تحفظ ناموس رسالت راولپنڈی اسلام آباد سنگم پر

تحریک لبیک کا دھرنا

احتجاجی ریلی کو نشر کرنے پر غیر اعلانیہ سنسر

سیاسی بیانیے کی دوڑ تو ہر جانب لگی ہوئی ہے، دین اور عقیدے کے بیانیے اور تحفظ کی جنگ کیوں نہیں لڑی جارہی؟ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ یورپی ممالک کے میڈیا میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہوئی ہو، یہ سلسلہ حالیہ تاریخ میں تین چار عشروں سے جاری ہے، اور مقصد یہی ہے کہ مسلم دنیا کے اعصاب کا امتحان لیا جائے۔ نائن الیون کے بعد تو اس مکروہ کھیل میں بہت تیزی آچکی ہے۔ ہالینڈ، ناروے، فرانس اور دیگر یورپی ممالک باری باری مسلم دنیا کے اعصاب کا امتحان لے رہے ہیں، مسلم دنیا کے سینے سے غازی علم دین شہید کی تاریخ کھرچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ بھی خاموش ہے، یورپی یونین بھی گونگی بہری بنی ہوئی ہے، اور مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی اندھی بنی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح
ملک کی سیاسی جماعتیں بھی مصلحت کا شکار ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی محض بیان جاری کرنے اور مذمت سے آگے نہیں بڑھ رہا، لیکن تحریک لبیک پاکستان ایک ایسی تنظیم ہے جس نے آگے بڑھ کر بند باندھنے کی اپنی حد تک کوشش کی۔ اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئی، اس کا تجزیہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا اس بات پر محاسبہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک دینی جماعت ہوتے ہوئے بھی متحرک نہیں ہوئی۔ مسلم دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی ہمیں ہمارے عقائد کے احترام کا ماحول پلیٹ میں رکھ کر نہیں دے گا، اس کے لیے ہمیں اٹھنا اور جاگنا ہوگا، اور اپنے عقائد کی حفاظت کے لیے پہرہ دینا پڑے گا۔ البتہ اس پر بات ہوسکتی ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے؟ یہ جہاد قلمی ہو یا تلوار کے ساتھ ہو؟ اور ایک اور بات ہمیں پلے باندھ لینی چاہیے کہ اس معاملے میں ہمارا کوئی دوست ہو نہ ہو، ہمارے پاس سواری ہو یا نہ ہو، وسائل میسر ہوں یا نہ ہوں، ہمیں اپنے حصے کی تکبیر کہنی ہے اور گستاخانہ خاکوں کے خالق کو دشمن جان کر اُسے اعلانیہ للکارنا ہے، ورنہ وہ ہماری جڑیں کاٹ کر رکھ دیں گے۔ اگر ہم سیاسی جماعتوں کا ہی جائزہ لیں تو مسلم لیگ(ن) نے صرف مفاہمت کے لیے مودی کو شادیوں پر بلالیا، ساڑھیاں اور آم تحفے میں بھیجے، اور وزارتِ خارجہ کا قلم دان بھی اپنے پاس ہی رکھا کہ کہیں کوئی وزیر بھارت کو کچھ بُرا بھلا نہ کہہ دے۔ مگر ہماری آنکھیں اُس وقت کھلیں جب مودی سرکار نے گزشتہ برس پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کو زبردستی اپنا حصہ بنادیا اور حتمی قانون سازی کے ذریعے اپنے تئیں یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرلیا۔ بھارتی اقدام پر ہمارے ہاں بھی کچھ دانشوروں نے کہا کہ بس اب بھارتی اقدام کو تقدیر کا لکھا سمجھو اور اس کو تسلیم کرلو کیونکہ پینٹاگون میں یہ فیصلہ ہوچکا۔ اب بھی یہی کہا جارہا ہے کہ یورپ جو کچھ کررہا ہے اسے بھی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا جائے۔ لیکن تحریک لبیک نے سب کچھ قسمت کا لکھا ہوا سمجھ کر تسلیم نہیں کیا بلکہ مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ تحریک لبیک نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کی کوشش کی ۔ تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان نے بڑی تعداد میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے سنگم میں واقع فیض آباد چوک پر دھرنا دیا۔ دھرنے کے شرکا کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس نے فیض آباد پل کو چاروں طرف کنٹینرز رکھ کر بند کردیا تھا۔ اس کے علاوہ شہر اسلام آباد میں ایکسپریس وے زیرو پوائنٹ سے کھنہ پل تک سڑک ہر طرح کی ٹریفک کے لیے بند تھی۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف تحریک لبیک پاکستان کی احتجاجی ریلی فیض آباد پہنچی تو تحریک لبیک کے کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے مابین دھکم پیل ہوئی جس کے نتیجے میں 200 کے قریب کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم حکومت سے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد تحریک لبیک یارسول اللہ نے یہ دھرنا ختم کردیا۔ معاہدے کی رو سے فرانس کا سفیر دو ماہ کے اندر پاکستان سے نکال دیا جائے گا اور فرانس میں پاکستان کا کوئی سفیر بھی تعینات نہیں کیا جائے گا، جبکہ گرفتار کیے گئے سبھی کارکنان کو جلد ہی رہا کردیا جائے گا۔ فرانس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کی دوبارہ اشاعت کے خلاف تحریک لبیک پاکستان نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ راولپنڈی کے لیاقت باغ سے اتوار کو ایک ریلی نکالی تھی جو فیض آباد کے مقام پر پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اس دوران پولیس اور ریلی کے شرکا کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں، جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے راستے، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی بند رہی، تاہم دوسری جانب شاید اس لیے دھرنے کی کوریج کی اجازت نہیں ملی، کسی چینل نے دکھانے کی زحمت کی اور نہ ہی کسی نے اسلام آباد کی یخ بستہ ٹھنڈک میں دھرنے کے شرکا میں کھانا پہنچانے میں دلچسپی لی، اور نہ کہیں حکومت کی رٹ پر سوال… یہ دھرنا بھی کوئی دھرنا تھا؟ حکومتی ٹیم اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد رات گئے پہلے حکومتی ٹیم کی جانب سے اور پھر فیض آباد کے مقام پر لگے اسٹیج پر سے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تحریک لبیک پاکستان کے نائب امیر کے پی کے شفیق امینی نے رات گئے اسٹیج سے اعلانات کرتے ہوئے مذاکرات کامیاب ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ منظور ہوچکا ہے۔ انہوں نے دھرنے کے شرکا کو بتایا کہ مذاکرات میں یہ مطالبہ بھی منظور کیا گیا ہے کہ حکومت فرانس میں پاکستانی سفیر تعینات نہیں کرے گی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق حکومتی ٹیم کی سربراہی وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کی۔ حکومتی ٹیم میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ، کمشنر اسلام آباد عامر احمد اور مشیر داخلہ شہزاد اکبر بھی شامل تھے۔ مذاکرات میں تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی بھی موجود تھے، لیکن معاہدے پر اُن کے نہیں بلکہ جماعت کی شوریٰ کے اراکین کے دستخط موجود ہیں۔ خادم حسین رضوی مذاکرات سے کچھ دیر پہلے دھرنے کے مقام پر پہنچے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزیر مذہبی امور کو مذاکرات اور معاملہ حل کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ وزارتِ مذہبی امور نے میڈیا کو باضابطہ پیغام جاری کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کی کوششیں کامیاب ہوگئیں اور وزیر مذہبی امور نے تحریک لبیک کو منا لیا ہے، علامہ خادم رضوی کچھ دیر بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کریں گے۔ تاہم اس وقت تحریک لبیک کے ترجمان عدنان دانش نے سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک علامہ خادم رضوی کی طرف سے اعلان نہیں کیا جاتا تب تک مذاکرات کامیابی کی یک طرفہ خبر درست نہیں ہے۔ تحریک لبیک کی قیادت نے اسٹیج سے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تمام گرفتار کارکنان کی رہائی کا حکم بھی جاری ہوچکا ہے جس پر عمل درآمد ہورہا ہے۔ پھر اعلان کیا گیا کہ حکومتی اراکین نے یقین دہانی کرائی ہے کہ موجودہ مارچ کے حوالے سے بھی حکومت کسی قسم کا مقدمہ درج نہیں کرے گی۔ فرانس کی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا، فرانس کے سفیر کو واپس بھیجا جائے گا اور حکومت پاکستان بھی فرانس میں اپنا سفیر تعینات نہیں کرے گی۔ تاہم وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے جاری چار نکاتی معاہدے میں یہ لکھا گیا ہے کہ حکومت دو سے تین ماہ میں پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے گی۔ فیض آباد پر دھرنے کے دوران دن کے اوقات میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی راولپنڈی کے نامعلوم مقام پر موجود تھے اوردھرنے کی سربراہی اُن کے صاحبزادے حافظ سعد کررہے تھے۔