حالیہ انتخابی تنازع اس اعتبار سے بہت سنگین ہے کہ معاملہ صرف گنتی کا نہیں بلکہ صدر ٹرمپ کو ووٹنگ کے سارے نظام پر اعتراض ہے
امریکی تاریخ کے دھماکہ خیز ”عام“ یا Popular انتخابات اپنے انجام کو پہنچے۔ تادم تحریر صدر ٹرمپ نتائج تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور وہ ڈیموکریٹک پارٹی پر انتخاب چوری کرنے کا الزام لگارہے ہیں۔ ہم نے انتخابات سے پہلے قوسین میں عام اس لیے لکھا ہے کہ 3 نومبر کو جو اعصاب شکن معرکہ برپا ہوا اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں، اور اصل انتخاب 14 دسمبر کو ہوگا۔ ”اصل“ انتخابات کی تفصیل مضمون کے اختتام پر پیش کی جائے گی۔ آگے بڑھنے سے پہلے قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ ان انتخابات میں تینوں مسلمان ارکانِ کانگریس نے اپنی نشستیں برقرار رکھیں۔ انڈیانا سے آندرے کارسن، مینی سوٹا سے محترمہ الحان عمر، اور مشی گن سے رشیدہ طلیب نے 65 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ الحان اور رشیدہ کو مسلم مخالف گروپوں نے خصوصی ہدف بنایا تھا۔ صدارتی انتخاب جیتنے کے باوجود پارلیمانی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ سینیٹ پر ری پبلکن کی بالادستی برقرار رہنے کا امکان ہے۔ ایوانِ نمائندگان پر ڈیموکریٹس کی برتری شاید برقرار رہے، لیکن ان کا پارلیمانی حجم سکڑتا نظر آرہا ہے۔ کانگریس کے حوالے سے گفتگو ان شا اللہ آئندہ کسی نشست میں۔
جہاں تک انتخابی نتائج پر تنازعے کا تعلق ہے تو یہ امریکہ میں پہلا واقعہ نہیں۔2000ء کے انتخابات میں بھی اسی قسم کا ہنگامہ کھڑا ہوا، لیکن اُس بار معاملہ صرف ریاست فلوریڈا تک محدود تھا جب85 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر ری پبلکن پارٹی کے امیدوار جارج بش کو اپنے حریف ایلگور پر ایک لاکھ ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔ رات دس بجے ابلاغ عامہ کے اداروں نے فلوریڈا سے جارج بش کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ اُس وقت فلوریڈا کے لیے مختص الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 25 تھی، چنانچہ جارج بش کا مجموعی اسکور 271 ہوگیا جو کامیابی کے ہدف یعنی 270 سے ایک زیادہ تھا۔ نتائج دیکھ کر ایلگور نے اپنی شکست تسلیم کرلی اور جارج بش کے رقص کرتے حامی سڑکوں پر آگئے۔ دوسری طرف گنتی جاری رہی اور صبح چار بجے جب یہ مرحلہ مکمل ہوا تو جارج بش کی برتری صرف 2000 رہ گئی، جبکہ ڈاک سے آنے والے ووٹوں کی گنتی ابھی باقی تھی۔ اس اطلاع پر ایلگور نے اعترافِ شکست واپس لے لیا اور دونوں طرف سے کامیابی کے دعوے شروع ہوگئے۔ باقی ماندہ ووٹ شمار کرنے پر فرق 500 سے بھی کم رہ گیا۔ انتخابی ضابطے کے تحت اگر ووٹوں کا فرق نصف فیصد سے کم ہو تو دوبارہ گنتی ہارنے والے امیدوار کا حق ہے۔ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ایلگور نے چار کائونٹیز کے ووٹوں کی ہاتھ سے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا، جبکہ جارج بش کا مؤقف تھا کہ ساری ریاست کے ووٹ دوبارہ شمار کیے جائیں اور وقت بچانے کے لیے گنتی مشین سے کی جائے۔ معاملہ ریاستی سپریم کورٹ میں گیا۔ قانون کی رو سے دسمبر کی 12 تاریخ تک نتائج کا مکمل ہونا ضروری تھا۔ عدالتی کھینچ تان میں 10 تاریخ آگئی اور ایلگور نے یہ کہہ کر دوبارہ گنتی کی درخواست واپس لے لی کہ ”ایلگور کے صدر نہ بننے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی، لیکن امیدواروں کے درمیان جھگڑے اور بے ایمانی کے الزامات سے اگر امریکی نظامِ انتخابات مشکوک قرار پایا تو دنیا کا امریکی جمہوریت پر سے اعتماد ختم ہوجائے گا“۔ سرکاری نتائج کے مطابق جارج بش نے فلوریڈا کا معرکہ 537 ووٹ یا 0.0009فیصدسے جیت لیا۔
