ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخاب میں شکست کھا چکے ہیں۔ اوباما دور کے نائب صدر جوزف بائیڈن اب صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ ٹرانزیشن یعنی اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ جوبائیڈن کو ریاستی مشینری نے فاتح امیدوار کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہار گئے ہیں، مگر اُن کا دور شاید نہیں ہارا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو کچھ ڈونلڈ ٹرمپ نے چار سال کے دوران کیا ہے اُسے ایسی آسانی سے undo نہیں کیا جاسکتا۔
ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت کا امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونا پوری دنیا کے لیے حیرت انگیز تھا۔ یہ ہونا ہی تھا کیونکہ ان کی شخصیت میں قائد والی تو کوئی بھی بات نہ تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے والد نیویارک کے ایک معروف رئیل اسٹیٹ ڈیلر تھے۔ ٹرمپ نے ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جس میں ’’ڈیل‘‘ کو نمایاں ترین مقام حاصل تھا۔ خالص کاروباری سوچ ٹرمپ کو والد سے ملی۔ اس سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے انہوں نے کاروباری دنیا میں نام بنایا اور دام کمائے۔ وہ شروع ہی سے کاروباری ذہن کے اور خاصے بڑبولے تھے۔ اپنی شخصیت کو ہر حال میں غیر معمولی حد تک نمایاں رکھنا ان کا بنیادی مشغلہ اور مسئلہ تھا۔ انہوں نے کاروبار کی دنیا میں آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر اینکرنگ بھی کی، خطیب بھی رہے، کتابیں بھی لکھیں۔ معاشقے بھی کم نہیں رہے۔ ان کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ ناجائز تعلقات کے معاملے میں خطرناک حد تک آگے تھے۔ ان سے ناجائز تعلقات استوار کرنے والی کئی خواتین نے بعد میں ان کے خلاف مقدمات بھی دائر کیے۔
ایک دنیا حیران تھی کہ اس قسم کا آدمی امریکی صدر کے منصب پر کیونکر فائز ہوسکتا ہے! امریکی اسٹیبلشمنٹ نے باریک کام کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بے بصیرت شخص کو صدر کے منصب پر بٹھاکر اس نے اپنی مرضی کے تمام فیصلے کرائے۔ دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ ایک اُول جلول آدمی یہ فیصلے کررہا ہے۔ تنقید بھی ہوتی رہی اور رونا بھی رویا جاتا رہا، مگر صرف ٹرمپ کے خلاف۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ صاف بچ نکلی۔ کسی کا دھیان اس امر کی طرف گیا ہی نہیں کہ بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے جو فیصلے ٹرمپ نے کیے ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت ہی پر کیے گئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی متعارف کرائی ہوئی پالیسیوں سے جان چھڑانا جوبائیڈن کے لیے کسی بھی طور آسان نہ ہوگا۔ وہ ڈیموکریٹ ہیں اور دنیا کو توقع ہے کہ وہ پالیسی کے معاملات میں ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ قابلِ قبول ہوں گے۔ یقیناً، مگر یہ نکتہ کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کرنا جوبائیڈن کے لیے بھی آسان ہوگا، نہ ممکن۔ انہیں بھی چند حدود و قیود میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔ ہاں، ٹرمپ کے مقابلے میں ان کی طرف سے overture یقینی طور پر کم ہی ہوگا۔
گلوبل ریسرچ ڈاٹ سی اے کے لیے ایک مضمون میں آسکر رکیٹ (Oscar Rickett) نے لکھا ہے کہ امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونے کے چار ماہ بعد 21 مئی 2017ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انہوں نے سعودی دارالحکومت ریاض میں گلوبل سینٹر فار کامبیٹنگ ایکسٹریمسٹ آئیڈیالوجی کا افتتاح کیا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب انتہا پسندی کو روکنے کا فریضہ خود بڑے مسلم ممالک کو ادا کرنا ہے۔ اس موقع پر میڈیا کے سامنے سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے علاوہ مصر کے آمر حکمران جنرل عبدالفتاح السیسی بھی موجود تھے۔ یہ سب کچھ علامتی تھا، یعنی امریکی قیادت دنیا کو بتادینا چاہتی تھی کہ اب وہ اپنی بیرونی ذمہ داریوں سے بہت حد تک سبک دوش ہونا چاہتی ہے، اور یہ کہ بڑے ممالک کو بہت کچھ اپنے طور پر بھی کرنا چاہیے۔
