قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:۔
۔’’مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش بکنے والا اور نہ زبان دراز‘‘۔ (ترمذی، بیہقی)۔
غیبت کی تعریف یہ ہے کہ ’’آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے‘‘۔ یہ تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت جسے مسلم، ابودائود، ترمذی، نسائی اور دوسرے محدثین نے نقل کیا ہے، اس میں حضورؐ نے غیبت کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے:
”غیبت یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اُسے ناگوار ہو‘‘۔ عرض کیا گیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو اس صورت میں آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا ”اگر اس میں وہ بات پائی جاتی ہو تو تُو نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں وہ موجود نہ ہو تو تُو نے اس پر بہتان لگایا۔“
ایک دوسری روایت جو امام مالکؒ نے موطا میں حضرت المطلب بن عبداللہ سے نقل کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:۔
”ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ”غیبت کیا ہے؟“ ”آپؐ نے فرمایا” یہ کہ تُوکسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے ناگوار ہو“۔ اس نے عرض کیا ”یا رسول اللہؐ! اگرچہ میری بات حق ہو؟“ آپؐ نے جواب دیا” اگر تیری بات باطل ہو تو یہی چیز پھر بہتان ہے۔“
ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اُس کے پیچھے جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے، اور اُس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت۔ یہ فعل خواہ صریح الفاظ میں کیا جائے یا اشارے و کنائے میں، بہر صورت حرام ہے۔ اسی طرح یہ فعل خواہ آدمی کی زندگی میں کیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد، دونوں صورتوں میں اس کی حرمت یکساں ہے۔ ابودائود کی روایت ہے کہ ماعزبن مالک اسلمی کو جب زنا کے جرم میں رجم کی سزا دے دی گئی تو نبیؐ نے راہ چلتے ایک صاحب کو اپنے دوسرے ساتھی سے یہ کہتے سن لیا کہ ’’اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا، مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا، جب تک کہ یہ کتے کی موت نہ مار دیا گیا‘‘۔ کچھ دور آگے جاکر راستے میں ایک گدھے کی لاش سڑتی ہوئی نظر آئی۔ حضورؐ رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلاکر فرمایا: ’’اتریے اور اس گدھے کی لاش تناول فرمایئے‘‘۔ ان دونوں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ! اسے کون کھائے گا؟‘‘ فرمایا: ”ابھی ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کررہے تھے، وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بری تھی۔“
(سنن ابی دائود، کتاب الحدود باب رجم)
اس حرمت سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی شخص کے پیٹھ پیچھے، یا اس کے مرنے کے بعد اس کی برائی بیان کرنے کی کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو جو شریعت کی نگاہ میں ایک صحیح ضرورت ہو، اور وہ ضرورت غیبت کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہو، اور اس کے لیے اگر غیبت نہ کی جائے تو غیبت کی بہ نسبت زیادہ بڑی برائی لازم آتی ہو۔ نبیؐ نے اس استثنیٰ کو اصولاً یوں بیان فرمایا ہے:۔
”بدترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرنا ہے۔“
(سنن ابی دائود، کتاب الادب، باب فی غیبتہ)
اس ارشاد میں ’’ناحق‘‘ کی قید یہ بتاتی ہے کہ ’’حق‘‘ کی بنا پر ایسا کرنا جائز ہے۔ پھر خود نبیؐ ہی کے طرزعمل میں ہم کو چند نظیریں ایسی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ’’حق‘‘ سے مراد کیا ہے اور کس قسم کے حالات میں غیبت بقدر ضرورت جائز ہوسکتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک بدو آکر حضورؐ کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ ’’خدایا! مجھ پر رحم کر اور محمدؐ پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر‘‘۔ حضورؐ نے صحابہؓ سے فرمایا:۔
”تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا تھا؟“
(سنن ابی دائود، کتاب الادب، باب من لیست، لہ غیبہ)
یہ بات حضورؐ کو اس کے پیٹھ پیچھے کہنی پڑی، کیونکہ وہ سلام پھیرتے ہی جاچکا تھا۔ اس نے چونکہ حضورؐ کی موجودگی میں ایک بہت غلط بات کہہ دی تھی، اور آپؐ کا اس پر خاموش رہ جانا کسی شخص کو اس غلط فہمی میں ڈال سکتا تھا کہ ایسی بات کہنا کسی درجے میں جائز ہوسکتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ آپؐ اس کی تردید فرمائیں۔
ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا۔ ایک حضرت معاویہؓ، دوسرے حضرت ابوالجہم۔ انہوں نے آکر حضورؐ سے مشورہ طلب کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’معاویہ مفلس ہیں اور ابوالجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں‘‘ (بخاری و مسلم)۔ یہاں ایک خاتون کے لیے مستقبل کی زندگی کا مسئلہ درپیش تھا، اور حضورؐ سے انہوں نے مشورہ طلب کیا تھا۔ اس حالت میں آپؐ نے ضروری سمجھا کہ دونوں صاحبوں کی جو کمزوریاں آپؐ کے علم میں ہیں وہ انہیں بتادیں۔
ایک روز حضورؐ حضرت عائشہؓ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص نے آکر ملاقات کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے۔ پھر آپؐ باہر تشریف لے گئے اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔ گھر میں واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: آپؐ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی حالانکہ باہر جاتے وقت آپؐ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا۔ جواب میں آپؐ نے فرمایا:”خدا کے نزدیک قیامت کے روز بدترین مقام اس شخص کا ہوگا جس کی بدزبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔“(صحیح مسلم)۔
اس واقعے پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ حضورؐ نے اس شخص کے متعلق بری رائے رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھی طرح بات چیت تو اس لیے کی کہ آپ کا اخلاق اسی کا تقاضا کرتا تھا۔ لیکن آپؐ کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپؐ کے گھر والے آپؐ کو اس سے مہربانی برتتے دیکھ کر کہیں اسے آپؐ کا دوست نہ سمجھ لیں اور بعد میں کسی وقت وہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے، اس لیے آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو خبردار کردیا کہ وہ اپنے قبیلے کا برا آدمی ہے۔
ایک موقع پر حضرت ابوسفیان کی بیوی ہند بنتِ عتبہ نے آکر حضورؐ سے عرض کیا کہ ’’ابوسفیان ایک بخیل آدمی ہیں، مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضرورت کے لیے کافی ہو‘‘۔ بیوی کی طرف سے شوہر کی غیر موجودگی میں یہ شکایت اگرچہ غیبت تھی، مگر حضورؐ نے اس کو جائز رکھا، کیونکہ مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ظلم کی شکایت کسی ایسے شخص کے پاس لے جائے جو اس کو رفع کرا سکتا ہو۔
سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان نظیروں سے استفادہ کرکے فقہا و محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے، جب کہ ایک صحیح (یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو، اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہو‘‘۔