حالیہ انتخابی تنازع اس اعتبار سے بہت سنگین ہے کہ معاملہ صرف گنتی کا نہیں بلکہ صدر ٹرمپ کو ووٹنگ کے سارے نظام پر اعتراض ہے۔ اِس بار کورونا وبا کی وجہ سے تقریباً 40فیصد رائے دہندگان نے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالے۔ ساری دنیا کی طرح ضعیف، معذور اور ملک سے باہر رہنے والے امریکی شہریوں کو ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے جس کے لیے ووٹروں کو معقول وجہ کے ساتھ درخواست دینی ہوتی ہے۔ لیکن وبا کے پیش نظر ڈاک ووٹنگ کے لیے اکثر ریاستوں میں شرائط ساقط کردی گئیں اور کئی ریاستوں نے درخواست کے تکلف کے بغیر تمام رجسٹرڈ ووٹروں کو بیلٹ پیپر ڈاک کے ذریعے بھیج دیے۔
صدر ٹرمپ کو اس بندوبست پر سخت اعتراض تھا۔ امریکی صدر نے خدشہ ظاہر کیا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے زیرانتظام ریاستیں بڑے پیمانے پر خالی بیلٹ پیپر بھیج کر جعلی ووٹ بھگتائیں گی۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ جرائم پیشہ لوگوں اور غیر قانونی تارکین وطن کو بیلٹ پیپر بھیجے جارہے ہیں۔ ریاستوں کی انتظامیہ نے صدر کے ان اعتراضات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیلٹ یپپر ووٹر رجسٹریشن کی شناخت کے بعد بھیجے جارہے ہیں اور واپس آنے والے ہر لفافے کو رائے دہندہ کے دستخط کی تصدیق کے بعد کھولا جائے گا۔ دستخط کی تصدیق اور پرچہ انتخاب کی گنتی مشاہدین (observers)کی موجودگی میں ہوگی۔ صدر ٹرمپ کو ایک اور اعتراض پوسٹل بیلٹ کی وصولی پر تھا۔ امریکی صدر کا اصرار تھا کہ صرف ان ہی پوسٹل بیلٹ کو شمار کیا جائے جو روزِ انتخاب یعنی 3 نومبر تک متعلقہ کائونٹی کے انتخابی دفتر پہنچ جائیں۔ صدر کے اس مطالبے کو تمام ریاستوں نے مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو پرچہ انتخاب 3 نومبر کو شام سات بجے سے پہلے حوالہ ڈاک کردیے گئے، ان سب کو شمار کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں گزشتہ انتخابات کی مثال دی گئی جہاں بیرونِ ملک تعینات امریکی فوجیوں اور سفارتی عملے کے پوسٹل بیلٹ کے لیے ایک ہفتہ انتظار کیا جاتا ہے۔ اپنی فریاد لے کر صدر ٹرمپ سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ صدر نے اپنی درخواست میں خدشہ ظاہر کیا کہ ڈاک کے ذریعے انتخابات سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا خطرہ ہے، لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔ عدالتِ عظمیٰ نے صدر کی درخواست کو قبل از مرگ واویلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاستوں نے رائے دہندگان کی تصدیق کی جو ضمانتیں دی ہیں ان سے عدالت مطمئن ہے۔ اگر گنتی کے دوران درخواست گزار کو بے ضابطگی کا مشاہدہ ہو تو وہ عدالت کو شکایات کی بروقت سماعت کے لیے تیار پائیں گے۔
