہ حاصل کیا تھا اس لیے صدر سہارتو نے یہاں افواج داخل کردیں (5 ستمبر 1975ء)۔ اس وقت بھی وہاں 15ہزار انڈونیشی فوجی موجود ہیں اور گزشتہ چوتھائی صدی سے وہاں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔
عیسائی کلیسا اور عیسائی حکمرانوں کی دھمکیاں اور پروپیگنڈہ
تقسیم کے بعد آگ اور خون کی وہ ہولی جو مسلم اقلیت کے علاقوں میں کھیلی گئی تھی، وہی کہانی مشرقی تیمور میں دہرائی گئی، لیکن اس آگ کو بھڑکتے رکھنے میں لندن، نیویارک، ہانگ کانگ اور دیگر اعصابی مراکز سے شائع ہونے والے رسائل و جرائد کا بھی بڑا کردار ہے، جو انڈونیشیا کو اپنے ہی عیسائی صوبے کے الحاق کی ایسی کڑی سزا دینا چاہتے تھے کہ آئندہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کان ہوجائیں۔ مشرقی تیمور کی آزادی اہلِ تیمور کے ساتھ ساتھ صدرِ امریکہ، عیسائی کلیسا اور ذرائع ابلاغ کے جان دار پراپیگنڈے سے ممکن ہوئی ہے۔
جنرل سہارتو کے رخصت ہوتے ہی مشرقی تیمور کی آزادی کا مسئلہ عالمی ذرائع ابلاغ کا موضوع بن گیا۔ صدر حبیبی کو ریفرنڈم کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا اور انڈونیشیا کے عام انتخابات کے بعد 30 اگست 1999ء کی تاریخ اس کے لیے طے ہوگئی، لیکن ریفرنڈم کے بعد تشدد نے اہلِ انڈونیشیا کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مشرقی تیمور کو ایک روز الگ ہونا ہی تھا، لیکن عالمی ذرائع ابلاغ انڈونیشیا اور اس کی افواج کو بدنام کرنے کے لیے حقائق کو مسخ کررہے تھے۔
صدر حبیبی عالمی فوج کی تعیناتی پر کس طرح رضامند ہوئے؟ نیوزویک کے نمائندے جیفرے بارتھولٹ نے 20 ستمبر کی اشاعت میں تحریر کیا ’’اقتصادی پابندیوں کی دھمکی سے ہی انڈونیشیا کو عالمی فوج کی تعیناتی کے لیے رضامند کیا جاسکتا تھا۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والی ایشیائی اقتصادی کانفرنس میں شرکت سے قبل ہی صدر کلنٹن نے انڈونیشیا سے اقتصادی مراسم توڑنے کا فیصلہ کرلیا، انہوں نے عندیہ دیا کہ ہماری بات مانے بغیر اقتصادی امداد کی اگلی قسط جاری نہیں کی جائے گی۔
آئی ایم ایف اور امریکہ کی پابندیاں
آئی ایم ایف کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر اسٹینلے فیشر نے کہا کہ مشرقی تیمور کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈونیشیا پر رقم لٹانا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے کمپائونڈ پر حملہ ہوا تو صدر کلنٹن نے چار کروڑ ڈالر کے فوجی سازوسامان کی فراہمی پر پابندی عائد کردی۔ آسٹریلیا مشرقی تیمور کے اندر ڈھائی ہزار فوجی قیام امن کے لیے بھیجنے پر تیار تھا۔ 13 ستمبر کو انڈونیشیا کی افواج کے سربراہ جنرل ورانتو نے جب اعلان کیا کہ امن فوج کی تجویز پر غور کیا جاسکتا ہے، تو اس بیان کے چند گھنٹے بعد صدر بل کلنٹن نے آکلینڈ میں کہا کہ چند دن کی محنت سے بہت بڑی کامیابی ملی ہے۔ (نیوز ویک، 20 ستمبر1999ء)۔
عالمی برادری کن خطوط پر سوچ رہی تھی، اکانومسٹ کا اداریہ نویس تحریر کرتا ہے ’’سفارت کاری کافی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ یعنی سلامتی کونسل کو چاہیے کہ وہ انڈونیشیا کو دھمکائے اور انڈونیشیا کی رضامندی کے خلاف وہاں فوج استعمال کرے۔ ریفرنڈم کے لیے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے حبیبی کا خیال تھا کہ شاید ووٹ انڈونیشیا کے حق میں ہوں گے۔ آئندہ حبیبی اور فوج کا کوئی جرنیل ایسی غلطی کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ انڈونیشیا کے ذہن سے یہ خیال نکال دے کہ وہ اب مشرقی تیمور پر مزید حکمرانی کرسکے گا۔‘‘ (اکانومسٹ، 11 ستمبر1999ء)۔
مسلمان انڈونیشین حکومت کیخلاف عیسائی دنیا کا جانب دارانہ کردار
