امور خارجہ کے ماہرین کا تجزیہ
ٹرمپ، جوبائیڈن معرکہ امریکی صدارتی انتخاب کا ایک اہم ملاکھڑا تھا، اس انتخابی معرکے سے متعلق فرائیڈے اسپیشل نے خارجہ امور کے ماہرین سے گفتگو کی جن کے مطابق دفتر خارجہ میں بھی نتائج کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی برادری کے لیے اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وائٹ ہائوس کا یہ نیا مکین امریکی خارجہ پالیسی کو دوبارہ ٹرمپ سے پہلے کے دور میں لے جائے گا؟ یا اس میں تبدیلی آئے گی؟ آغاز میں تو جوبائیڈن کو مقامی مسائل سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ امریکہ میں اس وقت بھی کورونا نے سنگین صورت اختیار کی ہوئی ہے، اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی تقسیم اور نسلی تعصب کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جوبائیڈن کا پہلا کام تو انتشار کے شکار ملک کو متحد کرنا ہوگا۔ نومنتخب امریکی صدر نے انتخابات کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں امریکہ کے صدر کے طور پر اپنے فرائض انجام دوں گا، یہاں کوئی نیلی یا سرخ ریاستیں نہیں ہوں گی، صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہوگی‘‘۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ امریکہ کی اندرونی سیکورٹی پر مامور اداروں نے گزشتہ سال ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کو دہشت گردی سے زیادہ سفید فام انتہاپسندی اور بڑھتی ہوئی نسل پرستی سے خطرہ ہے۔ امریکی کانگریس کے انتخابات کا نتیجہ بھی ایک چیلنج بن سکتا ہے، کیونکہ سینیٹ میں ری پبلکن جماعت کی اکثریت نظر آرہی ہے، بائیڈن کو ایک حکومت مخالف سینیٹ کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے، تاہم صدر ٹرمپ کی طرح جوبائیڈن کے پاس بھی صدارتی حکم نامے جاری کرنے کا اختیار بہرحال موجود ہے۔ یہ انتخابات امریکہ میں موجود معاشرتی بحران، سیاسی ثقافت کے زوال اور الگ تھلگ ہوجانے کے احساس جیسے سنجیدہ مسائل کو حل نہیں کرسکیں گے۔ ٹرمپ کو 2016ء کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملنا اس بات کی علامت ہے کہ ٹرمپ ازم کی حمایت اب بھی برقرار ہے اور انہوں نے نسل پرستی اور نفرت کا جو بیج بویا تھا وہ اس کو ایک تناور درخت بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگر ٹرمپ مستقبل میں بھی متحرک سیاسی کردار ادا کرتے رہے تو یہ بائیڈن کے لیے ایک اور مشکل ہوگی۔ بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بائیڈن کی امورِ خارجہ کی ٹیم میں کون لوگ شامل ہوں گے؟ کیونکہ افراد کے انتخاب سے خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین ہوسکے گا۔ جوبائیڈن کو خارجہ امور کا بہت وسیع تجربہ ہے، وہ طویل عرصے تک سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں، اس کے علاوہ وہ بارک اوباما کے ساتھ نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اس لیے ٹرمپ کی پالیسیوں کے برخلاف بائیڈن خارجہ پالیسی کے لیے ایک روایتی راستہ اختیار کریں گے۔ ٹرمپ کی ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی یک طرفہ پالیسی کے برخلاف بائیڈن ایک لبرل سیاست دان ہیں جو امریکہ کی کثیرالجہتی شناخت کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی ”سب سے پہلے امریکہ“ کی پالیسی کا نتیجہ تنہا امریکہ کی صورت میں سامنے آیا، اور وہ امریکہ کی قائدانہ حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم بائیڈن کی صدارت میں ایک متوازن خارجہ پالیسی کی واپسی، اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کی توثیق، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی فعالیت، پیرس میں ہونے والے موسمی معاہدے میں واپسی اور نیٹو جیسے اتحادیوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تجدید جیسے اقدامات دیکھ سکتے ہیں۔ بائیڈن کی ایک اہم ترجیح امریکہ کی تباہ شدہ بین الاقوامی ساکھ کو بہتر بنانا ہوگی، جس کا ثبوت کئی سروے میں ملتا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ انہیں پیو ریسرچ کے حالیہ سروے سے بھی بہت معلومات ملتی ہیں کہ امریکہ کی عالمی ساکھ تاریخ میں کم ترین سطح پر ہے۔ واشنگٹن کے اتحادی ممالک میں سے متعدد امریکہ اور خاص طور پر ٹرمپ کے حوالے سے منفی سوچ رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیوں کے چار برسوں نے دنیا اور عالمی نظام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، اس کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اس کا اثر رسوخ کم ہوگیا ہے، جبکہ اس کی سافٹ پاور میں بھی کمی آئی ہے جس کا چین اور روس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جوبائیڈن اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ افغانستان اور وہاں سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں جوبائیڈن کے خیالات ٹرمپ سے بہت مختلف نہیں ہوں گے۔ نہایت متحرک سابق سیکرٹری خارجہ کے مطابق وہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے ناقد رہے ہیں اور 2009ء میں اوباما کے دورِ صدارت میں انہوں نے بطور نائب صدر افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کی تھی۔ 2020ء کے آغاز میں ایک انٹرویو میں بائیڈن سے پوچھا گیا کہ افغانستان میں اگر طالبان اقتدار میں آگئے تو وہ کیا کریں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ میری ذمے داری نہیں ہے، میری ذمے داری یہ ہے کہ امریکہ کے قومی مفادات کی حفاظت کروں اور ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرنے کی خاطر امریکی مرد و خواتین کی جان کو خطرے میں نہ ڈالوں۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی فعالیت ٹرمپ کی پالیسیوں سے ایک واضح اختلاف ہوگا۔ اب یہاں ہمیں جوبائیڈن کی جانب دیکھتے ہوئے محتاط رہنا ہوگا، بائیڈن نے بار بار یہ بات دہرائی ہے کہ اگر ایران جوہری معاہدے کی پاسداری اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اسے مضبوط کرنے پر راضی ہو تو وہ اس معاہدے کو دوبارہ فعال کریں گے، بائیڈن کا خیال ہے کہ اس سے امریکہ کی بالادستی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم سعودی عرب پر بائیڈن کی تنقید کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ اس خطے کے حوالے سے بائیڈن کی پالیسی کیا ہوگی؟ جہاں تک اسرائیل کا سوال ہے تو اسرائیل کے حوالے سے امریکہ کی ایک ہی پالیسی چلتی آرہی ہے اور آئندہ بھی اس پالیسی کے تحت امریکہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا۔ امریکی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا چیلنج امریکہ اور چین کے تعلقات ہوں گے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے اثرات صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں رہیں گے۔ ٹرمپ نے چین سے تعلقات کو اپنی محاذ آرائی کی پالیسی کی وجہ سے سخت دشمنی میں تبدیل کردیا تھا، امریکہ میں چین مخالف خیالات کی وجہ سے ممکن ہے کہ بائیڈن بھی اس حوالے سے سخت پالیسی ہی اختیار کریں، لیکن ٹرمپ کے برخلاف بائیڈن کم جارحانہ پالیسی اپنائیں گے اور چین کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ وہ موسمی تغیر جیسے عالمی مسائل پر اشتراکِ عمل کی بھی کوشش کریں گے۔ چین کی بات کی جائے تو وہ بھی امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے بائیڈن کی توجہ حاصل کرنا چاہے گا۔ چین کے نائب وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں امید ظاہر کی تھی کہ نئی امریکی قیادت چین کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور دونوں ممالک اختلافات کو دور کرنے کے لیے تعاون پر توجہ مرکوز کریں گے۔