اس کے باوجود صدر ٹرمپ ڈاک کے ذریعے انتخاب پر خدشات کا اظہار کرتے رہے اور انتخابی جلسوں میں انھوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ پوسٹل بیلٹ کے بجائے پولنگ اسٹیشن جاکر ووٹ ڈالیں اور ڈیموکریٹس کی متوقع بے ایمانی پر نظر رکھنے کے لیے پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑے رہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بدعنوانی کے خدشے کے علاوہ صدر ٹرمپ پوسٹل بیلٹ کے اس لیے بھی خلاف تھے کہ انتخاب کے دن پولنگ مراکز کے ویران ہونے سے کورونا وبا کی شدت کا احساس ہوگا۔ ان کا مؤقف ہے کہ مخالفین نے انھیں ہرانے کے لیے کووڈ 19 کا ہوّا کھڑا کررکھا ہے ورنہ حکومت کی شاندار حکمت عملی کے نتیجے میں یہ وبا خاتمے کے قریب ہے۔ اپنی تقریروں میں انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ طبیب و معالج پیسے کمانے کے لیے کورونا سے مرنے والوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔
اکتوبر کے وسط میں قبل از وقت یا Earlyووٹنگ کا آغاز ہوا۔ کچھ ریاستوں میں یہ سلسلہ ستمبر کے آخر سے شروع کردیا گیا۔ اِس بار معمول سے بہت زیادہ انتخابی مراکز قائم کیے گئے تھے، بلکہ کئی جگہ Drive-inپولنگ کا بھی انتظام تھا جہاں ووٹر ATMمشین کی طرح اپنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ووٹ ڈال سکتے تھے۔ اکثر گرجا گھروں، مساجد، مندروں اور گوردواروں کو پولنگ مرکز بنایا گیا۔ کئی مقامات پر 24 گھنٹے ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی موجود تھی۔ اِس بار پوسٹل بیلٹ اور قبل از وقت ووٹنگ میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا اور 3 نومبر سے پہلے ہی گیارہ کروڑ ووٹروں نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرلیا، جن میں پوسٹل بیلٹ کا تخمینہ ساڑھے چھ کروڑ تھا۔ 2016ء میں کُل 13 کروڑ 50 لاکھ ووٹ ڈالے گئے تھے۔
اب آتے ہیں امریکہ کے سیاسی و نظریاتی جغرافیہ کی طرف، جس سے قارئین کو متحارب جماعتوں کی حکمتِ عملی سمجھنے میں مدد ملے گی۔ امریکی سیاست روایتی نوعیت کی ہے اور اکثر ریاستوں میں کسی ایک جماعت کو کئی دہائیوں سے برتری حاصل ہے۔ صدارتی انتخاب چونکہ الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوتے ہیں اس لیے جن ریاستوں میں فتح یقینی ہو وہاں ووٹ بڑھانے کی کوئی سعی نہیں کی جاتی کہ الیکٹورل ووٹ کے لیے بس جیتنا ضروری ہے۔ ووٹوں کے تناسب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اگر آپ امریکہ کے نقشے پر نظر ڈالیں تو بحراوقیانوس کے کنارے شمال میں کینیڈا کی سرحد پر ریاست مین سے جنوب میں ورجینیا تک ڈیموکریٹک پارٹی کا زور ہے۔ ان ریاستوں میں نیویارک، نیوجرسی، میساچیوسٹس، امریکی دارالحکومت واشنگٹن، میری لینڈ، نومنتخب صدر جوبائیڈن کی ریاست ڈیلویئر، وورمونٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح مغرب میں بحرالکاہل کا ساحل بھی ڈیموکریٹس کا گڑھ ہے جہاں کیلی فورنیا، اوریگن، ریاست واشنگٹن اور اسی کے ساتھ جوئے کا عالمی مرکز نیواڈا ہے۔
دوسری طرف خلیج میکسیکو کے ساحل سے شمال میں کینیڈا تک کا وسطی علاقہ نیو میکسیکو اور کولوریڈو کے استثنیٰ کے ساتھ ری پبلکن کا قلعہ ہے۔ گرم مرطوب موسم کی بنا پر جارجیا سے ٹیکساس تک کے جنوبی حصے کو سن بیلٹ (Sun Belt)کہاجاتا ہے۔ نظریاتی شناخت کے حوالے سے اس علاقے کو بائیبل بیلٹ (Bible Belt) بھی کہتے ہیں۔ شمال میں وسط مغرب کا علاقہ نظریاتی اعتبار سے لبرل و آزاد خیال ہے۔