اسلام اور مسلمانوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ انہوں نے صدر بننے سے پہلے کئی مواقع پر کہا کہ امریکہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ صرف مسلمان ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں آباد مسلمانوں کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کا بھی عندیہ دیا تھا۔ یہ گویا اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ امریکہ میں مسلمانوں کو نمایاں حیثیت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے ایک ہفتے بعد ہی انہوں نے ایگزیکٹو آرڈر 13769 کے ذریعے مسلم اکثریت والے متعدد ممالک سے لوگوں کی آمد پر پابندی عائد کردی تھی۔ نومبر 2015ء میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مسلمان ہیں۔ یہ کہنا عجیب لگتا ہے مگر غلط نہ تھا، کیونکہ امریکہ نے دنیا بھر میں مسلم ممالک کے خلاف جو کچھ کیا ہے اس پر امریکہ کے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور امریکی قیادت سے نفرت کرنا حیرت انگیز ہے نہ غیر متوقع۔ افغانستان، عراق اور شام میں امریکہ نے جو کھیل کھیلا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ مسلمان آسانی سے بھول جائیں۔
ٹرمپ امریکی ایوانِ صدر سے نکلنے کو ہیں مگر ٹرمپ ازم رہے گا، کیونکہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اُسے ایک طرف ہٹانا ایسا آسان نہیں۔ انہوں نے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ لگاکر دنیا کو بتادیا کہ اب امریکہ کسی بھی ملک کے لیے کوئی فریضہ ادا نہیں کرے گا اور کسی کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گا۔ یورپ کا راستہ بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ ایسے میں امریکہ کا راہ بدلنا حیرت انگیز نہیں۔
ٹرمپ نے پوری کوشش کی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں معاملات مزید الجھ جائیں، بگاڑ بڑھ جائے تاکہ یہ خطہ خرابی ہی کی نذر رہے اور عالمی سیاست میں کوئی اہم، مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہ ہوسکے۔ مشرقِ وسطیٰ میں خرابیاں برقرار رہنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں مرکزی قیادت یا تو ابھرتی نہیں، یا اگر ابھرتی ہے تو زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتی۔ ترکی نے مسلم دنیا میں مرکزی قیادت کی بات شروع کی ہے۔ سعودی عرب ابھی تک دامن بچا رہا ہے۔ یو اے ای، سوڈان اور بحرین نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرکے یہ بتادیا ہے کہ وہ اب بھی امریکہ ہی کی آغوش میں بیٹھے ہیں۔
آسکر رکیٹ کے مطابق ٹرمپ کے بارے میں سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ غیر سنجیدہ مزاج کے ہیں۔ انہوں نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو دشمنوں کے ساتھ ساتھ حلیفوں اور اتحادیوں کے نزدیک بھی ہدفِ استہزا ہی ہیں۔ ایران کے خلاف جاکر اور اسرائیل کو زیادہ نواز کر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ میں خرابیوں کا دائرہ وسیع تر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، اور اس معاملے میں وہ اس حد تک گئے ہیں کہ کئی حلیف بھی ناراض سے ہیں۔ بڑی طاقتوں نے ایران سے جو جوہری معاہدہ کیا تھا ٹرمپ نے امریکہ کو اس سے بھی نکال لیا۔ مقصود صرف یہ تھا کہ خطے میں عدم استحکام برقرار رہے۔ اسرائیل کی طرف جھکاؤ نے مزید خرابی پیدا کی ہے۔
