۔’’کہاں سے بات شروع کی جائے‘‘۔ یہ علی شریعتی کی تقریر کا ایک جملہ ہے۔ علی شریعتی زمانہ شہنشاہیت میں انقلابی افکار کے ذریعے ایرانی قوم کے نوجوانوں کو بیدار کررہے تھے۔ ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تو علی شریعتی اس دنیا سے جاچکے تھے اور قوم نے ایک طاقتور بادشاہت کو زمین بوس کردیا تھا۔ اپنے احساسات اور خیالات کو تحریر کی شکل دینے کے لیے علی شریعتی کے اس جملے کو بنیاد بناکر ماضی کی تلخ وشیریں یادوں کو محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے اسکول کا زمانہ اخبارات میں ٹارزن کی کہانیاں پڑھنے کا دور تھا۔ میرے گھر کے سامنے ایک حمام تھا۔ حمام میں چونکہ جنگ اور انجام اخبار آتے تھے اس لیے اخبار سے دلچسپی ٹارزن کی کہانی تک محدود تھی۔ چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھتا تھا۔ ماہنامہ ’’تعلیم و تربیت‘‘ اور ’’بچوں کی دنیا‘‘ وغیرہ باقاعدہ پڑھتا تھا۔ اسلامیہ ہائی اسکول گھر کے بہت قریب تھا اس لیے والدین نے اس اسکول میں داخل کرایا تھا۔ مذکورہ حمام کے مالک سردار فیض محمد زئی تھے۔ سردار صاحب کا تعلق افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کے قریبی رشتے داروں سے تھا۔ ان کے گھر میرا آنا جانا تھا۔ سردار صاحب کے بیٹے بھی اسلامیہ اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ 1958ء میں ایوب خان نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اس خبر نے سردار فیض محمد زئی کو خوف زدہ کردیا اور انہوں نے اپنے 3 ساتھیوں سمیت افغانستان فرار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کے ہمراہ آغا سلطان ابراہیم احمد زئی تھے جن کا سردار فیض محمد کے گھر آنا جانا روز کا معمول تھا، وہ جب بھی آتے تو اپنے چہرے کو پگڑی کے ایک پلو سے ڈھانک لیتے تھے، اُن کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی تھی۔ وہ ایک قدآور شخصیت کے مالک تھے۔ آغا سلطان ابراہیم احمد زئی بلوچستان کے سابق ڈپٹی اسپیکر آغا عبدالظاہر اور آغا عبدالخالق کے والد تھے۔ سردار فیض محمد زئی آغا سلطان ابراہیم احمد زئی اور ایک ساتھی کے ہمراہ افغانستان کے لیے ایک ٹیکسی میں فرار ہورہے تھے، یہ ٹیکسی جب چمن کے قریب پہنچی تو اُلٹ گئی۔ اس حادثے میں آغا سلطان احمد زئی زندگی کی بازی ہار گئے۔ باقی دو ساتھی زخمی ہوئے، جنہیں گرفتار کرلیا گیا۔ سردار فیض محمد زئی پر مقدمہ چلا اور انہیں 14 سال کی سزا ہوگئی۔ وہ کچھ عرصہ جیل میں رہے اور پھر رہا کردیے گئے۔ جیل سے رہا ہوئے تو راسپورٹین کی طرح لمبی داڑھی تھی اور نمازی تھے۔ اُن سے روزانہ حمام میں ملاقات ہوتی تھی۔ بعد میں داڑھی صاف کردی۔ وہ بہت خوش مزاج اور خوش لباس شخصیت کے مالک تھے اور خوبصورت بھی تھے۔ یہ میرے اسکول کا زمانہ تھا۔ ایک دن اخبار جنگ میں ایک اشتہار شائع ہوا، ایک تصویر بھی تھی، اور اشتہار کی سرخی تھی:۔
’’ہبت خان گم ہوگئے ہیں، اطلاع دینے والے کو انعام بھی دیا جائے گا‘‘۔ یہ شاید 1959ء کا واقعہ تھا۔ ہبت خان کون تھا یہ میرے علم میں نہیں ہے، چونکہ اخبار پڑھتا تھا تو اس اشتہار پر نظر پڑ گئی تھی، اس لیے یاد رہا۔ میٹرک کا نتیجہ نکلا تو پاس ہوگیا تھا، اس لیے کالج میں داخلہ لے لیا۔ 1962ء کا سال تھا، یہ بڑے خوبصورت اور یادگار دن تھے جو ناقابلِ فراموش ہیں۔ یہ دن جب یاد آتے ہیں تو کھو سا جاتا ہوں۔ سیکنڈ ایئر میں تھا تو ایک دن پروفیسر رئیس احمد (مرحوم) نے اعلان کیا کہ کوئٹہ اور مچھ جیل کا وزٹ کرنا ہے۔ یہ ہمارے مضمون کا حصہ تھا۔ اپنے تمام کلاس فیلوز کے ہمراہ بس میں سوار ہوئے اور کوئٹہ جیل پہنچ گئے۔ سپرنٹنڈنٹ نے جیل کی تفصیل بتائی اور استادِ محترم سے کہا کہ طالب علموں کو قیدیوں سے زیادہ بات چیت نہ کرنے کی ہدایت کردیں۔ اس کے بعد ہم جیل کے اندر داخل ہوگئے۔ یہ موسم بہار تھا۔ ہم نے دائیں طرف سے قیدیوں کو دیکھنا شروع کیا۔ اس دور میں احاطہ خوبصورت جنگلے میں گھرا ہوا تھا، پھول لگے ہوئے تھے، یہ کوئی 10 یا 11 بجے کا وقت تھا، ہم ایک ایک کرکے احاطے سے گزر رہے تھے، ایک احاطے کے قریب پہنچے تو ہمیں کہا گیا کہ یہ ایک سیاسی قیدی ہے، اس سے آپ بات چیت نہیں کریں گے۔ یہ قیدی سفید کھدر کے لباس میں ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ ہم سب نے دور سے اشاروں سے سلام کیا اور ہاتھ اٹھائے تو اس نے بھی ہاتھ اٹھائے اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ یہ قیدی نواب محمد اکبر خان بگٹی تھے۔ وہ جس احاطے میں تھے وہ White House کہلاتا تھا۔ یہ احاطہ صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے وزیراعظم سہروردی کے لیے بنایا تھا جو چند دنوں میں تیار ہوگیا تھا۔ بعد میں انہیں ملک بدر کردیا گیا اور سابق وزیراعظم سہروردی بیروت ہی میں فوت ہوگئے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ انہیں زہر دیا گیا۔ سہروردی نے اپنی داستانِ حیات بیروت میں لکھی جو بڑی دلچسپ ہے۔ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ایوب خان نے اسکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو انہوں نے اسکندر مرزا کو کوئٹہ جیل میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہائٹ ہائوس کو فوری رنگ و روغن کردیا گیا، مگر بعد میں ایوب خان نے ارادہ بدل دیا اور انہیں ملک بدر کردیا۔
نواب بگٹی شہید سے میرا پہلا تعارف جیل میں ہوا۔ میں جیل کے جس احاطے میں نواب بگٹی کو دیکھ رہا تھا میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس میں مجھے قیدی کے طور پر رہنا پڑے گا اور وہ بھی نواب اکبر خان بگٹی کی حکومت کے قیدی کے طور پر۔ مجھ پر نواب کی حکومت نے بغاوت کا مقدمہ قائم کیا تھا۔ یہ 1973ء کا زمانہ تھا جب بھٹو نے نیپ کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا، اور اس اقدام کے خلاف تقریر کی تو مقدمہ بنادیا گیا اور میں وائٹ ہائوس کا قیدی تھا۔ میرا نواب بگٹی سے پہلا تعارف جیل کے قیدی کے طور پر تھا۔ پھر دوسرا تعارف اور بالمشافہ ملاقات اُس وقت ہوئی جب میں سول اسپتال میں زخمی تھا۔ یہ ایوب خان کا دور تھا اور ہم طالب علم احتجاج کرتے تھے اور جلسہ و جلوس نکالتے تھے، پولیس سے تصادم میں مجھے آنسو گیس کا شیل لگا اور میں زخمی ہوگیا۔ جنرل ایوب خان کا تختہ جنرل یحییٰ خان نے الٹ دیا اور اس نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا تو نواب بگٹی بھی رہا ہوگئے۔ وہ گھر پہنچے، اس کے بعد اسپتال آئے تو اُن کے ساتھ ایک جم غفیر تھا۔ وہ میرے بیڈ کے پاس آئے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے زیادہ جدوجہد کی ہے، ہم تو صرف جیل میں تھے، آپ طالب علم زیادہ قابلِ احترام ہیں۔ یہ نواب بگٹی سے دوسری ملاقات تھی۔ پولیس سے تصادم میں میری دائیں آنکھ زخمی ہوگئی تھی اور بینائی ختم ہوگئی تھی۔ کوئی 4 ماہ اسپتال میں رہا۔ آپریشن ہوا، جو کامیاب ہوا تو بینائی لوٹ آئی۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ اپنے دوست اور غمگسار ضیا الدین ضیائی کو کہا کہ چلیں نواب بگٹی کے پاس چلتے ہیں تاکہ ان کا شکریہ ادا کریں۔ نواب کے گھر پہنچے، ان کی بیٹھک میں ملاقات ہوئی۔ اُس وقت تک نواب کے اس کمرے کو شہرت حاصل نہ تھی۔ جب نواب نے دوبارہ سیاست کا آغاز کیا تو یہ کمرہ ’’بگٹی ہائوس‘‘ کہلایا۔ کئی سیاست دانوں نے اپنی رہائش گاہ کو اپنے نام سے منسوب کیا، مگر وہ ’’بگٹی ہائوس‘‘ کا مقام حاصل نہ کرسکیں۔
جب ہم دونوں نواب سے ملے تو اُن کی گفتگو بڑی طنزیہ تھی، وہ جملہ بازی کرتے رہے اور آنکھوں میں شوخی جھلک رہی تھی، جبکہ ہم پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ اُس وقت کمرے میں صوفے تھے، فرشی نظام نہیں تھا۔ ہم دونوں کو نواب کی یہ روش پسند نہ آئی۔ باہر نکلے تو میں نے ضیائی سے کہا کہ نواب بڑی عجیب شخصیت کے مالک ہیں، ہم ان سے ملنے گئے اور شکریہ ادا کیا کہ وہ اسپتال آئے، تو وہ مسلسل طنزیہ گفتگو کرتے رہے۔
نواب بگٹی سے تیسری ملاقات بڑی دلچسپ اور تاریخی تھی۔ نواب سے یہ دوستانہ یا سیاسی یارانہ دسمبر 1974ء سے شروع ہوا اور دسمبر 1975ء تک رہا۔ ان تمام لمحات اور دلچسپ ملاقاتوں کو قلم بند کرنے کا ارادہ کرلیا ہے، اور یہ تمام نشیب و فراز میری نگاہوں میں ہیں۔ حیرت انگیز اور تاریخی لمحات تھے جس میں بلوچستان کی تاریخ کے مدوجزر شامل ہیں۔ جو کچھ دیکھا اور سنا اسے تحریر کی شکل دینا چاہتا ہوں۔ کسی کو خوشگوار لگے یا ناگوار گزرے، سب کو تاریخ کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔ بہت سے سربستہ راز ہیں جو حیرت انگیز اور ہوش رُبا ہیں۔ یہ طلسماتی دنیا کی طرح ہیں۔ نواب بگٹی شہید کی خواہش تھی کہ اُن کی زندگی کے لمحات کو قلم بند کروں۔ وہ کہتے تھے کہ تمہاری تحریر خوبصورت ہے اور مجھے پسند ہے، تم میری سوانح حیات لکھو، تم کو سب کچھ بتادوں گا۔ تم ڈیرہ بگٹی آجائو، ایک ہفتہ رہو اور میری کہانی قلم بند کردو۔ نواب کا کہنا مجھے اب بہت مضطرب کردیتا ہے کہ کیوں اُن کی داستان اُن کی زندگی میں مرتب نہ کیض ان سے میری آخری گفتگو دسمبر 2005ء کو شام ڈھلے ہوئی۔ امان اللہ کنرانی سے ملنے گیا تو وہ نواب سے فون پر بات کررہے تھے، ان سے اشاروں میں کہا کہ میری گفتگو نواب صاحب سے کرائیں اور میرا سلام کہیں۔ امان نے فون پر بتایا کہ شادیزئی سلام کہہ رہا ہے۔ اس کے بعد اُس نے مجھے فون تھمادیا تو نواب کا پہلا جملہ یہ تھا کہ تم نے تو میری خبر بھی نہیں لی اور جو کچھ میرے ساتھ ہورہا ہے تم نے لکھا ہے؟ ان سے کہا کہ لکھ رہا ہوں سعودی عرب کے میگزین میں۔ انہوں نے کہا کہ اس کو کون پڑھتا ہے؟ پاکستان کے اخبارات میں لکھو۔ ان سے کہا کہ ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں لکھ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ قلم چھوڑو میرے پاس لڑنے کے لیے آجائو۔ اُن سے کہا کہ آجائوں گا، حج پر جارہا ہوں۔ پوچھا کہ تمہارے 900 پورے ہوگئے ہیں؟ ان سے کہا کہ نہیں۔ وہ خوب ہنسے۔ تم حج کرکے میرے پاس آجائو تم کو سب کچھ بتادوں گا، کوئی راز نہیں رکھوں گا۔ یہ جملہ انہوں نے اُس وقت کہا جب میں نے اُن سے کہا کہ نواب صاحب آپ کے سینے میں بہت سے راز ہیں، اس سے پہلے کہ آپ دنیا سے رخصت ہوجائیں مجھے بتائیں، کوئی اور نہیں لکھے گا، میں لکھ دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ سب کچھ بتادوں گا، تمہارا انتظار کروں گا۔