امریکی انتخابات میں عام طور سے فلوریڈا، شمالی کیرولائنا، اوہایو، ورجینیا اور نیوہیمپشائر میں گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ شمال مشرق میں نیویارک سے وسط مغرب تک پنسلوانیا، مشی گن اور وسکونسن کی ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں جنھیں ڈیموکریٹس فخر سے نیلی دیوار کہتے ہیں۔ 2016ء میں صدر ٹرمپ نے یہ تینوں ریاستیں جیت کر نیلی دیوار کو زمین بوس کردیا تھا، اور اسی کامیابی نے جناب ٹرمپ کے لیے قصر مرمریں کا دروازہ کھولا تھا، یا یوں کہیے کہ ہاتھی ڈیموکریٹک قلعے کی نیلی دیوار کو روندتا ہوا وہائٹ ہاؤس پہنچ گیا۔
بوسیدہ نیلی دیوار کی تعمیر نو 2020ء کے لیے ڈیموکریٹس کا بنیادی ہدف تھا۔ اس کے علاوہ ان کی نظریں جنوبی سن بیلٹ میں فلوریڈا، جارجیا اور شمالی کیرولائنا پر بھی تھیں۔ صدر ٹرمپ کی حکمت عملی یہ تھی کہ 2016ء میں جیتی جانے والی ریاستوں پر گرفت مضبوط رکھی جائے، چنانچہ ان کی پوری توجہ نیلی دیوار اور فلوریڈا پر تھی۔
انتخابی مہم کے دوران جوبائیڈن نے کورونا وائرس کے بے قابو پھیلائو کو صدرٹرمپ کی نااہلی کا شاخسانہ قرار دیا۔ اس نامراد وائرس سے ڈھائی لاکھ امریکی ہلاک ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ کے قریب افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ خود صدر ٹرمپ بھی اس مرض میں مبتلا ہوئے لیکن علاج کے بعد جلد شفایاب ہوگئے۔ جس کے بعد انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے امریکی عوام کو تسلی دی کہ کورونا ایسا بھی مہلک نہیں جیسا یہ سائنس دان بیان کررہے ہیں۔ اسے سر پر سوار کرنے کے بجائے اس ناسور کو میری طرح حوصلے سے شکست دو۔ تاہم عام امریکی صدر کی طفل تسلی سے مطمئن نہ ہوئے بلکہ اکثریت نے صدر کے رویّے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔
کورونا کے بعد دوسرا بڑا انتخابی نکتہ سیاہ فاموں اور رنگ دار امریکیوں سے پولیس کا امتیازی سلوک ہے جسے عمرانیات کے علما ادارہ جاتی نسل پرستی یا (Systemic Racism)کہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں رنگ داروں کے خلاف منظم تعصب کا مسلسل انکار کرتے رہے۔ اسی طرح ہسپانوی تارکین وطن سے بدسلوکی اور معصوم بچوں کو والدین سے علیحدہ کرکے پنجرہ نما حراستی مراکز میں ٹھونسنے پر بھی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
صدر ٹرمپ کی شکست میں بہت سے عوامل نے کردار ادا کیا ہے، لیکن غالب خیال ہے کہ ٹرمپ سرکار کو کورونا چاٹ گیا۔ رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بات سامنے آئی کہ امریکیوں کی اکثریت کووڈ 19 سے نبٹنے کے لیے امریکی حکومت کی حکمت عملی کو غیر مؤثر اور اس معاملے میں صدر کو غیر سنجیدہ سمجھتی ہے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ کورونا سے زندگی اور اسبابِ زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ لوگوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ مستقبل قریب میں وبا مزید مہلک ہوجائے گی۔
