پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افواجِ پاکستان کے شعبہ ابلاغ عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کے ہمراہ انتہائی اہم پریس کانفرنس کی ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ذرائع ابلاغ کے سامنے پاکستان میں بھارت کی دہشت گردی کی سرپرستی کے شواہد اور دستاویزات پیش کیں۔ میجر جنرل بابر افتخار نے خبردار کیا کہ نومبر اور دسمبر میں کراچی، لاہور اور پشاور میں دہشت گردی کے واقعات کا بڑا خطرہ ہے جس کی منصوبہ بندی بھارت کررہا ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارتی اداروں کے ملوث ہونے، کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت، کالعدم تنظیموں کے کارکنوں کی تربیت، اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی اور رقوم کی ترسیل کے شواہد پیش کیے گئے۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ بھارت ’’داعش پاکستان‘‘ بنانے کی سازش کررہا ہے اور اس نے حال ہی میں 30 داعش دہشت گردوں کو پاکستان کے اردگرد منتقل کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے واضح طور پر کہا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کے بعد ان کا معاون بن گیا ہے۔ بھارت نے اگست میں بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں اور ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کا کنسورشیم بنایا ہے۔ اس موقع پر بھارتی ایجنسیوں کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے سلسلے میں بینکاری ترسیلات کے ثبوت بھی پیش کیے گئے، یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ تین برسوں میں بھارت نے دہشت گرد تنظیموں کو 22 ارب روپے فراہم کیے ہیں اور وہ اس کے ذریعے سی پیک کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، افغانستان میں بھارتی سفارت خانہ اور قونصل خانے پاکستان مخالف سرگرمیوں کے گڑھ بن گئے ہیں۔ دہشت گردوں اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے اہلکاروں کی گفتگو کی صوتی و بصری ریکارڈنگز بھی سنوائی اور دکھائی گئیں۔ اس موقع پر ٹی ٹی پی کمانڈروں کو اسلحہ، رقوم اور تربیت کی فراہمی کے علاوہ ایم کیو ایم الطاف حسین گروپ کو لاکھوں ڈالر کی فراہمی کے بارے میں اجمل پہاڑی کے ابتدائی بیان کا حوالہ بھی دیا گیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا کہ ’’ہمارے پاس بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں جو ڈوزیئر کی شکل میں قوم اور عالمی برادری کے سامنے رکھیں گے‘‘۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا کہ پاکستان مزید خاموش نہیں رہے گا، اور ساتھ ہی یہ بھی انکشاف کیا کہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارتی وزیراعظم کی براہِ راست نگرانی میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کا خصوصی سیل بنایا گیا ہے جسے 80 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں، اور اس پر عمل درآمد کے لیے 700 افراد پر مشتمل ملیشیا بنائی گئی ہے۔
وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی مشترکہ پریس کانفرنس میں جو ثبوت اور شواہد پیش کیے گئے ہیں وہ قوم کے لیے کوئی انکشاف نہیں ہے۔ قوم اچھی طرح اس بات سے واقف ہے کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے اور اُس نے پاکستان کے وجود کو اس کے قیام کے وقت سے ہی تسلیم نہیں کیا ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحے میں بھارت کا کھلا کردار سامنے ہے ہی، جبکہ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اس سلسلے میں اپنے ذاتی کردار کا اعتراف کرچکے ہیں، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان، اس کے عسکری اداروں اور وزارتِ خارجہ نے عالمی سطح پر بھارت کی دہشت گردی کی سرپرستی کے شواہد اور ثبوت عالمی اداروں کے سامنے کیوں نہیں پیش کیے؟ بھارت پاکستان پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات مسلسل عاید کرتا رہا، لیکن صرف ایک موقع پر یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم بھارت من موہن سنگھ کے سامنے بلوچستان میں بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں بات کی۔ پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا عہدیدار کلبھوشن سنگھ رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا، اس کے باوجود حکمرانوں نے بھارت کے مقابلے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس کی ایک صاف وجہ ہے، اور وہ یہ کہ اس خطے میں بدامنی اور دہشت گردی کے لیے بھارت کو امریکی شہ حاصل ہے۔ نائن الیون کے پُراسرار حادثے کے بعد جب امریکہ نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے حوالے سے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ کا آغاز کیا اور پاکستان کو مجبور کیا تو اُس وقت محب وطن ومحب اسلام عمایدین نے خبردار کیا کہ امریکہ فوج اور قوم کو باہم متصادم کرنا چاہتا ہے اور اس خطے میں امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی تکون قائم ہوگئی ہے، اس لیے امریکی جنگ کو پاکستان کی حدود میں نہ لایا جائے۔ اس حقیقت کا بعد میں عسکری و سیاسی قیادت کی جانب سے اعتراف تو کیا گیا اور کہا گیا کہ ہم غیروں کی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے، لیکن اس جنگ کے منفی اثرات سے بچائو نہیں ہوسکا۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کا موقع مل گیا ہے۔ امریکی غلامی کی وجہ سے پاکستان کے مقتدر طبقات مظلوم کشمیریوں کی جنگ لڑنے میں بھی کمزوری دکھا رہے ہیں۔ اصل امتحان حکومت کا یہ ہے کہ وہ عالمی اداروں میں بھارت کی دہشت گردی کے شواہد پیش کرے اور دنیا کو بتائے کہ امنِ عالم کو خطرہ کن قوتوں سے ہے۔