انڈونیشیا کی حکومت اگر مشرقی اور مغربی صوبے کو انتظامی طور پر ایک صوبہ بنادیتی تو شاید اتنے چھوٹے سے رقبے کی ریاست وجود میں نہ آتی، لیکن اس وقت حکومت نے مغربی تیمور اور مشرقی تیمور کو الگ الگ انتظامی صوبوں میں تقسیم کردیا۔ مغربی تیمور کے مسلمان اور مشرقی تیمور کے عیسائی ایک صوبے میں رہے ہوتے تو آپس میں میل جول میں اضافہ ہوا ہوتا اور وہ صورت دیکھنے میں نہ آتی جو نظر آرہی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی، خواتین سے بدسلوکی اور دیگر واقعات نے صورت حال کو اور بگاڑ دیا۔ فرٹیلین تحریک نے انڈونیشیا کی حکومت کے الحاق کو تسلیم نہ کیا۔ جلد ہی مزاحمتی تحریک کا آغاز کردیا گیا۔ مغربی ممالک کی امداد کے بغیر یہ تحریک اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکتی تھی۔ امریکہ، آسٹریلیا سمیت عیسائیت کے پیروکار کئی ممالک نے 25 سال تک اس مسئلے کو نہ صرف اقوام متحدہ کے ایوانوں میں زندہ رکھا بلکہ اقتصادی و سیاسی دبائو ڈالنے کے تمام حربے بھی استعمال کیے۔ صدر سہارتو کے خاندان نے جب ملک کو دیوالیہ کرکے رکھ دیا تو آئی ایم ایف نے گزشتہ سال 43 ارب ڈالر کی قسط منظور ہی اس لیے کی تھی کہ مشرقی تیمور کو اپنی منزل تک پہنچانے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے اور حکومتِ جکارتا قرضوں میں اس قدر جکڑ جائے کہ اس کے لیے حکم عدولی ناممکن ہوجائے۔ ایسا ہی ہوا۔
مشرقی تیمور کی آزادی، اس کے بعد قتل و غارت، مارشل لا کے نفاذ اور اقوام متحدہ کی افواج کی تعیناتی کے تمام مراحل کے دوران عالمی ذرائع ابلاغ کا کردار انتہائی جانب دارانہ رہا۔ سب سے غلط منظرکشی یہ کی گئی کہ اس علاقے میں دو لاکھ باشندے مار دیے گئے، حالانکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ انڈونیشیا کے فوجی دستوں نے جنگجو گوریلوں کو اپنا نشانہ ضرور بنایا لیکن بہت بڑی تعداد عیسائی حریت پسند کمانڈوز کی گولیوں کا شکار ہوئی۔ بیماریوں اور قحط سے ہلاک ہونے والے بھی اس میں شامل ہیں۔ مسلح متصادم مزاحمتی گروپوں کی لڑائیوں سے پچھلے 25 سال میں جو لوگ ہلاک ہوئے اس میں ان کی تعداد بھی شامل ہے، لیکن سی این این، بی بی سی اور اے بی سی نے اپنی نشریات کے ذریعے یہ تاثر دینے کی مسلسل کوشش کی کہ گویا یہ تمام لوگ چند ماہ میں انڈونیشیا کی افواج کی گولیوں کا شکار ہوئے ہیں۔
حکومتِ انڈونیشیا نے عیسائی آبادی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے صوبے کے اندر تعلیمی اداروں اور سڑکوں کا جال بچھایا، بجٹ کا نمایاں حصہ مشرقی تیمور کے لیے مخصوص کیا۔ 1992ء میں عیسائی نمائندہ لیڈروں سے مذاکرات کیے اور ان کو وسیع تر خودمختاری کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی، لیکن عالمی طاقتیں یہ چاہتی تھیں کہ مشرقی تیمور آزاد ریاست بن کر رہے۔ اس لیے جکارتا کی تمام سفارتی کوششیں ناکام رہیں۔
مشرقی تیمور کا ریفرنڈم اقوام متحدہ میں پاکستانی سفارت کار جمشید مارکر (مذہباً عیسائی) کی زیرنگرانی ہوا۔ کوفی عنان نے 4 ستمبر 1999ء کو نیویارک میں سلامتی کونسل میں ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کیا۔ نتائج کے مطابق ساڑھے چار لاکھ کے قریب افراد نے اپنے حق کا استعمال کیا۔ 78.5 فی صد نے آزادی کے حق میں، جب کہ 21 فیصد نے انڈونیشیا کے اندر خودمختاری کے حق میں رائے دی۔ کوفی عنان نے اعلان کیا کہ اقتدار کی منتقلی تک علاقہ انڈونیشیا کے زیرنگیں رہے گا۔ لیکن 7 ستمبر سے مشرقی تیمور کے دارالحکومت دلی اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے اور جو بین الاقوامی امن فوج بھیجنے پر منتج ہوئے۔
مشرقی تیمور اور مقبوضہ کشمیر
مشرقی تیمور میں ریفرنڈم جن حالات میں ہوا اور بعد میں جو کچھ ہوا اس سے قطع نظر یہ اس امر کی مثال ہے کہ کسی علاقے کے لوگوں کی مرضی معلوم کرکے اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔ کشمیر اور اس کی مماثلت تلاش کی گئی تو امریکہ کے محکمہ خارجہ نے دونوں کو الگ الگ مسئلہ قرار دیا۔ حالانکہ بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ اہلِ کشمیر سے ان کی مرضی معلوم کی جائے اور ان کو حقِ خودارادیت دیا جائے۔ اقوام متحدہ خود اپنی قرارداد پر عمل کروانے سے پیچھے ہٹ گئی ہے، اس لیے کہ عالمی ٹھیکے داروں کے مفادات اس سے پورے نہیں ہوتے۔ اہلِ کشمیر کی بدنصیبی یہ ہے کہ انہیں جو وکیل ملے ہیں، انہوں نے اپنی قسمت امریکہ سے وابستہ کررکھی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر مشرقی تیمور سے انڈونیشی افواج کا انخلا ہوسکتا ہے تو کشمیر سے بھارتی افواج کا انخلا کیوں نہیں ہوسکتا؟ کیا اس لیے کہ اہلِ کشمیر مسلمان ہیں؟ کشمیریوں کو اور ان کے پشتی بانوں کو، اور حکومتِ پاکستان کو بھی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور بھارت پر دبائو کو آخری حد تک پہنچانے کے لیے زیادہ منظم ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