کورونا کے حوالے سے عوام کا اضطراب ان کے ووٹ ڈالنے کے انداز سے بھی نمایاں تھا کہ رائے دہندگان کی اکثریت نے پوسٹل بیلٹ کی سہولت استعمال کی، اور ہجوم سے بچنے کے لیے early voting مراکز کا رخ کیا۔ نتائج کے تجزیے سے یہ دلچسپ مشاہدہ بھی سامنے آیا کہ پوسٹل بیلٹ استعمال کرنے والے ستّر سے اسّی فیصد لوگ جوبائیڈن کے حامی تھے، اور اسی تفاوت کو جناب ٹرمپ دھاندلی کے ثبوت کے طور پر پیش کررہے ہیں۔
ٹیکساس اور اوہایو میں پوسٹل بیلٹ پہلے گنے گئے اور جوبائیڈن نے صدر ٹرمپ پر واضح برتری حاصل کرلی، لیکن جب 3 نومبر کو ڈالے جانے والے ووٹ کی گنتی شروع ہوئی تو جوبائیڈن کی برتری بتدریج ختم ہوگئی اور امریکی صدر نے ان دونوں ریاستوں میں کامیابی حاصل کرلی۔
اس کے برعکس پنسلوانیا، مشی گن، ایریزونا اور وسکونسن میں پہلے 3 نومبر کو ڈالے جانے والے ووٹوں کے نتائج جاری ہوئے اور صدر ٹرمپ نے لاکھوں ووٹوں کی برتری حاصل کرلی۔ منگل کو نصف شب تک ایسا لگ رہا تھا کہ گویا ان ریاستوں سے ڈیموکریٹس کا صفایا ہوگیا۔ لیکن رات تین بجے کے بعد جب پوسٹل بیلٹ کی گنتی شروع ہوئی تو پانسہ ایک دم پلٹ گیا۔ پہلے صدر ٹرمپ کی برتری ختم ہوئی اور آخرکار ان تمام ریاستوں میں جوبائیڈن نے کامیابی حاصل کرلی۔ پنسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا میں کاؤنٹی کے مرکزی انتخابی مرکز کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر کے فرزند ایرک ٹرمپ نے کہا کہ 80 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے تک پنسلوانیا میں میرے والد کو 5لاکھ ووٹوں کی سبقت حاصل تھی اور اب ہر نئے اعلان میں 80 سے 85 فیصد ووٹ جوبائیڈن کے حق میں نکل رہے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ پوسٹل بیلٹ پنسلوانیا کے شہریوں کے ہیں یا نئے ووٹ آسمان سے نازل ہورہے ہیں کہ ٹرینڈ ہی تبدیل ہوگیا؟ نتائج کی ایسی کایا پلٹ ہمیں بھی مشکوک لگ رہی ہے۔ ایرک ٹرمپ نے یہ الزام بھی لگایا کہ پوسٹل بیلٹ گنتے وقت ری پبلکن پارٹی کے مشاہدین کو گنتی کی میز سے 20 فٹ دور جانے کے لیے کہا گیا۔ کاؤنٹی حکام کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ کورونا کے حفاظتی اقدامات تھے۔
انھی شکوک و شبہات کی بنیاد پر صدر ٹرمپ نے نتایج کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ مشی گن، وسکونسن، جارجیا اور ایریزونا میں دوبارہ گنتی کی درخواست دے رہے ہیں۔ ان کے قانونی مشیروں کا کہنا ہے کہ پانچ ریاستوں میں انتخابی عذرداری داخل کی جارہی ہے جن میں انتخابی نظام کی شفافیت پر سوال اٹھائے جائیں گے۔ اسی کے ساتھ صدر کے وکلا نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا عندیہ بھی دیا جہاں پورے انتخابی مرحلے کی عدالتی چھان بین کی درخواست کی جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی رفقا سے کہا ہے کہ دھاندلی اور فراڈ کے خلاف وہ عوامی مہم چلانے کے بارے میں بھی غور کررہے ہیں۔
تادم تحریر صدر ٹرمپ نے انتخابی عذرداری دائر نہیں کی لیکن 9 نومبر کو مختلف ریاستوں کے ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اٹارنی جنرلوں کی انجمن نے امریکی سپریم کورٹ میں عدلیہ کے ”خیرخواہوں“ کی حیثیت سے ایک درخواست جمع کرائی ہے جس میں فاضل جج صاحبان سے امریکی انتخابات میں ہونے والی مبینہ بدعنوانیوں کا نوٹس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔ امریکی عدالتیں ازخود یا سوموٹو نوٹس نہیں لیتیں۔ تاہم قومی اہمیت کے معاملے پر عدالت سے توجہ کی درخواست دی جاسکتی ہے جسے قانونی اصطلاح میں amicus briefکہتے ہیں۔
