حضرت عیسیٰ بن یونس رحمتہ اللہ علیہ مشہور محدثین میں سے ہیں۔ صحاحِ ستہ میں ان کی روایات موجود ہیں۔ حضرت امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ جیسے حضرات ان کے استاذ ہیں اور اسحق بن راہویہؒ جیسے حضرات ان کے شاگرد۔ ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے والد یونسؒ بھی ان کے شاگرد تھے۔ ان کا واقعہ ملّا علی قاریؒ نقل فرماتے ہیں کہ جب ہارون رشید حج کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آیا تو قاضی القضاۃ امام ابویوسفؒ کو حکم دیا کہ وہ شہر کے مشہور محدثین کو ملاقات کے لیے اس کے پاس لے کر آئیں۔ امام ابویوسفؒ نے تمام محدثین کے پاس پیغام بھیجا تو مکہ مکرمہ کے تمام محدثین جمع ہوگئے، مگر حضرت عبداللہ بن ادریسؒ اور حضرت عیسیٰ بن یونسؒ تشریف نہ لائے۔ ہارون رشیدؒ کو جب یہ معلوم ہوا تو اُس نے اپنے دونوں صاحبزادوں امین اور مامون کو حضرت عیسیٰ بن یونسؒ کے پاس بھیجا کہ ان سے احادیث پڑھ کر آئیں۔ جب یہ دونوں ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے خوشی سے حدیث پڑھا کر انہیں واپس بھیج دیا۔ ہارون رشید نے اس کے صلہ میں عیسیٰ بن یونسؒ کے پاس دس ہزار درہم روانہ کیے، مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ہارون رشید سمجھے کہ انہوں نے دس ہزار درہم کو کم سمجھ کر رد کیا ہے، اس لیے اُس نے دوبارہ دوگنی رقم بھیج دی۔ جب یہ رقم حضرت عیسیٰ بن یونسؒ کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا: ’’اگر کوئی مجھے حدیث کے معاوضے میں اس مسجد کو چھت تک سونے سے بھر کر پیش کرے تب بھی میں اسے قبول نہ کروں گا‘‘۔ چنانچہ ہارون رشید نے پھر رقم قبول کرنے پر اصرار نہ کیا۔
ان ہی حضرت عیسیٰ بن یونسؒ کی عادت تھی کہ وہ ایک سال حج کرتے تھے، اور ایک سال جہاد، لہٰذا انہوں نے اپنی عمر میں 45 حج کیے اور 45 جہاد۔
(”تراشے“…مفتی محمد تقی عثمانی)
سب سے زیادہ خوش کون؟۔
کسی جنگل میں ایک کوّا رہتا تھا۔ وہ خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ اس نے ایک بطخ کو دیکھا اور سوچنے لگا:
’’یہ بطخ کتنی سفید ہے، جبکہ میری رنگت سیاہ ہے۔ اسے دنیا میں سب سے زیادہ خوش و خرم ہونا چاہیے‘‘۔ اس نے اپنا خیال بطخ پر ظاہر کیا۔
بطخ نے کہا: ’’میرا خیال تھا کہ میں دنیا میں سب سے مطمئن پرندہ ہوں۔ جب میں نے طوطے کو دیکھا، جس کے دو رنگ تھے، تو میں سوچنے پر مجبور ہوئی کہ طوطا اپنی تخلیق میں سب سے خوش اور مطمئن پرندہ ہے‘‘۔
کوّے نے طوطے کو ڈھونڈ کر وہی بات کہی۔ طوطے نے بتایا:’’میں ایک پُرسکون زندگی گزار رہا تھا، یہاں تک کہ میں نے ایک مور کو دیکھا۔ میرے دو رنگ تھے، مور کے بے شمار رنگ تھے‘‘۔
کوّا چڑیا گھر میں مور کے پاس گیا اور دیکھا کہ بے شمار لوگ اسے دیکھنے کے لیے جمع ہیں۔ جب لوگ چلے گئے تو کوّا مور کے پاس گیا اور اس سے کہا: ’’پیارے بھائی مور! تم اتنے خوب صورت ہو۔ ہر روز سیکڑوں لوگ تمہیں دیکھنے آتے ہیں۔ جب لوگ مجھے دیکھتے ہیں تو فوراً ہش کرکے بھگا دیتے ہیں۔ میرے خیال میں کرۂ ارض پر تم سب سے زیادہ خوش رہنے والے پرندے ہو‘‘۔
مور نے جواب دیا: ’’میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ میں دنیا میں سب سے خوب صورت اور خوش رہنے والا پرندہ ہوں، لیکن میری خوب صورتی کے باعث مجھے پکڑ کر یہاں چڑیا گھر میں بند کردیا گیا ہے۔ میں نے چڑیا گھر کا بہت احتیاط سے جائزہ لیا ہے۔ پتا چلا کہ صرف ایک پرندہ جو چڑیا گھر میں قید نہیں، وہ کوّا ہے۔ چنانچہ چند دنوں سے میں سوچ رہا ہوں کہ اگر میں کوّا ہوتا، تو خوش و خرم کھلی فضا میں گھوم پھر رہا ہوتا‘‘۔
ہم سب کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ ہم غیر ضروری طور پر دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہیں اور اداس ہوجاتے ہیں۔ ہم اس کی قدر نہیں کرتے جو خدا نے ہمیں دے رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم ایک ناخوشی کے نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ آپ کے پاس جو کچھ ہے، اس میں خوش رہنے کی کوشش کریں، نہ کہ اُن چیزوں کے بارے میں سوچتے رہیں جو آپ کے پاس نہیں ہیں۔ دنیا میں کوئی نہ کوئی شخص ہمیشہ رہے گا، جس کے پاس آپ سے زیادہ یا کم ہوگا۔ جو شخص خود کو دستیاب نعمتوں پر مطمئن ہے، وہ دنیا میں سب سے زیادہ خوش اور پُرسکون زندگی گزار رہا ہے۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ نومبر 2018ء)
احترامِ استاد
خلیفہ واثق عباسی(842ء۔ 847ء) کا یہ دستور تھا کہ جب بھی اس کا اتالیق محمد بن زیاد دربار میں آتا تو اسے اپنی مسند پہ بٹھاتا اور خود اس کے قدموں میں بیٹھ جاتا۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہاکہ یہ وہ پہلا انسان ہے جس نے میری زبان کو اللہ کے ذکر اور مجھے اللہ کی رحمت سے آشنا کیا تھا۔
مفلسی
٭غریبوں کے ساتھ ہمیشہ دوستی رکھو اور امیروں کی مجلس سے پرہیز کرو۔
٭مجھے غریبوں میں تلاش کرو، کیونکہ غریبوں کے ذریعے ہی سے تمہیں مدد اور روزی ملتی ہے۔
٭کوئی فقیر اور غنی ایسا نہیں جسے قیامت میں یہ تمنا نہ ہو کہ اس کو بقدرِ ضرورت یعنی گزارے کے لائق دیا جائے۔(حضور پاکؐ)
٭فقیر وہ ہے جس کے پاس نہ دنیا کی کوئی چیز ہو، نہ اُسے کسی چیز کے ملنے کی خوشی ہو اور نہ کسی چیز کے تلف کرنے سے رنج ہو۔ (حضرت داتا گنج بخش)
٭مساکین کو ناخوش رکھ کر خدا کی خوشنودی ناممکن ہے۔ جو مصیبت تم پر آئے اس کا علاج مسکین کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ (حضرت جنید بغدادی)۔