ٹرمپ نے اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران بھی عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی اور پھل پایا۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران یہ بات بار بار کہی کہ امریکہ دنیا کو بہت کچھ دے رہا ہے مگر اسے صلے میں کچھ زیادہ نہیں مل رہا۔ یہ توگویا
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
والا معاملہ تھا۔ آسکر رکیٹ لکھتے ہیں کہ صدر منتخب ہونے کے لیے پہلی انتخابی مہم میں ٹرمپ نے ہر وہ حربہ آزمایا تھا جو آزمایا جاسکتا تھا۔ اس معاملے میں انہوں نے کسی بھی اخلاقی حدود و قیود کی پروا نہیں کی۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف بول کر عام امریکی کے جذبات کو اپیل کیا اور دوسری طرف نسل پرستی کو بھی ہوا دی۔ سفید فام نسل کی برتری کے تصور کو ٹرمپ نے کھل کر بیان کیا، اور یہ عندیہ دیا کہ وہ غیر سفید فام نسلوں کی برتری کسی حال میں قبول نہیں کرسکتے۔
پالیسی کے معاملات میں ٹرمپ کی سوچ خالص کاروباری رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اگر دنیا کے لیے کچھ کررہا ہے تو وصولی بھی کرے۔ امریکہ کتنی وصولی کرچکا ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں، مگر پھر بھی ٹرمپ نے یہ تاثر دیا کہ امریکہ دے زیادہ رہا ہے اور لے کم رہا ہے۔ یہ سب کچھ ان کی طرف سے نیا یا حیرت انگیز بالکل نہ تھا۔ انہوں نے ستمبر 1987ء میں امریکہ کے تمام بڑے اخبارات میں پورے صفحات کے اشتہار دیئے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ جاپان، سعودی عرب اور دیگر، مالی اعتبار سے مضبوط ممالک کے دفاع کی ذمہ داری نبھانے کا زیادہ معاوضہ وصول کیا جائے۔ انہوں نے ٹی وی انٹرویوز میں بھی یہی بات کہی تھی اور کویت سے بھی زیادہ وصولی پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اب مزید ہدفِ استہزا نہ بننے دیا جائے۔
ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد پہلا بیرونی دورہ سعودی عرب کا کیا تھا۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرسکتے۔ انہوں نے سعودی عرب اور مصر میں مطلق العنان حکومت برقرار رکھنے پر توجہ دی تاکہ مسلم دنیا میں فکری انتشار برقرار رہے اور قیادت کا بحران ختم نہ ہو۔
اسرائیل کو نوازنے کے معاملے میں بھی ٹرمپ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو دیوار سے لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ نام نہاد امن معاہدے کو انہوں نے ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کا نام دیا۔ فلسطینیوں نے اس معاہدے کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا۔ ٹرمپ کے گرد ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو اسرائیل میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کے حامی ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو ان بستیوں کی تعمیر کے لیے عطیات دیتے رہے ہیں۔ ٹرمپ کو مشرقِ وسطیٰ میں خرابی پیدا کرنے کا شوق کس حد تک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متعلقہ پالیسیوں پر ان کے داماد جیررڈ کشنر کے علاوہ ان کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے دو بڑے وکلا ڈیوڈ فرائیڈ مین اور جیسن گرین بلیٹ کے اثرات انتہائی نمایاں ہیں۔ ڈیوڈ فرائیڈ مین مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے حامی ہی نہیں ہیں بلکہ سالانہ بنیاد پر عطیات جمع کرنے کی مہم بھی چلاتے رہے ہیں۔ مشرقی بیت المقدس کو اسرائیل کا باضابطہ دارالحکومت بنانے کے حامی شیلڈن ایڈلسن نے 2016ء میں ٹرمپ کو انتخابی مہم کے لیے لاکھوں ڈالر کا عطیہ بھی دیا تھا۔ ٹرمپ صاف کہہ چکے ہیں کہ فلسطینیوں کے معاملے میں وہ غیر جانب دار ہیں مگر مزاحمت اور دہشت گردی کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