صدرٹرمپ کی عذرداریوں کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا جواب تو ماہرینِ قانون ہی دے سکتے ہیں، لیکن ضابطے کی رو سے تمام تنازعات کا 8 دسمبر سے پہلے تصفیہ ضروری ہے، جس کے 6 دن بعد وہ ”اصل“ انتخاب ہونا ہے جس کا ذکر ہم نے مضمون کے آغاز میں کیا۔ اور گفتگو ختم کرتے ہوئے اسی موضوع پر چند سطور: ۔
امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل وفاق ہے اور صدر کا چناؤ ایک کلیہ انتخاب یا (Electoral College) سے ہوتا ہے۔ الیکٹورل کالج میں وفاق کی تمام اکائیوں یعنی ریاستوں کو ان کی ابادی کے مطابق نمائندگی دی گئی، اور ہر ریاست سے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے لیے جتنے رکن منتخب کیے جاتے ہیں الیکٹورل کالج میں وہی اس ریاست کی نمائندگی کا حجم ہے۔ انتخابات سے پہلے سیاسی پارٹیاں جب اپنے صدارتی امیدواروں کے انتخاب (ٹکٹ) کے لیے سالانہ اجتماع منعقد کرتی ہیں اُس وقت کلیہ انتخاب کے ارکان بھی نامزد کردیے جاتے ہیں جنھیں Electorsکہا جاتا ہے۔ عام انتخابات کے دوران ریاست میں زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کے electors انتخابی کالج کے ارکان تصور ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پنسلوانیا میں ڈیموکریٹس نے میدان مارلیا ہے، لہٰذا اس کے تمام کے تمام 18 نامزد نمائندے ریاستی الیکٹرز ہیں۔
14 دسمبر کو ریاستی صدر ہائے مقام اور وفاقی دارالحکومت واشنگٹن میں الیکٹرز صدر و نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوگی۔ 33 ریاستوں میں الیکٹرز اسی امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند ہیں جس نے انھیں نامزد کیا ہے، جبکہ دوسری ریاستوں میں الیکٹرز اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ امریکہ کی قابلِ فخر جمہوری روایت ہے کہ گزشتہ 244 سال کے دوران ایک بار بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ جب الیکٹرز نے خیانت کی ہو۔
ریاستوں کے کلیہ ہائے انتخاب سے پولنگ اور گنتی کے مصدقہ نتائج بند لفافے میں چیئرمین سینیٹ (نائب صدر) کو بھیج دیے جائیں گے۔ واشنگٹن میں ان نتائج کی وصولی کی آخری تاریخ 23 دسمبر ہے۔ چند دہائی پہلے تک ریاستوں سے الیکٹورل کالج کے منقش بیلٹ بکس خصوصی بگھیوں کے جلوس میں وفاقی دارالحکومت پہنچائے جاتے تھے۔ اب یہ تکلف ختم ہوگیا اور ڈاک کے ذریعے لفافے بھیج دیے جاتے ہیں۔
6 جنوری 2021ء کو کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہوگا۔ نائب صدر مائیک پینس جو سینیٹ کے سربراہ بھی ہیں، ہر ریاست کے لفافے کھول کر الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی تفصیل سنائیں گے۔ ایک ایک ریاست کے ووٹ گننے کے بعد نائب صدر نتائج کا اعلان کریں گے جو صدارتی انتخاب کا سرکاری اور حتمی اعلان ہوگا، اور 20 جنوری کو واشنگٹن کے عظیم الشان جلسہ عام میں امریکی سپریم کورٹ کے سینئر جج نائب صدر اور قاضی القضاۃ نومنتخب صدر سے حلف لیں گے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں